میم ضاد فضلی
دنیا کی ہر قوم میں ملاقا ت کا ایک طریقہ اور سلیقہ موجود ہے ،عیسائی جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اگر سر پر ٹوپی یا ہیٹ ہو تو اسے اٹھا کر تھوڑا سا جھکا کر کہتے ہیں good morning ,good evening , good by, یہودیوں کے ہاں سلام کا طریقہ وہی ہے ،جو عام طور پرا سکائوٹوں اور ملٹری میں رائج ہے ۔دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں اکٹھی کر کے پیشانی تک لانا اور نیچے سے کھٹا ک سے پائوں مارنا ۔ ہندو ملاقات کے وقت دونوں ہاتھ جوڑ کر پیشانی تک لا تے ہیں اور زبان سے لفظ’’ نمستے ‘‘ ادا کرتے ہیں ۔ سکھ ملاقا ت کےوقت’’ست سری اکال‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کے وقت عرب ایک دوسرے کو حیاک اللہ ، حیاک اللہ بالخیر اور یا انعم صباحا کے الفاظاستعمال کرتے تھے ۔(اللہ تجھے زندہ رکھے ، اللہ تجھے بھلائی سے زندہ رکھے ،تمہاری صبح نعمت والی ہو)۔ آج کل عرب ممالک میں صباح النور یا صباح الخیراور مساء النور کے الفاظ ملاقات کے وقت مستعمل ہیں ۔حالاں کہ یہ سبھی کلمات اسلام کے تعلیم کردہ کلمہ تحیۃ کے متغایر اور مخالف ہیں۔
حقیقت میں ابتدائے آفرینش سے ہی انسان کو سلام کا طریقہ سکھایا گیا ۔حضرت آدم علیہ السلام جب پید
ا ہوئے تو اللہ تعالی نے ان سے کہا :آدم !کچھ فرشتے بیٹھے ہوئے ہیں ،انہیں جا کر سلام کہو ،حضرت آدم علیہ السلام نے انہیں جا کر السلام علیکم کہا ، فرشتوں نے جواب دیا : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ ۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام قیامت تک تیری ذریت (اولاد ) کا یہی سلام ہو گا۔
جونہی پیغمبرو ں کی یہ تعلیمات معاشرے سے مٹنا شروع ہوئیں، سلام کا یہ طریقہ بھی جہالت کی وجہ سے کئی صورتیں بدلتا رہا ۔بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے عرب ایک دوسرے کو’’ حیاک اللہ‘‘ کے الفاظ سے زندگی کی دعا دیا کرتے تھے ،چونکہ عربوں میں جنگ و جدال ہر لمحہ اورہر آن جاری رہتا تھا،اس لیے ایک دوسرے کو زندگی کی دعا دیتے تھے۔بقول حالی مرحوم
کہیں پانی پینے پلانے پر جھگڑا کہیں گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا
یونہی ہوتی رہتی تھی تکرار ان میں یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
اکثرو بیشتر حملے قافلوں پر اس وقت ہوتے تھے ،جب وہ صبح کی میٹھی نیند سوئے ہوتے تھے ۔متاع زندگی بہت ارزاں تھی ،اس لیے عربوں کی مجبوری بن گئی تھی کہ وہ اپنی اس قیمتی متاع کے لیے ایک دوسرے کو زندگی کی خیر چاہتے تھے یا’’صبح کی نعمت والی‘‘ ہونے کی دعا دیتے تھے ۔ قرآن مجید کی سورۃ نساء میں عربوں کے انہیں معروف الفاظ کی بنیاد پر یہ حکم آیا :
﴿وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيۃٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنہا أَو رُ دّوہا (سو رۃ النساء)
ترجمہ’’اور جب تمہیں کوئی سلام کہے تو اسے سلام کا بہتر جواب دو یا کم سے کم اتنا ہی ضرور لوٹا دو ‘‘۔
اسلام سے پہلے اہلِ عرب کی عادت یہ تھی کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملتے تو کہتے ’’ حَیَّاکَ اللہ ‘‘ ، جیساکہ مندرجہ بالاسطور میں زمانہ جاہلیت کے عربوں کے طریقہ ملاقات و سلام کی تفصیل درج کی جاچکی ہے ۔
مگر رحمۃ للعالمینﷺ کے لائے ہوئے طریقہ سے روگردانی کرتے ہوئےمغرب کی تقلید میں آج کے عرب مذہب اسلام کے ماثور و محمود طریقہ ملاقات کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں اور اپنے اجداد کے طریقے کی طرف تیزی کے ساتھ لوٹ رہے ہیں۔ہاں! وہی جاہلانہ اقدار ورسوم جس کے خاتمہ کے لیے ہادی عالم ﷺ کو دنیا میں مبعوث کیا گیا اور دین اسلام کی نشرو اشاعت اور تبلیغ کی خارزارراہوں میں لاکھوں صحابہ کرام نے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کردیے۔مگر آج کے عربوں کو بالخصوص حجاز مقدس سے نقوش اسلام کے تارو پود کو نیست ونابود کرنا ہے، لہذا اللہ اور اس کے رسو ل ﷺکا دیا ہوا سلام بھی انہیں کب گوارہ ہوسکتا ہے۔ہم حجاز مقدس کے علاوہ عرب کے دیگر علاقوں اور خطوں کی بات نہیں کررہے ہیں ،جہاںکے درو دیوار اپنوں کی محنت اور مہربانیوں سے کب کا اسلام کے لیے اجنبی بن چکے ہیں۔آج ان تمام ریاست و دول کی وہی حالت ہے ،جس پر کف افسوس ملتے ہوئے کرمان کے معروف ناصح اور دانا حافظ محمد شیرازی (پیدائش: 1315ء وفات: 1390ء) نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ وہ آٹھویں صدی ہجری میں جس اندیشے کا اظہار کررہے ہیں،اس کا عملی ثبوت ان ریگزاروں کے باشی چند صدی بعد ہی دینے والے ہیں، جہاں اصحاب کرام کے بابر کت قدم پڑے تھے۔ حافظ جی نے فرمایا تھا:
چوں کفر از کعبہ برخیزد کجاماند مسلمانی
آج عربوں کے خصوصاً اس وادی غیر ذی زرع کے حکمرانوں کے چال چلن اوران کی اسلام بیزاری ، بلکہ کفر خیزی کے انمول کارنامے دیکھیے اور احکم الحاکمین کی بار گاہ میں اپنی فریاد لے کرجائیے کہ : اے! بار الہ الکریم اس مقدس خطہ کو جہاں محسن انسانیتﷺ اوراللہکے منتخب و متبرک اصحاب کرام کے قدوم میمنت پڑے تھے ،اسے کفر اور اسلام دشمنوں کے غلاموں اور حامیوں سے پاک کردے ۔ آ مین ۔
بہر حال اپنے موضوع کی طرف لوٹ چلئے !جب دینِ اسلام آیا تو اُس میں ا س کلمے کو ’’سلام ‘‘سے تبدیل کر دیا گیا ۔
واضح رہے کہ یہ کلمہ ’’ حَیَّاکَ اللہُ ‘‘ کے مقابلے میں زیادہ کامل ہے، کیونکہ جو شخص سلامت ہو گا تو وہ لازمی طور پر زندہ ہو گا اور صرف زندہ شخص سلامت نہیں ہو سکتا، کیونکہ ا س کی زندگی مصیبتوں اور آفات سے ملی ہو ئی ہے۔ ( تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۸۶ ، ۴ / ۱۶۱ )
سلامت رہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خود بھی سلامت رہے گا اور اس کی ذات ،عادات واطوار اور نقل و حرکت سے دوسروں کو بھی روحانی غذا حاصل ہوگی۔ اگر وہ خود سلامت ہے ۔مگر اس کی بد خصلتی ، سفاکیت اور مظالم سے دوسرے محفوظ نہیں ہیں ، اس کا وطن ، گلی محلہ اعزا واقربااور پڑوسی سلامت نہیں ہیں تو وہ سلام کے بلیغ معنی اور دعا کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ ان شاء اللہ ایک نہ ایک دن اس کی دنیا اجڑے گی اور اس کی ساری اکڑ اور ظلم وزیادتی آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن کررہ جائے گی۔ اللہم احفظنا وادخلنا فی رحمتک۔
اس آیت کریمہ میں سلام کے بارے میں بیان ہوا ہے ، اس مناسبت سے ہم یہاں سلام سے متعلق چند شرعی مسائل کاذکر کرنا ناگزیر سمجھتے ہیں :
( 1) سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا فرض اور جواب میں افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے سلام پر کچھ بڑھایاجائے۔مثلاً پہلا شخص’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘ کہے تو دوسرا شخص’’وَعَلَیْکُمُ السَّلَامْ وَرَحْمَۃُ اللہِ ‘‘کہے اور اگر پہلے نے ’’وَرَحْمَۃُ اللہِ‘‘بھی کہا تھا تو یہ وَبَرَکَاتُہٗ اور بڑھائے پس اس سے زیادہ سلام و جواب میں اور کوئی اضافہ نہیں ہے۔
(2 ) کافر، گمراہ، فاسق اور اِستِنجا کرتے مسلمانوں کو سلام نہ کریں۔ یونہی جو شخص خطبہ ،تلاوت ِقرآن ،حدیث، مذاکرہ ِعلم ، اذان اور تکبیر میں مشغول ہو ،اس حال میں ان کو بھی سلام نہ کیا جائے اور اگر کوئی سلام کردے تو اُن پر جواب دینا لازم نہیں۔
( 3 ) جو شخص شطرنج ،چوسر ،تاش، گنجفہ وغیرہ کوئی ناجائز کھیل کھیل رہا ہویا گانے بجانے میں مشغول ہو یا پاخانہ یا غسل خانہ میں ہو یا بَرہنہ ہو اس کو سلام نہ کیا جائے۔
( 4 )آدمی جب اپنے گھر میں داخل ہو تو بیوی کو سلام کرے، بعض جگہ یہ بڑی غلط رسم ہے کہ میاں بیوی کے اتنے گہرے تعلقات ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو سلام کرنے سے محروم کرتے ہیں حالانکہ سلام جس کو کیا جاتا ہے اس کے لیے سلامتی کی دعا ہے۔
( 5 ) شریعت اسلامی میں سلام کے طریقے کو درجہ بند کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہبہتر سواری والا، کمتر سواری والے کو اور کمتر سواری والا، پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا، بیٹھے ہوئے کو اور چھوٹا بڑے کو اور تھوڑے زیادہ کو سلام کریں۔
سلام و ملاقات کے سلسلے میں یہ نبوی ؐتعلیمات ہیں ، مگر آج فانی دنیاکی ارزانی اور جاہ و منصب کے حصول کی لالچ وطمع نے سلام کی معنویت کو ہی بھلادیاہے۔اسلام نے تعلیم دی تھی کہ فاسق و فاجر کو سلام نہ کیا جائے۔ مگر آج سلام دین داری اور ایمان کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا، بل کہ عہدہ و منصب دیکھ کر سلام ٹھوکا جاتا ہے ، چاہے مخاطب فاسق و فاجر ہو، ظالم و جابر اور جلاد صفت ہو۔بس سرمایہ دار اور اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہئے۔غریب اور مسکین کے سلام کا جواب دینے کو غیر ضروری اور خلاف شان متصور کیا جانے لگا۔صاحب ثروت اور اعلیٰ مناصب پر بیٹھے ہوئے بھیڑیوں کو سلامتی کی دینا عملاً باعث ثواب اور مستحسن عمل قراردیا جانے لگا۔یہ سب محض الزامات نہیں ہیں ،بل کہ عملی مشاہدات ہیں جو مختصر سی زندگی میں راقم نے ملت کے بڑوں اور بزرگوں کے درمیان دیکھا ہے۔سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں پیغام رسانی آسان ہوجانے کی وجہ سے سینکڑوں حضرات کو سلام بھیجنے اور ان سے دعاؤں کی درخواست کی گئی ،لیکن جاں گسل انتظار کے بعد بھی بڑوں اور بزرگوں کی طرف سے ردعمل یا جواب ندارد۔
اس کے برخلاف فساق و فجار کے ساتھ مخلصانہ سلام ودعا کو جاہ و منصب اور مال و دولت کی بنیاد پر رواج دیا جانے لگا۔آج اگر ہریانہ یا کسی علاقہ سے ارتدار جیسے منحوس واقعات کی اطلاعات ملتی ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی قیاس اس طرف جاتا ہے کہ ان دیہاتیوں، فاقہ مستوں ،جفاکشو ںاورحالات کے مارے ہوئے غریبوں کے ایمان کی تباہی کے لیے کسی قدر ہمارے نام نہاد اسلاف اور صاحبان جبہ و دستار بھی کم ذمے دار نہیں ہیں۔ فرسودہ حال مسلمانوں کے سلام کا جواب دینایا ان سے بشاشت کے ساتھ ملاقات اور انہیں گلے سے لگانے کا تصور ہمارے اکا بر کی زندگی سے لگ بھگ مفقود ہوتا جارہا ہے۔وہ رشک کی نظروں سے ہمارے اکابر کی طرف دیکھتا ہے اور مایوسی کا درد لیے ہوئے لوٹ جاتا ہے کہ کچھ بھی کریں اس کی ملاقات چمکیلے و بھڑکیلے اور معتقدین کے غول میں حصار بند بزرگ صاحب سے اس کی ملاقات ناممکن ہے، بل کہ ان کی ذات والا سے غریبوں کو ان کے سلام کا جواب ملنا بھی مشکل ہے۔اسلام کے لبادے میں ملبوس اس بددیا نتی سے داعیانہ اوصاف اور مخلصانہ حسن اخلاق کی توقع بھی امر محال ہے۔اس لیے کہ اب ہمارا اسلامی طریقہ سلام بھی اگڑی اور پچھڑی ذاتی جیسے قبیح رسم کی نذر ہوچکا ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں