انسانیت کی ترجمانی کیلئے ایک پورٹل اور۔۔۔

 

Meem Zaad Fazli

موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔یہ سوشل میڈیا کی

ہی دین ہے کہ آج انسانیت کے دشمنوں،چوروں،لٹیروں اورسیاسی چکلوں کے دلا لو ں کے کالے کارنامے تمام احتیاط کے باجودپوشیدہ نہیں رہ پاتے۔افسر شاہوں کی لوٹ کھسوٹ کا معاملہ ہو یا طاقتوروں کے ذریعہ کمزوروں کا عرصۂ تنگ کردینے کی واردات، اب سوشل میڈیا کی بدولت پل بھرمیں ہی دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک مجرم کا ساراگناہ وائرل ہوجاتا ہے۔ اگر 16دسمبر2012کو میڈیکل طالبہ کے ساتھ دہلی کے’’منیرکا‘‘میں دولتمند گھرانوں کی ناجائز اولادوں کی بربریت کا سارا کچا چٹھا سامنے آسکا تھاتو وہ بھی اسی سوشل میڈیا یا کی ہی دین تھا ۔ جدید دور کے ڈیجیٹل انقلاب کی بدولت ہی دوشیزہ کی آبرو اور زندگی چھین لینے والے ظالموں کے خونیں ہاتھوں میں انتہائی مستعدی کے ساتھ انصاف کی ہتھ کڑیاں پہنائی جاسکیں۔ اس سے قبل دہلی ہی کے دھولا کنواں میں2010میں کال سینٹر میں کام کرنے والی ایک خاتون کی آ برو کو نوچنے اور بھنبھورنے والے سفاکوں کے چہروں سے نقاب الٹنے میں پولیس کو اگربڑی کامیابی ہاتھ لگی تھی تو وہ بھی اسی سوشل میڈیا کی دین تھی۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ تونس کے تاناشاہ زین العابدین ابن علی کی غاصب اور جمہوریت کی قاتل حکومت سے ٹکرانے کی خواہش تونس کے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں سالوں سے پرورش پا رہی ہو گی، لیکن اس کو طاقتور آواز سوشل میڈیا نے ہی بنایا۔ زین العابدین سفاک کے دور اقتدار میں صحافتی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا عوامی جذبات کی صحیح ترجمانی کرنے سے قاصر تھا۔اس وقت یہی صورت حال سعودی عرب اورایران سمیت ان تمام مسلم ممالک کی ہے جہاں جمہوریت کی حقیقت ایک مکھوٹے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
بہر حال انٹرنیٹ اور موبائل فون کی بدولت ہی یہ ممکن ہوا کہ تونس میں لاکھوں لوگوں کی خواہش ایک لاوا بن کر پھوٹی اور ملک میں انقلاب برپا کر ڈالا۔بعد ازاں مصرکا فرعون وقت اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے ہی عوام کے قتل عام کا راست مرتکب حسنی مبارک اور اسی کے ساتھ خلیج عرب کے متعدد ممالک کے عوام کے سروں پر برسوں سے جابرانہ تسلط قائم کئے ہوئے غاصب اور قابض حکومتوں کیخلاف علم بغاوت اورجمہوریت حاصل کرنے والے انقلاب جسے ’’عرب بہاریہ‘‘کے نام سے پکاراجاتا ہے ،اس کی امید سے زیادہ کامیابی کا سحرا بھی اسی سوشل میڈیل یا ڈیجیٹل انقلاب کے ہی سر جاتا ہے۔
مقام مسرت ہیکہ میڈیا کی نئی صورتوں میں شمار کئے جانے والے انٹرنیٹ اور موبائل فون پیغامات اب سیاست میں بھی اہم ترین کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے عوام کو اظہار کی طاقت دی ہے اور محکوم لوگ اپنے جذبات کی بھڑاس نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال مختلف ممالک پر ڈکٹیٹر بن کر بیٹھے حکمرانوں کا ہوش اڑانے کے لئے کافی ہے۔ اس عوامی رابطہ کی سائٹوں نے ہی وطن عزیز ہندوستان میں بدعنوانی،لوٹ کھسوٹ اورعوام کے حقوق تلف کرنے والے ہزاروں افسرشاہوں کو ان کے گناہوں کی سزادلانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ سوشل میڈیا بڑی حدتک سرکاری محکموں میں شفافیت لانے کا اہم ذریعہ بھی بناہے۔
مختصر یہ کہ آج کے جدید دور میں انٹرنیٹ دنیا بھر کے انسانوں کی ضرورت بن چکا ہے۔ اگر ہماری زندگی سے انٹرنیٹ کو نکال دیا جائے تو متعدد ضروریات زندگی، خصوصاً روابط قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا ۔ انسان انٹرنیٹ کی دی ہوئی آسانیوں کا عادی ہو چکا ہے اور اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس بات کو اگر یوں کہا جائے کہ انٹرنیٹ انسانی زندگی کے لازمی جزو میں ایک ہوگیا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ انٹر نیٹ یا سوشل سائٹس کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد ساری دنیامیں بے تحاشہ بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں 23دسمبر2016کو ایک رپورٹ سامنے آئی تھی ،جس میں دعویٰ کیا گیاہے کہ اس وقت وطن عزیز میں35کروڑ ہندوستانی کسی نہ کسی شکل میں انٹر نیٹ کا استعمال کررہے تھے۔ یعنی چین کے بعد ہندوستان انٹر نیٹ کااستعمال کرنے والے ملکوں میں دوسرے پائیدان پرقدم رکھ چکا تھا۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ ایشیائی ممالک میں انٹرنیٹ کے حوالے سے چین، ہندوستان اور جاپان بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کے درمیان ایک جنگ کا سماں پیدا ہو گیا ہے اور یہ کمپنیاں بہتر سے بہترین سروسز فراہم کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ کاروبار، رابطے، اشتہارات، بینکاری، معلومات یا پھرمختلف اشیاء کا فروغ اور مصنوعات کی تشہیر جیسے تمام کاموں میں انٹرنیٹ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ لوگ روزانہ اربوں روپے کا کاروبار انٹرنیٹ کی بدولت ہی کر رہے ہیں۔ دریں اثنا تکنالوجی کی پیش رفت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے رجحانات میں بھی اضافہ ہوا ہے ،جس کی بدولت زبانوں کو بھی فروغ ملا۔ مثال کے طور پر آج سے 5 سے 7 سال پہلے بمشکل چند ایک سائٹس پر ہی اردو دیکھنے کو ملتی تھی۔ مگر اب متعدد سائٹس پر اردو زبان دیکھنے کو ملتی ہے۔
اب یہ بات بھی صد فیصد سچ ثابت ہوچکی ہے کہ کاغذی صفحات پر باسی خبریں پڑھنے والوں کی تعداد بڑی تیزی سے گھٹتی جا رہی ہے۔ جبکہ ڈیجیٹل صفحات پر تازہ ترین اور بیشتر لائیو تصاویرسے آراستہ نیوز پورٹل پر خبریں پڑھنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اگر جدید اطلاعاتی تکنالوجی اسی طرح اپنے پیر پسارتی رہی تو عین ممکن ہے کہ کاغذی اخبارات کی حیثیت ردی کی ٹوکڑی سے بھی زیادہ گرجائے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ کاغذی صفحات کی کٹنگ اور اس کے اسٹوریج کے انتظامات ڈیجیٹل صفحات کے مقابلے سوگنا زیادہ دشواراور حوصلہ شکن ہیں۔جبکہ آج ہم انٹر نیٹ کی ایک گیگا بائٹ (1GB) جگہ میں اتنی کتابیں محفوظ رکھ سکتے ہیں، جسے کاغذی شکل میں جمع کرنے کیلئے نہ صرف یہ کہ سیکڑوں ایکڑ پرمحیط جگہ ضروری ہے،بلکہ اسے مجتمع کرنے میں پچاسوں لاکھ روپے بھی کم پڑ سکتے ہیں۔
کاغذی صفحات کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک روزنامہ اخبار کی مکمل زندگی فقط نصف دن ہواکرتی ہے اوردن کے 12بجتے ہی اخبارات کے بھی 12بج چکے ہوتے ہیں۔اس کے بر عکس ڈیجیٹل صفحات کی زندگی اورخطہ ملک یا ریاست ضلع یا گاؤں کوئی متعین نہیں ہے۔یہ ایک ہی وقت میں شہر میں بھی دستیاب ہوتا ہے اوراسی وقت دوردراز گاؤں میں بھی زیر مطالعہ رہتا ہے۔سوشل میڈ گاؤں میں تشدد کا شکار بنائے گئے مظلوم کے درد کو ایک ہی پل میں پورے ملک میں پہنچادیتا ہے اور سات سمندر پار حقوق انسانی کے اختیارات کی پاسداری اورخود مختاری کیلئے اقوام متحدہ کے فعال ادارہ کے علاوہ غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کی میزکو بھی مظلوم کے دردکی ٹیسوں کی چبھن دکھا آتا ہے۔
کاغذی اخبارات کے ساتھ ایک پیچیدگی یہ بھی ہے کہ وہاں میڈیا کے نام کا سارا کھیل تماشہ صرف تجارت کیلئے ہوتا ہے،خاص طورپراردوکے تمام اورہندی کے5-4 کارپوریٹ اخبارات کو چھوڑ کر سبھی ہندی اخبارات میں کمائی کیلئے ساراانحصار سرکاری اشتہارات پر ہی ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ مودی سرکارجس کی میڈیا پر سخت نگاہ ہے ،اس حکومت کی عوام مخالف،وطن مخا لف ، غر یب مخالف اور کارپوریٹ نواز پالیسیوں پر لب کشائی سے پرہیز کرتے ہیں اورعوام کی ترجمانی سے پہلے اپنے تجارتی مقصدکو پیش پیش رکھنا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔انہیں ہردم یہ خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ مبادا حکومت کے مظالم کی داستان بھولے سے بھی ان کے کاغذی صفحات کی زینت نہ بننے پائیں ، جس سے ان کے سرکاری اشتہارات ملنے کی امیدیں دم توڑ دیں۔ لہذا محدود کاروباری مقاصد سے شائع کئے جانے والے اخبارات عوام ،یا قوم وملت کی ترجمانی نہیں کرسکتے ،اگرچہ وہ لاکھ دعوے کریں۔مگر حقیقت یہی ہے کہ حکومت کی جھوٹی اور مصنوعی تائید ہی ان کی تجارت کو روبہ ترقی اوربرقرار رکھ سکتی ہے۔ جبکہ ڈیجیٹل اخبارات یا نیوز پورٹل کواس معاملے میں کسی خوف یا لالچ نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ نیوزپورٹلس کو اخبارات کی طرح سرکاری اشتہارات دینے کا کوئی واضح قانون اب تک مرتب نہیں کیا جاسکا ہے، لہذا انہیں قطعی طورپرکم ازکم یہ خوف نہیں ہوسکتا کہ حکومت وقت کے جبرواستبداد کے خلاف مثبت مدلل اور مؤثرآواز بلند کرنے سے انہیں کوئی روک دے گا ۔ میڈیا یا صحافت کو اظہار رائے کی مکمل آزادی اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے میں ملک کا آئین پوری مدد کرتاہے، ہمیں سچ بولنے،لکھنے اور حق تلفیوں کیخلاف آواز بلند کرنے کے جتنے اختیارات آئین وطن نے دیے ہیں ہم ان تمام آئینی دفعات سے واقف اور آگاہ ہیں ۔ مندرجہ بالا تفصیل کے بعد اب یہ بات محتاج وضاحت نہیں رہنی چاہئے کہ آنے والا وقت ڈیجیٹل اخبارات یا سوشل میڈیا کا ہے، جہاں مال کمانے کیلئے حکومت سے کسی لالچ کا امکان نہ کہ برابر ہے۔ جہاں قوم و ملت کے دشمنوں کے چہرے بے نقاب کرنے کی پوری آزادی اور وسیع میدان فراہم ہوگا۔ ڈیجیٹل صفحات کی قدرو قیمت اس لئے بھی اہم ہے کہ اس کے ایک صفحے پر ہی آپ تحریری خبروں ،تجزیوں اور تبصروں کے علاوہ لائیونیوزاور اہم ایشوز پر سامنے آنے والے متنوع ویڈیو کلپس بھی ایک ہی نشست میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔مجھے امید ہے کہ میرے معزز قارئین ،دانشوران ،سماجی تجزیہ نگاران اور ملی قائدین ،ہمارے مخیرین ،کرم فرما ،مخلصین اورہمارے مشفق ومربیین ہماری اس کاوش کی حوصلہ افز ا ئی فرمائیں گے جس کا آغاز ہم ’’نیاسویرا لائیوڈاٹ کام‘‘ (www.nayasaweralive.com) کے نام سے کررہے ہیں۔فی الحال ادارہ نے اردو زبان میں اس نیوز پورٹل کا آغاز کیا ہے جارہا ہے ،جسے ان شاء اللہ جلد ہی انگریزی اور ہندی میں بھی لانچ کیا جائے گا۔ اس جرأتمندانہ اورحوصلہ آزما میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ہم انسانیت کے تمام ہمدردوں سے پورٹل کی کامیابی کیلئے دعاکی مؤدبانہ اپیل کرتے ہیں۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ  مقابل  ہوتو  اخبار  نکالو
                                                                                            والسلام
                                                                                        انسانیت کا ترجمان
                                                                                       نیاسویرا لائیوڈاٹ کام
                                                                                         جامعہ نگر،دہلی