ڈاکٹر میم ضاد فضلی
ہندوستان سمیت بہت سے مسلم ممالک میں کل عیدالفطر پورے مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ منائی جا ئے گی۔ اس موقع پر اہلِ اسلام سجدہ ریز ہو کر پروردگارِ عالم کا شکر ادا کر یں گے کہ اس اعلیٰ ترین ذات نے ہمیں رمضان المبارک میں روزے رکھنے، عبادت کرنے اور تزکیہ نفس کی توفیق عطا فرمائی۔ اس بات پر شکر اداکیا جا ئے گا کہ کائنات کے مالک نے ہمیں سیدھا رستہ دکھایا اور اس پر چلنے کی توفیق دی، لیکن اس بار عید اپنے جلو میں دو بڑی پریشانیاں بھی لے کر آئی ہے۔ پوری دنیاکی طرح ہمارا ملک ہندوستان بھی کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سامنا کر ررہاہے ۔ ہر روز درجنوں عزیز ہم سے بچھڑ جاتے ہیں اور لاکھوں نئے افراد کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کی خبریں ملتی ہیں۔ سائنس دانوں نے کچھ سٹینڈرڈ آپرینگ پروسیجرز (ایس او پیز) وضع کیے اور یہ بتایا کہ ان پر عمل کرنے سے کورونا وبا سے بچا جا سکتا ہے، یا پھر ویکسین ایجاد کی گئی اور بتایا گیا کہ اس کی دو خوراکیں انسان کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے میں معاون ہوں گی، لیکن ہمارے ہاں نہ تو ایس او پیز پر پوری طرح عمل درآمد ہو رہا ہے اور نہ سارے لوگ ویکسین لگوانے ہی کو تیار نظر آتے ہیں اور نہ وسیع پیمانے پر ٹیکہ کاری کوئی نظام اب تک مرتب کیا جاسکا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ پورے ملک میں اس وبا کا پھیلائوحوصلہ شکن اضافے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔سب سے پہلے تو ہمیں عید کے دنوں میں بھی ایس او پیز کا خیال رکھنا ہے، اور پھر یہ عہد کرنا ہے کہ پہلی فرصت میں کورونا ویکسین لگوائیں گے ،تاکہ نہ خود اس جان لیوا بیماری کا شکار ہوں اور نہ ہی دوسروں میں یہ وبا پھیلانے کا باعث بنیں۔ کورونا کی ہلاکت خیزیوں کے سبب محکمہ صحت و قومی آفات نے ہجوم کم سے کم رکھنے کیلئے عید کی نماز کی ایک سے زائد جماعتیں کروانے کی تجویز دی ہے، علاوہ ازیں جائے نماز گھروں سے لانے، گھروں سے ہی وُضو کر کے عیدگاہ جانے، محدود خطبے، چھ فٹ کا سماجی فاصلہ رکھنے، گلے ملنے اور معانقہ کرنے سے اجتناب کرنے کی بھی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان ہدایات پر عمل کیا جانا چاہیے۔
تاہم ملک کے مسلمانوں کا متفقہ ادارہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے تمام مسالک و مکتبہ فکر عباقرہ کے دستخط کے ساتھ ایک اپیل جاری کی ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہوتو عید کی باجماعت نماز سے احتیاط برتی جائے ، البتہ چاشت کی چار رکعت نماز گھروں میں ہی ادا کرلی جائیں۔
عید کے بابرکت دن ہمیں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو بلکہ پوری انسانیت کو اس وبا کی تباہ کاریوں سے نجات عطا کر دے اور وہ دن لوٹا دے جب ہم سب مل کر بیٹھتے، خوش گپیاں کرتے اور محفلیں برپا کرتے تھے۔عید سعید کی سچی خوشی اس عمل میں پوشیدہ ہے کہ تہوارکی خوشیوں کے جھرمٹ میں ان غریب اور لاچار انسانوں کی حسرت بھری نگاہوں پر نظر ضرور رکھی جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، کوویڈ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنی ملازمتیں کھوچکے سفید پوش بھائیوں کے کلیجے چھلنی ہونے سے بچ جائیں ۔جو اپنے بچوں کی بے بسی اور چہرے پر چھائی ہوئی افسردگی کا ہر کسی سے اظہار نہیں کرسکتے ، مگر حقیقت حال یہ ہے کہ ان کے گھروں میں بچوں کےنئےجوڑوں کا انتظام تو دور میٹھی عید میں ان کے گھروں میں بے چارگی اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی سرمایہ موجود نہیں ہے، مگر اپنے ملازمت کے زمانے کی خوشحالی اور فراوانی کی وجہ سے سماج میں بنی ہوئی ساکھ پر آنچ نہ آنے پائے ، اس خوف سے وہ ہر کس و ناکس سے اپنے کرب کا اظہار بھی نہیں کرسکتے۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، ایسے ستم رسیدہ مسلمان اورضرورت مند آپ کے گردوپیش میں ہی مل جائیں گے جو اندر اندر قسطوں میں دل کی بوٹیاں کرنے کو بے بس ہیں اور حسرت و یاس کی مجسم تصویر بن چکے ہیں، ان میں سے پیشتر کو نوکریاں چلی جانے کی فکر نے ڈپریشن کا شکار بنادیا ہے اور وہ اپنے وجود کو ایک لاش کی طرح ڈھو رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ لاکھوں لوگ اور ہزاروں تنظیموں کے عہدیداران غربت کے خاتمے کے نام پرا سٹارز ہوٹلوں میں عیاشیوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور غریب کے نحیف جسم پر پاؤں رکھ کر اپنی معاشی زندگی کے محل تعمیر کرنے میں صرف کاغذی کارروائی اور فوٹو سیشن تک محدود ہیں۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ 2011 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کا ہر چالیسواں فرد بھوکا سوتا ہے،ظاہر ہے اس میں مسلمانوں کی بھی معتدبہ تعداد ہوگی۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج جب کہ ملک کی معیشت منہ کے بل گرچکی ہے ، عام اور بے روزگارہندوستانیوں کی حالت کیا ہوگی ؟
ہندوستان میں کورونا وبا کی دوسری لہرایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب ملک کے اندرایک دہائی میں اقتصادی شرح نمو سب سے کم ریکارڈ کی گئی ہے۔ سست معیشت نے دیہی علاقوں کو حد سے زیادہ متاثر کیا ہے، جبکہ اسکلڈ شعبے میں پھیلنے والی بے روزگاری شہروں میں تیزی سے غربت میں اضافے پیدا کررہی ہے۔گزشتہ برس تک بے روزگاری میں لگاتار اضافہ ہورہا تھا،لہذا استعمال میں آنے والی لازمی اشیا بھی بڑی احتیاط سے خریدی جاتی تھیں، ظاہر سی بات ہے کہ جب شہریوں میں قوت خرید ہی باقی نہیں رہے تو بازار اس سے متاثر ہوں گے ہی اور نتیجہ کار ترقیاتی کام یک دم ٹھپ پر جائیں گے اور ملک کی معیشت پٹری سے اتر جائے گی۔ آج بازار ٹھپ ہیں، کل کارخانوں کی چمنیاں خاموش ہیں اور ڈیولپمنٹ کے سارے ایجنڈے بند ہوچکے ہیں، جب کہ یہی تینوں عوامل مل کر یہ بتاتے ہیں کہ کسی ملک کی معیشت کتنی بہتر ہے۔ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کی بنیاد پر پیو ریسرچ سینٹر نے تخمینہ شائع کیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا کے بعد کساد بازاری کے سبب ملک میں روزانہ دو ڈالر یا اس سے کم کمانے والے افراد کی تعداد چھ کروڑ سے بڑھ کر 13 کروڑ چالیس ہزار سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ 45 سال بعد ہندوستان ایک بار پھر ‘اجتماعی طور پر غریب ملک’ بننے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوچکا ہے۔
آج کی عید کا بس یہی سبق ہے کہ ہمارے متمول اور صاحب حیثیت لوگ اس موقع پرہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے ؟اسلامی تعلیمات کیا ہیں ؟ اس سلسلے میں قارئین کرام چند باتیں ضرور ملاحظہ فرمائیں !اللہ تعالیٰ نے آپ کو مال دیا ہے تو اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ غریبوں کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوجائے۔ بہت قیمتی چیزیں اپنے بچوں پر نہ لا دیں۔ بانٹ کر کھائیں اور ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں اور تو اور کسی غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں اور پھلوں کے چھلکے تک نہ ڈالیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بچے بھی گوشت اور پھل مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔
Mob : +91 8076397613
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں