آزادی کے بعد پہلی مرتبہ 15 اپریل کو بہار کے مسلمانوں نے ’’دین بچائو دیش بچائو‘‘ کے نعرے کے ساتھ پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں اپنی زبردست موجودگی درج کرکے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ انہیں شریعت اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور وہ اس کے تحفظ کے لیے سفر کی پریشانیاں اور بھوک و پیاس سب کچھ برداشت کرکے ہر قربانیاں دینے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔ ان کی صفوں میں اتحاد ہے اور وہ ظالموں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔اس کانفرنس میں بہار کے گوشے گوشے اور دور دراز علاقوں سے آئے مسلمانوں نے بلاتفریق مسالک جس جذبۂ ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ یہ ان کا ایمانی جذبہ ہی تھا جس کی وجہ سے وہ چٹیل میدان اور چلچلاتی دھوپ میں اپنے اکابرین کی باتیں سننے کے لیے گھنٹوں بھوکے پیاسے بیٹھے رہے۔ مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی دھوپ کی تمازت برداشت کرکے اپنے قائد اور امیر کی باتیں سنیں۔ غالباً بہار کا کوئی ایسا ضلع نہیں تھا جہاں سے لوگ پٹنہ نہ آئے ہوں۔ ان کے اس جذبۂ ایمانی کو دیکھ کر پٹنہ والوں نے بھی اپنی آنکھیں بچھالیں۔ پٹنہ سیٹی سے لے کر پھلواری شریف اور داناپور تک لوگوں نے پٹنہ آنے والوں کے لیے پانی، شربت، بسکٹ، کلچہ اور کھانے پینے کی کئی دوسری چیزوں کا انتظام کر رکھا تھا۔ چاہے لوگ پیدل چل رہے ہوں یا گاڑی پر ہوں، مسلم نوجوان انہیں شربت پیش کرنے، پانی پلانے اور ستو گھول کر دینے کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔ کہیں کہیں تو لوگوں نے اپنے دینی بھائیوں کے لیے بریانی تک کا انتظام کیا تھا۔ اس میں نہ کوئی مسلک حائل تھا نہ کوئی برادری تھی اورنہ کوئی دوسرے تحفظات تھے۔ ان سب کے سامنے صرف ایک ہی بات تھی کہ یہ لوگ چلچلاتی دھوپ میں پیدل چل کراورلمبی مسافت طے کرکے ظالموں کے خلاف آواز بلند کرنے اور اپنے دین اور اپنے ملک کے تحفظ کا پیغام لے کر اپنے گھروں سے نکل پڑے ہیں۔ یہ مجاہدین ملت ہیں۔ ان کی خدمت کی جائے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرکے آخرت میں اجر کا مستحق بنا جائے۔ اس طرح پٹنہ والوں نے اپنی مہمان نوازی کا حق ادا کردیا۔ یہی وہ جذبہ تھا جس نے انہیں منظم اور متحد بھی کر رکھا تھا۔ لیکن دوسری طرف ہمارے اکابر اور علمائے کرام کا جو طرز عمل رہا وہ اس کے برعکس تھا۔ ان سب نے اپنے لیے خوبصورت اور کشادہ پنڈال بنا رکھا تھا۔ اس میں پنکھے اور کولر لگے تھے۔ جن لوگوں کو چلچلاتی دھوپ میں بیٹھنا تھا وہ 9 بجے سے ہی وہاں پہنچ گئے اور 5 بجے تک بیٹھے رہے۔ لیکن جنہوں نے اپنے لیے سایہ دار درخت کا انتظام کر رکھا تھا وہ 12 بجے اور اس کے بعد جلسۂ گاہ پہنچے اور تقریر کرکے چلتے بنے۔ کوئی بھی گھنٹہ دو گھنٹہ سے زیادہ ڈائس پر نہیں بیٹھا۔ صرف صدر اجلاس، ناظم اجلاس ، دلت لیڈر اور جماعت کے مقامی امیر مولانا رضوان احمد اصلاحی آخری وقت تک ڈائس پر موجود رہے۔ جوشیلی تقریریں ہوئیں۔ جن لوگوں نے اجلاس میں شریک ہونے والوں کو نعرہ لگانے سے منع کیا تھا انہی لوگوں نے سیاسی پارٹیوں کی طرح ہی ڈائس سے مائک پر نعرے لگائے اور شرکائے اجلاس کو بھی نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔ اس موقع پر اسلام کے ان شیدائیوں کا جوش و جذبہ دیکھنے کے لائق تھا۔ ڈائس سے سیاسی
لیڈروں کو دور رکھا گیا تھا۔ ان کے بیٹھنے کا انتظام ڈائس کے پیچھے ایک گوشے میں تھا۔ اسی گوشے میں رکن پارلیمنٹ مولانا اسرار الحق قاسمی اور ڈاکٹر احمد اشفاق کریم بھی بیٹھے تھے۔ آخر میں صدارتی تقریر ہوئی۔ یہ تقریر مطبوعہ تھی۔ جم غفیر نے امیر شریعت کی تقریر غور سے سنی۔ تقریر اچھی اور حوصلہ بخشنے والی تھی لیکن تقریر کے اختتام میں امیر شریعت نے جو باتیں کہیں اس کا لوگوں نے نوٹس لیا۔ امیر شریعت نے اپنی تقریر میں اتنی بڑی کانفرنس کی کامیابی کے لیے صرف دو آدمیوں کا خاص طور پر ذکر کیا ان میں ایک سہیل اختر ندوی اور دوسرے خالد انور (جنہیں جنتادل یو نے ایم ایل سی کا ٹکٹ دیا ہے) تھے۔ امیر شریعت نے تو خالد انور کو کانفرنس کا روح رواں تک قرار دے دیا۔ اس کے بعد لوگوں کے دلوں میں کئی طرح کے سوالات پیدا ہونے لگے۔ لوگ سوشل میڈیا پر سرگرم ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ خالد انور کانفرنس کے روح رواں تھے تو ناظم امارت شرعیہ مولاناانیس الرحمٰن قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی،مولانا شبلی قاسمی اور سہیل ندوی اور ان کی ٹیم کے لوگوں نے کیا کیا؟ کیا ان میں سے کوئی اتنی بڑی کانفرنس کی نظامت کے لائق نہیں تھا؟ خالد انور کو جنتادل یو کا ٹکٹ ملنے کے بعد لوگ یہ سوال بھی کرنے لگے کہ جب سیاسی رہنمائوں کو ڈائس پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی تو سیاسی عزائم رکھنے والے شخص سے کانفرنس کی نظامت کیوں کرائی گئی؟ کیا ایسا کرکے جنتادل یو قیادت کو یہ بتایا گیا کہ اس کے پیچھے نہ صرف امیر شریعت بلکہ لاکھوں عوام بھی ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب مثبت ہے تو سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امارت شرعیہ نے ملت کا سودا کرلیا؟ اس طرح کے بے شمار سوالات لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں۔لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اگر خالد انور کسی صحافی کا نام ہے اور جنتادل یو قیادت نے اردو کے کسی صحافی کو ٹکٹ دیا ہے تو خالد انور ہی کیوں؟ ان سے بڑے بڑے اردو کے کئی صحافی اور ایڈیٹر پٹنہ میں موجود ہیں جن کی صحافتی خدمات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ ان میں ڈاکٹر خالد رشید صبا، خورشید انوار عارفی، ایس ایم اشرف فرید، اے کے احسانی، ریاض عظیم آبادی، ظفر فاروقی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کو نظر انداز کرکے جنتادل یو نے انتہائی چھوٹے اخبار کے ایڈیٹر کو ہی قانون ساز کونسل میں کیوں بھیجا؟ یہ سب اردو اخبارات کے وہ صحافی اور ایڈیٹر ہیں جو سیاسی، صحافتی اور سماجی حلقوں میں اچھی طرح جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان تمام شخصیتوں کو نظر انداز کرکے ’’دین بچائو دیش بچائو‘‘ کے ’’روح رواں‘‘ (بقول امیر شریعت) کو ہی حکمراں پارٹی نے کونسل کا ٹکٹ کیوں دیا؟ اس کے علاوہ بھی لوگ اس کانفرنس کے تعلق سے کئی اور سوالات کر رہے ہیں۔ ان میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب کانفرنس کے انعقاد میں مختلف ملّی اور مذہبی تنظیموں اور خانقاہوں نے امارت شرعیہ کے ساتھ تعاون کیا تو پھر ان کے نمائندوں کو ڈائس پر جگہ کیوں نہیں دی گئی؟ انہیں کانفرنس سے دور کیوں رکھا گیا؟ ان اداروں کے اکابرین کیا امارت شرعیہ کے عہدے دار اور اسٹاف تھے جو امیر شریعت کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیتے اور کانفرنس میں دوڑے چلے آتے؟ کانفرنس کی قیادت یہ کیوں بھول گئی کہ کچھ ملّی اور مذہبی تنظیموں اور خانقاہوں سے تعلق رکھنے والی کچھ شخصیتیں ایسی ہیں جو ان کے ہم رتبہ اور ہم پلہ بھی ہیں۔ کیا ان شخصیتوں سے بات کرنے کے لیے امیر شریعت کو ان کے پاس خود نہیں جانا چاہیے تھا یا ٹیلیفون سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی؟ ان سوالوں کا جواب ’’دین بچائو دیش بچائو‘‘ کا نعرہ دینے والوں کو پہلی فرصت میں دینا چاہیے اور اپنی گرتی ہوئی دستار کو سنبھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 15 اپریل کی کانفرنس کے دوران اور اس کے بعد کا جو منظر نامہ سامنے آیا ہے اور اس سے ملّت میں جو شدید بے چینی پھیلی ہے وہ اچھی علامت نہیں ہے۔ اس وقت امت مسلمہ کے ہر فرد کے ذہن و دماغ میں جو سوالات گھوم رہے ہیں اس کا تشفی بخش جواب اگر انہیں نہیں ملا اور ہمارے اکابرین نے اپنی دستار نہیں سنبھالی تو ڈر ہے کہ ہمارے لیے یہ سرزمین کہیں اندلس (اسپین) نہ بن جائے۔ 15 اپریل کو امت مسلمہ کے ہر فرد نے ظفر صدیقی کے اس شعر سے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ؎
آئو دشمن کے مقابل یوں کھڑے ہو جائیں
بانہہ سے بانہہ ملے شانے سے شانہ مل جائے
لیکن افسوس دوسری طرف کیا ہوا؟ یہ سوال ہمارے سامنے منھ پھاڑے کھڑا ہے۔ اس سوال کے ساتھ ہی ایک دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ’’دین بچائو دیش بچائو کانفرنس‘‘ کے ’’روح رواں‘‘ کو کونسل کا ٹکٹ دے کر وزیراعلیٰ نے امیر شریعت سے 22نومبر 2012 کے اس واقعہ کا بدلہ تو نہیں لیا جب امیر شریعت نے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے جشن صد سالہ کے موقع پر کشن گنج میں اے ایم یو سنٹر کو زمین نہیں دیئے جانے کے سلسلے میں انہیں (وزیراعلیٰ کو) ان کی موجودگی میں سخت سست کہا تھا؟ تاکہ اُن کی ساکھ گر جائے اور وہ ملت میں بے وزن ہوجائیں؟
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں