مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی ، انڈیا
دوروز قبل یعنی مورخہ 3 جولائی 2020 کی صبحملک کے آٹھ پولیس اہلکارکے ایک دہشت گرد وکاس دوبے اور اس کے گرگوں کے ہاتھوں کانپور میں اپنی جان گنوانے پر پورے ملک میں کہرام مچاہواہے۔مگر ملک کا گودی میڈیا اور ارباب اقتدار کی زبان اور کردار کا اندازہ لگائیے۔۔یہی اگر کوئی ایسا شخص ہوتا جس کا تعلق اعلیٰ ذات سے نہ ہوتا اور اس کے نام کے ساتھ سلیم اور ندیم لگا ہوتا تو پھر دیکھتے میڈیا کاجلوہ ۔اور پولیس اہلکاروں کاایکشن۔وہ کوئی بڑا’ آتنک وادی‘ ہوجاتا اور مسلمان آتنک وادی ہوتا۔اور پولیس اس کی آڑ میں کانپور کے نہ جانے کتنے گھروں میں طوفان مچانا شروع کر چکی ہوتی ۔کتنے نوجوانوں کو اس کاساتھی بتاکر انکاونٹر کیاگیاہوتا۔ مسلم محلوں اورگھروں میں مجرموں کو پناہ دینے کے نام پر آگ لگائی گئی ہوتی۔کتنے نوجوانوں کے پاس صرف اس کا موبائل نمبر ہونے کی بنیاد پر اسےمجرم’دہشت بنایا جاچکا ہوتااور اس کویاتو موت کی گھاٹ اتار دیا جاتا ۔یامدتوں کے لیے جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جاتا۔۔نہ جانے کن کن ملکوں اور’’ آتنکی سنگٹھنوں ‘‘سے اس کے تارجوڑے جاتے ،جن کاکبھی اس نے نام بھی نہ سناہوتا ۔پوری مسلم قوم اس کی وجہ سے دہشت میں مبتلا کی جاچکی ہوتی۔۔یوگی جی پوری مسلم قوم کے خلاف آگ اگل رہے ہوتے۔دوچار ملاّبھی ان کی ’کرپا‘ سے پوری مسلم قوم کو گالیاں دینے اورکوسنے کے لیےٹی وی اسکرین پربلالئے ہوتے۔ ٹی وی پر کہیں ہلابول ۔کہیں مقابلہ۔ کہیں آمنا سامنا پروگرام چل رہاہوتا۔انڈیا ٹی وی بھی کسی ایسے سوال کرنے والے کو پکڑ کرلے آیاہوتاکہ : ’’ہم مانتے ہیں کہ سارے مسلمان آتنک وادی نہیں ہوتے ۔مگر جوپکڑا جاتاہےوہ مسلمان ہی کیوں ہوتاہے‘‘۔ اور وہ بھی نہیں بخشاجاتا جن کے ساتھ ان کی تصویریں ہوتی ہیں۔گودی میڈیا ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتا اور خوب نئے نئے رشتے تلاش کرتی اور جوڑتی۔ ۔آج کیوں گودی میڈیا کا وہ سُر نہیں ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ اس کانام وکاس دوبے ہے ۔وہ کوئی سلیم یا ندیم نہیں ہے۔آج صرف وہ ایک سر پھرا گینگسٹر اوربدمعاش ہے ۔ اسے کہتے ہیں صحیحجرنلزم!
آج ملک کے لیے یہ سوال بھی بڑا اہم اور غور طلب ہے مکہ مسجد میں دھماکہ ہوتو مسلمان پکڑا
جائے۔اجمیر میں ہوتو مسلمان کانام آئے۔مہرولی میں دھماکہ ہوتو مسلم نوجوانوں سے جوڑاجائے۔ملک میں کہیں کچھ ہوجائے تونام چور ’’بہادر‘‘کا آئے۔یہ مثل بہار میں مشہور ہے۔یہ سلسلہ کانگریس کے دور اقتدار میں بھی تھا اور اب جب سے حکمراں جماعت برسرے اقتدار ہے۔بطور خاص ملک میں کہیں بھی اس طرح کی وارداتیں کیوں نہیں ہورہی ہیں ؟ اس کا مطلب ہے کہ کوئی گروہ ضرور ہے جوہمارے ملک کو کھوکھلا کرنے اور سفید وسیاہ کامالک بننے کی خواہش میں وہ سب کروا رہاتھا اور سارے گناہ اس مجبور وبے بس قوم کے سر ڈال رہاتھا۔میں اپنے ملک کی برسرے اقتدار جماعت کو یہ مشورہ دونگا کہ ملک کو بچائے، ہمارے قائدین اور سیاسی رہنماؤں کے پاس بڑی سمجھ اور سوجھ بوجھ ہے، وہ ملک چلارہے ہیں۔ان کے اوپر اتنے بڑے ملک ایک سو پینتیس کڑور انسانوں کی ذمہ داری اور جواب دہی ہے۔ملک کے عوام نے ان پر اعتماد کرکے ذمہ دارانہ عہدے تک پہنچایاہے۔ وہ تمام عناصر جو ملک کی قومی اور جمہوری دیواروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ان سے ملک کو پاک کیجئے۔مذھبی اور نسلی وقومی تعصب اور جانب داری کا عینک اتاریے۔مشترکہ اور حقیقی معنی میں ’’سب کا ساتھ سب کاوکاس‘‘ والے فارمولے کو حقیقت کاروپ دیجیے،اس میں بہت جان ہے۔ ملک کے جرنلزم شعبہ کو ہدایات جاری کیجیے کہ وہ ایسی زبان اور لہجہ اختیار کریں جو ملک کو جوڑنے والا ہو، تفریق پیدا کرنے والا اور جانب دارانہ نہ ہو ۔ان تمام ایسے عناصر کو جڑسے ختم کرنے کی جانب توجہ دیجیے جو دیش کی یکجہتی کا گلہ گھونٹنا چاہتے ہیں، تب ملک میں خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔ملک آگے بڑھے گا۔ اور’’ آتم نربھربھارت‘‘ اور خوداعتماد۔نئے بھارت کا نرمان ہوگا ۔پورایش اپنی بقااور محبت میں ہمیشہ اپنی حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلتارہا ہے اور آج بھی اپنی لاچاری اور بے بسی کے باوجود ہر تکلیف کو بھلا کر پیٹ پر پتھر باندھ کر کھڑا ہے۔
شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں