انسان کو نیک اور تندرست بناتا ہے روزہ

0
131
فائل فوٹو
فائل فوٹو
All kind of website designing

اگر جگر کو قوت گویائی مل جائے تو وہ انسان سے کہے گاکہ اگر مجھ پر احسان کرناچاہتے ہوتو ’’ روزے کے ذریعے تم مجھ پر احسان کرسکتے ہو‘‘

حکیم نازش احتشام اعظمی

ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنے کا اہم فائدہ یہ ہے کہ ہمارے نظام زندگی کو قدرت کے ذریعے مرتب کیے ہوئے طریقہ زندگی جینے کا عادی بناتا ہے، یہ ہمیں اللہ سے قریب کرنے کے ساتھ ہمیں نیک ،دین دار ، نیک اور صحت مند انسان بنا تے ہیں۔ روزہ ایک ایسا جسمانی فریضہ ہے جو حضرتِ انسان کو اس کےخالق سے قریب تر کر دیتا ہے۔اگلی سطور میں روزہ کے طبی فوائد پر تفصیلی روشنی جایے گی۔پہلے روزوں کےاخروی فوائد ملاحظہ فر مائیں اطباء اورسائنس دانوں کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ مقررہ اوقات پر کھانا صحت کی ضمانت ہے۔ روزہ کے سلسلے میں جو بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ روزہ ارادے کی تربیت، قوتِ برداشت کی تقویت اور راحت و آرام کے مقابلے میں اللہ کی عبادت کو ترجیح دینے کے لئے ہے، اوریہ سب اُمور اسلامی تربیت میں مطلوب ہیں۔ غیرمریض کے لئے روزے میں صحت کے پہلو سے جو فوائد ہیں، وہ مزیدبرآں ہیں۔
رمضان المبارک غم خواری کا مہینہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ رمضان کا یہ مہینہ ایسا ہے کہ اس کا آغاز رحمت ہے اور اس کا درمیانی حصہ معافی ہے اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی ہے۔ روزہ دین اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض رہا۔ اسلام میں رمضان المبارک کے روزے ہر عاقل، بالغ اور صحت مند انسان پر فرض ہیں۔قرآن حکیم میں ارشاد ہے: ترجمہ:”مومنو! تم پر روزے فرص کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔“روزے کا تصور دیگر قدیم مذاہب میں بھی ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبوت ملنے سے پہلے ایک صحرا میں اعتکاف فرماتے تھے اور لگاتار چالیس روزے رکھتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام بھی روزے رکھتے تھے۔ بعض
ممالک میں قدیم زمانے میں موسم بہار میں روزہ رکھنا واجب قرار دیا گیا۔ 

روزہ کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے دکھ درد اور تکلیف کا احساس کرنا سیکھے۔ اس کے خیالوں میں ہمہ وقت یہ احساس اس کے ذہن وقلب میں کچوکے لگاتا رہے کہ ایک ماہ  کےرزہ سے صاحب ساری نعمتین پھلوں اور پکوانٗوں کی کی لاتعداد پھلوں اور اور ہکوڑے پکوڑیوں  کا ذائقہ اوردسترخوان پر تمام قسم کے وٹامنز اورروزوں کی وجہ سے سارے وٹامنز اور دیگر تمام ضروری تغذیہ افطار کے دستر خوان پر قسم کی نعمتی میسر ہونے کے باوجود چند گھنٹوں کے روزوں  جب ہم کو پریشا ن بنادیتا ہے، تو وہ غریب جس کی آمدنی کی تمام راہیں مسدود ہو گئی ہوں اور  آمدنی جن کے گھروں میں فاقوں اوربھوک پیاس کے ساتھ مسلسل جینے والوں کی کس قدرقابل رحم اور ہوگی۔ جبکہ کسی مہلک بیماری کے شکارانسانوں کے دلوں کی بوٹی بوٹی ہوجاتی ہے، جب کوئی ننھی اولاد یہ مطالبہ کر دے کہ ’’ ابو ہم لوگوں کی سحری کے ایک تھیلی دودھ اور ایک دو بند خرید کر لا دیجیے۔ اسی میں ہم سب بھائی بہن تھوڑا تھوڑا دوھ اوربند کو بانٹ کر کھالیں گے۔ جس سے روزوں میں موسم کی بے وفائی اورجسم کو جھلسادینے والی گرمی کی بے رخی سے نجات مل جائے۔ بھائی بہنوں کو تین کلو میٹر دورہیدل اسکو آتے جاتے ہوئے شدت کی گرمی ہم سبھی بھائی بہن بہن بھائی بے چین ہو جاتے ہیں اور کبھی تو ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ یہی موس کی حرارت اور آسمان سے برسنے والی سورج تمازت اور روزہ کی حالت میں ہم لوگوں کو ایسا خوف محسوس بنا دیتا ہے کہ ہم کو نقاہت کمزوری اور گھر میں آدھا پیٹ روٹی کھانا تو لوُ کی  بارش تو ہم لوگوں کی جان ہی لینے کے لیےبیتاب نظر آتی    

اس سے انسان جسمانی نظام جو تغذیہ حاصل کرتا ہے وہ بے وقت کھانے سے ممکن نہیں۔ روزہ کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے دکھ درد اور تکلیف کا احساس کرنا سیکھے اور اس میں بھی انسانوں کا ہی فائدہ ہے۔ روحانیت کے لیے بھی پیٹ کا خالی ہونا ضروری ہوتا ہے، روزے کی اصل روح کے مطابق روزہ رکھا جائے تو انسان کی روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے احادیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ صرف کھجور کھاکر اور پانی پی کر روزہ رکھ لیتے تھے اور کھجور کھاکر افطار فرماتے تھے۔روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جو بھوکے اور پیاسے ہیں،وسائل سے محروم ہونے کی وجہ سے انتہائی کربناک زندگی گزار رہے ہیں ان کے کرب اور تکلیف کوسمجھو اور جب تم ان کا احساس کروگے تو ان کی مدد بھی کرو گے ۔۔محسن ِانسانیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کئی دن کے فاقے سے ہوتے تھے، اس کے باوجود کبھی کھانا کھانے بیٹھتے اور کوئی سائل آجاتا تو خود بھوکے رہ کر اپنا کھانا سائل کو دے دیتے تھے۔ جب کہ ہمارا یہ حال ہے کہ روزہ رکھ کر ثواب کاحساب لگاتے ہیں ، لیکن ہمارے اردگرد لوگ ، خصو صاًاپنے اعزہ و اقربا ، دوست و احباب جن کے اندرونی حالات سےہم واقف ہوتے ،مگر دوسروں کے دست سوال دراز نہیں کر سکتے المیہ ہوتا ہےان کے گھر میں لوگ بھوکے ہوتے ہیں اور ہم سحری اور افطار میں مرغن کھانے کھاتے ہیں ایسے روزے رکھ کر آخر ہم کس کو دھوکا دے رہے ہیں ہم کس منہ سے خودکو حضور ﷺ کا پیروکار کہتے ہیں جبکہ ہم ان کی تعلیمات کی اصل روح کے مطابق ان کی کسی ایک بات پر بھی عمل نہیں کرتے۔خیال رہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس وقت خوش ہونگے جب ہم ان کے درس اور تعلیمات پر عمل کرکے دوسروں کے دکھ درد کا احساس کریں، کسی بھوکے کوکھانا کھلائیں، اپنے اردو گرد دیکھیں کہ کتنے سفید پوش ایسے ہیں جو اپنی سفید پوشی کی وجہ سے اپنے منہ سے کسی سے کچھ نہیں کہتے اپنی بساط کے مطابق خاموشی سے ان کی مدد کریں تو اللہ اور اس کے رسول ﷺخوش ہونگے۔ ماہ رمضان المبارک میں نیکی، ہمدردی، تعاون اور بھائی چارے کا ماحول

حکیم نازش احتشام اعظمی

، انسان کو احساس تحفظ عطا کرتا ہے۔ انسانی صحت کی بقاء میں دیگر عوامل کے ساتھ حفظان صحت اور خوشگوار ماحول کو بھی بڑا دخل حاصل ہے۔ روزے سے حاصل ہونے والی روحانی مسرت اور روحانی فرحت اس فضاء کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتی ہے جو صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے اور جس میں انسان ، روحانی، اخلاقی، ذہنی اور جسمانی اعتبار سے صحت کے اعلیٰ معیار تک پہنچ سکتا ہے۔
اب آئیں رزوہ کے جسمانی پر جد ید میڈیکل سائنس نے جوریسر چ کی اس کے مطابق روزہ تیس دنوں کا انسانی و روحانی فوائدکی حامل اس عبادت ہمیں کیا کچھ دیتی ہے؟ دنیا بھر کے مختلف مذاہب اور ثقافتوں میں روزہ رکھنے کی روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔انسانی تجربات اور مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزہ رکھنے کے بے شمار فوائد ہیں ۔روزہ نہ صرف ذیابطیس (sugar) ، بلند فشار خون (blood pressure) اور انسانی وزن کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتاہے بلکہ دماغی افعال کو بہتر طریقے سے سر انجام دینے کے لیے اہمیت کاحامل ہے۔ روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے ، جو ضبط نفس کی بے مثال تربیت دیتا ہے۔ روزہ تزکیہ نفوس اور تطہیر و قلوب میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے یقین و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ یقین جو اعلیٰ کردار کا جوہر اور بہترین اعمال کا ضامن ہے اور وہ پختہ ایمان جوروحانی بلندی، اخلاقی اصلاح، ذہنی صحت اور جسمانی تندرستی کا ذریعہ ہے۔ یہ یقین اور ایمان ہی ہے جو انسان کو ذہنی بیماریوں نفسیاتی الجھنوں اور دیگر تمام پریشانیوں سے نجات دلاتا ہے۔ روزے سے روحانی قوتیں اور ذہنی صلاحیتیں بڑی خوبی اور تیزی کے ساتھ نشوونما پاتی ہیں۔ اس طرح روزہ انسان کی قوت برداشت، قوت ارادی اور قوت مدافعت کو ترقی دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ وہ قوتیں اور صلاحیتیں ہیں جو انسان کی مجموعی شخصیت، ذہنی اور جسمانی صحت کو بحال رکھتی ہیں۔ سماجی طور پر بھی روزہ دار بہت سے فوائد حاصل کرتا ہے۔ وہ پہلے کے مقابلے میں دوسروں سے خود کو زیادہ قریب محسوس کرتا ہے۔قرآن کریم کی ایک آیت طبی ماہرین کے مطابق روزہ نہ صرف انسان کو مختلف طبی امراض سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ انسانی عمر میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے ۔ رمضان شریف میں افطاری کے وقت کھجوروں کے استعمال کے بے شمار طبی فائدے ہیں۔ کھجوریںنہ صرف توانائی یا طاقت کا ذریعہ بنتی ہیں بلکہ انسانی جسم میں موجود مختلف اقسام کے کیمیا ئی مرکبات مثلاًپوٹاشیم ، میگنیشیم اوروٹامنزفراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کھجوریں انسانی جسم کو اس کی ضرورت کے مطابق فائبر بھی مہیا کرتی ہیں جو نظام انہظام کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔
۔ تحقیق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ رمضان شریف میں روزہ رکھنے سے وزن کم کرنے میں یقینی مدد ملتی ہے۔ ماہرین امراض قلب کے مطابق روزہ نہ صرف خون میں موجود کولیسٹرول (cholesterol) کی مقدارکو معتدل رکھتا ہے۔ بلکہ خون کی شریانوں کو اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام دینے میں مدد دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں دل کے مختلف امراض مثلا دل کا دورہ، اسٹروک یا فالج کا خطرہ کم ہو جاتا ہے ۔ روزہ جسم میں نظام ہاضمہ کے دوران مختلف اقسام کے کیمیائی عوامل کو بخوبی انجام دینے میں مدددیتا ہے جس سے خوراک میں موجود اہم غذائی اجزا کو جذب کرنے میں مدد ملتی ہے۔ روزہ دماغی افعال کو نہ صرف مستعد رکھتا ہے بلکہ جسم میں موجود کورٹی سول (cortisol) نامی ہارمون کو کم کرتا ہے جسکی وجہ سے اعصابی دبائو میں کمی آتی ہے ۔
(UK) یو۔کے نیشنل ہیلتھ سروسز کے مطابق رمضان شریف سگریٹ نوشی سے پرہیز کا موقع فراہم کرتاہے ۔اس ماہ مبارک میں رمضان شریف میں روزہ کے باعث کھانے پینے کی دوری جہاں انسانی جسم میں جمع شدہ چربی کو توانائی فراہم کرنے کا موقع مہیا کرتی ہے وہاں اس دوران جسم میں موجود نقصان دہ اجزا کو بھی تحلیل کرنے میں مدد دیتی ہے۔قرآن کریم میں جہاں روزہ کی فرضیت کا حکم ہے، وہیں اسکے سائنسی فوائد کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے ۔
’’روزہ رکھنا تمہارے لئے بھلا ہے اگر تم جانو‘‘ (سورہ بقرۃ ، آیت 184)
اگر تم جانو‘‘ میں علوم کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو بتادو کہ جو بندہ میری رضا مندی کے لئے روزہ رکھے گا تو اس کے جسم کو صحت بخشو ںگا اور اسے اجر عظیم عطاکروں گا۔ جوں جوں عقل ترقی کر رہی ہے، حیرت انگیز علوم سے آشنا ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیکل سائنس کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزے سے نظام انہضام کو آرام ملتا ہے۔ مگر جیسے جیسے میڈیکل سائنس نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج علم ہوا کہ روزہ تو ایک حیرت انگیز طبی معجزہ ہے۔ انسانی نظام انہضام بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ سب پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹرائز نظام کی طرح کام کرتے ہیں ۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں تو یہ پورا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔ اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔ یہ سارا نظام 24 گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دبائو اور خوراک کی بد احتیاطی کی وجہ سے شدید متاثرہوتا ہے۔ روزے کے ذریعے جگر کو 4 سے 6 گھنٹے آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی نا ممکن ہے ،کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کا دسویں حصے کے برابر بھی معدہ میں داخل ہو جائے تو پورے نظام انہضام کا سسٹم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہو جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سائنسی نقطہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اسے آرام کے لئے سال میں ایک ماہ لازم آرام دینا چاہئے۔ اس کے ذریعے جدید دور کا انسان اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ اگر جگر کو قوت گویائی حاصل ہو جائے تو وہ انسان سے کہے  سے گااکہ ”اگر مجھ پر احسان کرناچاہتے ہوتو ’’صرف روزے کے ذریعے تم مجھ پر احسان کرسکتے ہو‘‘۔

E-mail :[email protected]

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here