غیروں کے دلوں میں کیسے بحال کریں ہم اپنا اعتماد…         سیدنا یوسف علیہ السلام کی زندگی سے سبق لیجئے !

0
1130
فائل فوٹو
All kind of website designing

میم ضاد فضلی

اس وقت ہم ہندوستانی مسلمان شدید سیاسی اور معاشرتی پستی کے گڑھے میں پھینکے جا چکے ہیں۔اس ذلت و نکبت بھری حالت کیلئے غیروں سے زیادہ ہمارے اپنے جنہیں نام نہاد ملی قائد اور برکۃ العصر اور نہ جانے کون کون سے خطابات سے ہم ہی نوازتے ہیں، یوں کہہ لیجئے کہ جن ملی قائدوں کو ہم اللہ پاک کے سوا سب کچھ ماننے کو تیار ہوجاتے ہیں وہی ہندوستانی مسلمانوں کی ذلت و پستہ حالی کیلئے راست طور پر ذمہ دار ہیں،جس کی ایک مثال گزشتہ 15اپریل2018کوپٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں ہونے والی ’’دین بچاؤ دیش بچاؤ‘‘ریلی کی شام ہی ساری دنیا نے اپنی آ نکھوں سے دیکھی ہے۔مجھے اس ریلی پر کل بھی اعتراض تھا ، آج بھی اعتراض ہے اور ا ن شاء اللہ ولی رحمانی کی شاطرانہ بہروپ پر تادم مرگ بھی میں یقین کرنے سے معذور ہوں۔اس کی وجہ ہے کہ اس شخص نے ہمیشہ ملت کو بیچا ہے دینے کے نام پر نام ونمود اور دکھاوے کے علاوہ ان کی جھولی میں کوئی بھی قابل کشش چیز نہ پہلے کبھی رہی ہے اورنہ آئندہ توقع کی جاسکتی ہے۔ بہرحال میں نے اپنے متعددسابقہ مضامین میں اس اندیشہ کو ظاہر کیا ہے کہ اس ریلی کے پیچھے کوئی سازش ہے ،کوئی مول تول ہے ،کوئی خریدو فروخت ضرور ہے اور اس کے نتا ئج عام ہندوستانی مسلمانوں کیلئے سودمند نہیں ہوں گے ۔خالد انور کو ایم ایل سی بنائے جانے پرپروفیسر مشرف عالم ذوقی نے اس ریلی کے تعلق سے جوباتیں کہی ہیں وہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس ریلی سے مسلمانوں کو متحد کرنا تو ممکن نہیں ہے، البتہ بی جے پی کی ہندو ووٹوں کو پولر ا ئز کر نے کی سازش سوفیصد کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گی،اور وہی ہوا بھی۔ آج نتیش کمار کے تحفے پر اگرچہ ولی رحمانی اور ان کے اندھے بھکت بغلیں بجارہے ہوں گے اورخوشیوں کے ڈھول نقارے پیٹے جارہے ہوں گے ۔مگر سارا بہار اس بات کو مان چکا ہے کہ ولی رحمانی نے معمولی سے نفع کیلئے بہار کے سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات اور عقیدت کو گروی رکھ دیا ہے۔علماء کے ذریعہ ملت اعتمادکو ٹھیس پہنچائے جانے کے بعد ہما رے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمانان ہند ازخود اپنے لئے کوئی ایسا راستہ تلاش کریں جس سے برادران وطن کے درمیان پھیلائی گئی بدگمانی اور شبہات کا ازالہ کیا جاسکے ۔موجودہ صورت حال میں کسی کو اپنا قائد مان کر اس کے پیچھے چلنا اوردجل و فریب کا شکار ہونا مسلمانوں کیلئے مناسب بات نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سا طرز حیات اپنا یا جائے جس سے برادران وطن کے

میم ضاد فضلی

ذہن میں ہمارے خلاف بھرے جاچکے ریب وتشکیک کے زہر کو نکالا جاسکے ۔ راقم الحروف کے خیال میں ملت اسلامیہ ہند جن کی اکثریت غیر مسلم برادران وطن کے ساتھ رہتی ہے انہیں اپنے غیر مسلم پڑوسی بھائیوں کا دل جیتنے کیلئے خاص طور پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعے کی روشنی میں چند اخلاقی اصولوں کو واضح کرنا ضروری ہے، جن کی پابندی کسی غیر مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو کرنی چاہیے۔ 
قرآن مجید نے سیدنا یوسف علیہ السلام کا واقعہ یہ کہہ کر بیان کیا ہے کہ یہ احسن القصص یعنی بہترین قصہ ہے اور اس میں جستجو رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ اس واقعہ کے سبق آموز پہلو تو کئی ہیں، لیکن اس موقع پر ہم اس خاص زاویے سے اس سے راہ نمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ کسی ایسے معاشرے میں جہاں مسلمان اکثریت میں اور اقتدار میں نہ ہوں، ان کا رویہ اور معاملہ معاشرے کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے اور اس ضمن میں انھیں کن اخلاقی اور انسانی اصولوں کی پاس داری کرنی چاہیے۔ قرآن مجید نے اس حوالے سے مختلف واقعات کی مدد سے سیدنا یوسف علیہ السلام کے کردار اور فہم ودانش کے بعض ایسے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جو اس باب میں نہایت بنیادی راہ نمائی فراہم کرتے ہیں۔سب سے پہلا اخلاقی اصول تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو کسی معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے مواقع میسر ہوں اور معاشرہ ان کے اخلاق وکردار پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اپنے وسائل اور سہولیات سے مستفید ہونے کا موقع دے رہا ہو تو اس کے جواب میں مسلمانوں کو بھی اس کے اعتماد پر پورا اترنا چاہیے اور خیانت سے کام لیتے ہوئے اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو بازار مصر میں ایک غلام کے طور پر سستے داموں لا کر بیچا گیا تھا، لیکن ان کے مالک نے ان کے لیے رہائش، خوراک اور تربیت کا اچھا بندوبست کیا اور پردیس میں انھیں گھر جیسی سہولتوں کی فراہمی کا انتظام کیا۔ پھر سن رشد کو پہنچنے پر جب خاتون خانہ نے انہیں دعوت گناہ دی تو سیدنا یوسف کا سب سے پہلا اور فوری رد عمل یہ تھا کہ میں یہ خیانت کیسے کر سکتا ہوں، جبکہ میرے آقا نے میرے لیے یہاں سامان زندگی کا اتنا عمدہ بندوبست کیا ہے(انہ ربی احسن مثوای)۔(اس کے برعکس ہماری حالت یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم مالک ہم پربھروسہ اور مہربانی کرکے یہی موقع ہمیں بھی فراہم کردے تو ہم سیدنا یوسف علیہ السلام کے کردار کو منٹوں ٹھینگا دکھا کر اپنی ہوس کی پیاس بجھا لیں گے)۔ قصہ مختصر یہ کہ خاتون خانہ کی دعوت کو قبول کرنا اپنی ذات میں تو گناہ تھا ہی، اس کے ساتھ سیدنا یوسف نے اپنی سلیم فطرت کی بدولت اس کے اس پہلو کو بھی شدت سے محسوس کیا کہ یہ ایک محسن اور منعم کے ساتھ خیانت اور بد عہدی کا عمل ہوگا جو کسی شریف اور باکردار انسان کے شایان شان نہیں۔ یہ اصول ظاہر ہے، جیسے افراد کے لیے ہے، ویسے ہی قوموں کے لیے بھی ہے اور صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات میں مؤثر نہیں، بلکہ اس کا تعلق آفاقی انسانی اخلاقیات سے ہے۔ چنانچہ سب سے پہلی چیز جو مسلمانوں کو انفرادی سطح پر بھی اور گروہی سطح پر بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے، وہ چیز یہ ہے کہ جو معاشرہ ان کے لیے اپنے وسائل اور مواقع سے استفادہ کے دروازے کھول رہا ہو اور ان کے اخلاق وکردار پر اعتماد کر رہا ہو، وہ جواب میں اس کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کریں اور کوئی طرز عمل اختیار نہ کریں جو اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والا ہو۔
دوسرا اخلاقی اصول جو سیدنا یوسف کے کردار سے ہمارے سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ساتھ کہیں کوئی نا انصافی یا زیادتی ہو جائے تو وہ اسباب کی سطح پر داد رسی کے لیے ضرور کوشش کریں، لیکن معاشرے یا اس کے نظام وقانون سے متعلق کسی منفی رد عمل میں مبتلا نہ ہو جائیں اور خاص طور پر اس ناانصافی کی وجہ سے اس معاشرے کے لیے انسانی خیر خواہی کا رویہ ترک نہ کر دیں۔ سیدنا یوسف کو ایک بے بنیاد الزام پر، محض ایک با اثر گھرانے کو بدنامی سے بچانے کے لیے، جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ کئی سال تک قید میں رہے۔ یہاں ان کی ملاقات شاہی دربار کے دو خادموں سے ہوئی جن میں سے ایک کو انہو ں نے تاکید کی کہ جب تم رہا ہو کر بادشاہ کے پاس واپس جاؤ تو میرے متعلق اس کو بتا نا ۔ سوئے اتفاق کہ اس شخص کو بادشاہ کے سامنے سیدنا یوسف کا ذکر کرنا یاد نہ رہا اور سیدنا یوسف مزید کچھ عرصے کے لیے جیل میں ہی پڑے رہے۔ اس کے بعد شاہ مصر نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا جس کی تعبیر کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی تو بالآخر وہ موقع پیدا ہوا جس میں اہل مصر کو سیدنا یوسف علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا پڑا جنہیں اللہ نے خوابوں کی تعبیر کی خاص مہارت عطا فرمائی تھی۔
یہاں ہمیں سیدنا یوسف کے کردار کی بلندی اوج کمال پر نظر آتی ہے۔وہ نہ تو خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے آنے والے شاہی خادم سے کوئی شکایت کرتے ہیں کہ تم نے میری رہائی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی، نہ یہ رد عمل ظاہر کرتے ہیں کہ مصر کے نظام انصاف نے مجھے بے گناہ ہوتے ہوئے جیل میں ڈال رکھا ہے، اس لیے میں اہل مصر کے کام کیوں آؤں اور نہ یہ شرط ہی رکھتے ہیں کہ پہلے مجھے انصاف دیا جائے، تب میں اپنے علم اور مہارت سے اہل مصر کو فائدہ پہنچاؤں گا۔ اس کے بالکل برعکس، وہ نہ صرف بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتا دیتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ تدبیر بھی بتاتے ہیں کہ قحط کے زمانے میں خوراک کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اس سے پہلے آنے والے سالوں میں غلے کا ذخیرہ جمع کر لیا جائے اور دانوں کو خوشوں کے اندر ہی رہنے دیا جائے۔ گویا وہ اپنے کردار سے یہ واضح کرتے ہیں کہ انسان کو جو علم، دانش اور حکمت دی گئی ہے، وہ اس کے پاس ایک امانت ہے جسے ہر حال میں لوگوں کی خیر خواہی اور بھلائی کے لیے استعمال ہونا چاہیے اور کسی شخص یا گروہ کے ساتھ ہونے والی کوئی نا انصافی یا زیادتی اس کا جواز نہیں بن سکتی کہ ضرورت کے موقع پر وہ لوگوں کو اپنی خداداد صلاحیت اور علم وتجربہ سے محروم رکھے۔سیدنا یوسف علیہ السلام کے طرز عمل اور کردار سے تیسرا اہم اصول یہ سامنے آتا ہے کہ مسلمان جس معاشرے میں بھی ہوں، وہاں کے لوگوں اور وہاں کی سیاسی ومعاشی سرگرمیوں سے الگ تھلگ ہو کر رہنے کے بجائے معاشرت اور نظام سیاست ومعیشت کا حصہ بنیں اور اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے مواقع اور وسائل سے خود بھی مستفید ہوں اورخلق خدا کی بہتری کیلئے بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ چنانچہ سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والتسلیم کو ان کے علم وفہم اور دانش مندی کی بدولت جب شاہ مصرکا مقرب خاص بننے کا موقع ملا تو انہو ں نے نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، بلکہ خود اپنے لیے اہل مصر کی خدمت کا ایک خاص دائرہ منتخب کیا اور بادشاہ سے اس دائرے میں ذمہ داری اور اختیار تفویض کیے جانے کی درخواست کی۔ اسی سے آگے چل کر انھیں مصر کے نظام اقتدار میں وہ اثر ورسوخ حاصل ہوا کہ انہو ں نے اپنے پورے کنبے کو مصر میں بلا لیا اور ان کے پہنچنے پر ان کا شاہانہ شان وشوکت کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ مزید یہ کہ بنی اسرائیل کے لیے بطور ایک قوم طویل عرصے تک عزت اور وقار کے ساتھ مصر میں زندگی بسر کرنے کے اسباب فراہم ہوئے، تا آنکہ کچھ صدیوں کے بعد حالات کے الٹ پھیر سے وہ رفتہ رفتہ ایک محکوم اور مقہور گروہ کا درجہ اختیار کرتے چلے گئے۔اس ضمن کا چوتھا اور اہم ترین دینی اصول یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی بنیادی اور اصل ذمہ داری یعنی دعوت الی اللہ سے کسی حال میں غفلت اور بے پروائی اختیار نہ کریں اور معاشی ومعاشرتی ترقی کے مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس فریضے کی ادائیگی پر بھی پوری طرح توجہ مرکوز رکھیں۔ سیدنا یوسف ؑ ؑ کے واقعے میں قرآن نے اس کی ایک جھلک یوں پیش کی ہے کہ جب قید خانے میں دو شاہی ملازم اپنے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے ان کے پاس آئے تو انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی حکمت کے ساتھ اور بڑے عمدہ اسلوب میں ان کے سامنے توحید کی دعوت بھی پیش کر دی۔ قرآن مجید کے ایک دوسرے مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا یوسف نے مصر میں اقتدار اور سیاسی اثر ورسوخ ملنے کے بعد وہاں کے با اثر طبقات کو بھی دعوت الی اللہ کا باقاعدہ مخاطب بنایا اور دلائل وبینات کی روشنی میں توحید کا پیغام ان کے سامنے پیش کیا۔ ان کے مخاطبین اگرچہ عموماً ان کی دعوت کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا رہے، تاہم مصر کی تاریخ میں اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے طور پر انہیں احترام سے یاد کیا جاتا رہا۔
اس زاویے سے سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعے پر غور کیا جائے تو جیسا کہ عرض کیا گیا، نہ صرف غیر مسلم معاشروں میں زندگی بسر کرنے کے اخلاقی اصول واضح ہوتے ہیں، بلکہ ایک پوری حکمت عملی ابھر کر سامنے آتی ہے جس سے کسی بھی معاشرے میں رہنے والے مسلمان افراد یا طبقے استفادہ کر سکتے ہیں۔ معاصر تناظر میں مختلف غیر مسلم معاشروں میں مسلمان کمیونٹیز کی جو عمومی نفسیات دیکھنے میں آ رہی ہے، اس کے پیش نظر ان اصولوں کی طرف توجہ دلانے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہر معاشرے کے ذمہ دار مذہبی وسماجی راہ نما اس طرف متوجہ ہوں اور اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے اسوہ کی روشنی میں مسلمانوں کی نفسیات،ذمہ داریوں اور کردار کو درست طور پر تشکیل دینے میں کامیاب ہوں۔یہاں پر میں اس غیر دانشمندانہ مہم کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہو ں ،جس کے مطابق کٹھوعہ کی نابالغ بچی آٹھ سالہ آصفہ بانو کو انصاف دلانے کیلئے آئندہ 20اپریل 2018کو مسلمانوں کے کچھ ناعاقبت اندیش ٹولوں نے واٹس ایپ گروپ پر ملک گیر بند کا اعلان کیا ہے۔یہاں ان ناعاقبت اندیشوں سے بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جن شرمناک وارداتوں پر خود بردران وطن کی بڑی تعداد سراپا احتجاج ہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے مسلسل احتجاج ،مظاہرے اور بھوک ہڑتال بھی کررہے ہیں۔ اس معاملے میں مسلمانوں کو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی کیا ضرورت ہے ۔یہاں ہم اگر سچے اور مظلوموں کے ہمدردرمسلمان ہیں تو ہمیں کچھ بھی کرنے سے پہلے سیدنا یوسف علیہ السلام کی زندگی سے سبق لینا چاہئے۔
08076397613

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here