مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی، انڈیا
پیارے حبیب خاتم المرسین ﷺ کے چہیتوں اور امت کے سب سے مکرم ومحترم اور اللہ رب العالمین کی پسندیدہ اور منتخب جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کےبارے میں قیامت تک آنے والے بنی نوع انسان میں سے کس کو ایک لفظ بھی ایسا استعمال کرنے کی نہ تو اجازت ہے اورنہ حق واختیار جس سے ان کی تنقیص ہوتی ہو یاان کی شان میں کمی کا تاثر پیداہوتاہو۔اگر کوئی شخص ایسا کرنے کی جرأت کرتاہےچاہے شیعہ ہو،سنی ہو،دیوبندی ہو،بریلوی ہو،وہابی ہو یا اہل حدیث ہو۔ہمہ شما کوئی بھی ہو،وہ شریعت اسلامی کی نظر میں گستاخ ہی تصور کیاجائے گا۔
اگر کوٸی شخص ایسا کرنے کی جسارت کررہاہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان مندرجہ ذیل تین زمروں میں شامل کررہاہے۔جو بلاریب دنیاوآخرت دونوں میں باعث ہلاکت وبربادی ہے۔
1۔صحابہ یاصحابیات کےبارے میں تنقیدی زبان کھولنے کا مطلب یہ ہواکہ سب سے پہلے تو وہ قران کے راوی کو متہم کررہاہے اورراوی قران کومتہم کرنا،نعوذ باللہ قرآن مجید کی حقانیت کو مشکوک کرنے کی نازیبا حرکت ہے۔اس لئے کہ جب کسی بات کو کہنے والا شخص ہی کیریکٹر کا ہلکا قرار پاجائے گا تو اس کے حوالے سے آئی ہوئی بات بھی اس درجہ کی نہیں رہے گی جو اس کامقام ہے۔اسی کے ساتھ آپ اس بات کوبھی شامل کرلیجیے کہ کسی آدمی کی ذات پر تبصرہ یا اس کی بات کی تردید کی جرأت وہی کر سکتا ہے،جو اپنے آپ کو اس معیار یا کٹیگری کا انسان سمجھتاہے۔بھلا یہ بتائیے ایساکرنےوالےاور اپنے ذہنی مفروضےسے کسی صحابی کو صحیح اورکسی کو غلط ہونے کی رائےقایم کرنے والے شخص کا قد اتنااونچاہے یاہوسکتا؟ ہرگز نہیں،کوئی اپنے زمانے کا کتنا ہی بڑے سے بڑا آدمی بن جائے ایک ادنی صحابی کے مقام تک بھی نہیں پہنچ سکتا، بلکہ اس قدسی جماعت کی گرد راہ کوبھی نہیں پاسکتاتوپھر اس جرأت کی مجال کیسے؟
2۔وہ اس انسانیت کی منتخب اورمقدس جماعت کو متہم کررہاہے جس کواللہ نے بغیر کسی قید وبند کے اپنی پسندیدگی کاپروانہ دےدیاہے۔ گویا وہ اللہ کے اس فیصلہ پر راضی نہیں ۔اس کامطلب تویہ ہوا کہ اللہ رب العزت کافیصلہ اپنی جگہ پر۔ مگر نعوذ باللہ ہمارے من میں جوآئے گا ہم وہی مانیں گے اور کریں گے۔اگرکسی کے دل و دماغ میں ایسی ہی قساوت چل رہی ہے تووہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔
3۔اگر وہ خود کو کسی صحابی کی ذات پر انگشت نمائی یاتنقید کو حق بہ جانب گردانتاہے تو گویاوہ محسن انسانیت ، خاتم المرسلین سرور کونینﷺ کے انتخاب تربیت اوراعتماد،نیزفیصلے پر انگشت نمائی کررہاہے۔دنیا ہادی عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ تربیت دے کر حوالے کئے ہوئی بے لوث اور خدا ترس جماعت پرچیں بہ جبیں ہے۔حالاں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے قول وعمل کو من عن قبول کرنے کی تاکید کرتے ہوئے اللہ کریم نے قران حکیم میں ہدایت فرمائی ہے۔ خواہ وہ دینی ہویادنیوی،مادی ہو یاروحانی۔’’ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا‘‘۔
کیا کوئی صاحب بصیرت شخص جوآخرت کی جواب دہی پرایمان رکھتاہو خود کو اس زمرے میں شامل کرنے یاہونے کی نادانی کر سکتاہے؟ ہرگز نہیں۔
کسی بھی صاحب ایمان، اہل علم، کتاب وسنت اورتاریخ اسلامی پر نظررکھنےوالےشخص کو خلافت کے نام پر ،ملوکیت کےنام پر،جمہوریت اورشورائیت کے نام پر اور اہل بیت سے محبت کے نام پر یہ حق نہیں ہے کہ کسی صحابی کو اپنے تنقیدی نشتر کانشانہ
بنائے، بلکہ میں یہ تک کہنے کی جرأت کروں گاکہ اگر کوئی ایسی بات جو طبری اور بدایہ والنھایہ یا تاریخ کی کسی کتاب میں بھی موجود ہے تو وہ لائق اعتنا ٕ نہیں ہے۔وہ باتیںہرگز قبول نہیں کی جائیں گی۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے درمیان رونما ہونے والے۔تاریخی واقعات اپنی جگہ وہ انکا اپنااجتہادی معاملہ ہے۔اور اسکی جواب دہی عنداللہ خود ان کی اپنی ہے ۔اورشان صحابیت اور مقام اپنی جگہ ہے۔ہمارے سامنے جومقام خلفا ٕ اربعہ کا،خلفا ٕراشدین کا، عشرہ مبشرہ کا، اہل بیت کا اور عام صحابہ کرام کا اصولی طورپرکتاب وسنت اور سلف صالحین کی تشریحات کی روشنی میں آیا اورامت کےسواداعظم نےماناہے۔ ہم ان کو اعتقادی طور پرتسلیم کرنے کو ذریعہ نجات تصور کرتے ہیں۔
صحابہ کرام کی ذات سے جڑاہوامعاملہ تسلیم ورضا کاہے ۔یہ کوئی فقہی جزئیہ اوراجتہادی معاملہ نہیں ہے کہ ہر کوئی اپنی رائے دینے اور ان کی حیثیت طے کرنے بیٹھ جائے اورکوئی رائے قایم کرے۔بلکہ یہ کتاب وسنت اورارشادات رسول کی روشنی میں واضح اورثابت ہونے والا اعتقادی مسئلہ ہے جوصرف ماننے اوراعتقاد رکھنے سے تعلق رکھتاہے،رائے زنی کانہیں ہے۔یہ تو مستشر قین اورملحدین کی کج فہمی ہے کہ انھوں نے صحابہ کرام کے کردار پر انگلی اٹھاکر اور انکے بےداغ کارناموں کو داغدارکرکے اسلامی شریعت اورذخیرہ حدیث کو بے وزن کرناچاہاہے۔اہل ایمان کو ان کی شان میں ہمیشہ زبان ہوشمند استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہے اسی میں نجات ہے۔اور أخیر میں یہ تلخ بات گوارہ کرلیجیے بہت لوگ خلافت اورملوکیت کی بحث چھیڑ کر ذہنی تسکین کرتے رہتے اور اس کی آڑ میں صحابہ کرام شان میں انگشت نمائی کرتے ہوئے بے اعتدالی کی حدتک پہنچ جاتے ہیں ۔کیوں نہیں مسلم ملکوں میں خلافت قایم کرلیتے اور وہی خلفا ٕ ئے راشدین کاشفاف نظام رائج کرلیتے ،کس چیزنے روک رکھاہے ؟
لوگ پہلے اپنے دلوں کو صاف کریں اور اللہ کے احکام کے آگے مکمل طور پر سرنگوں اورتسلیم ورضااورسمع وطاعت کامزاج پیداکریں۔کسی کوکرناکچھ نہیں، صرف ایک دوسرے کوموردالزام ٹہراناہے ۔نہ کسی کو خلافت راشدہ سے سروکار ہے، نہ کتاب وسنت کے احکام کےاجرا ٕ سے۔معافی چاہتاہوں اگر کوئی بات تلخ اورناگوارخاطر اورتنقید ی اصولوں کے خلاف ہو ۔ اللہ تعالی پوری امت کو حق وصداقت پرقایم رکھے۔آمین
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں