عیدسے پہلے کچھ ذمے داریاں یاد رکھئے گا !

0
341
All kind of website designing

میم ضاد فضلی

رمضان کا مہینہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک شاندار تربیتی اہتمام ہے۔ اس کے دوران اہل ِ ایمان کو صبر، برداشت اور پرہیزگاری کی مشق کرائی جاتی ہے، تاکہ وہ تقویٰ اور پاکیزگی اختیار کریں،جواُن کی بقیہ زندگی کو درست سمت پر ڈال دیں۔ دراصل انسان کو حلال وحرام کی تمیز اورجائزوناجائز میں تفریق سے اس کی دو صفات دُور رکھتی ہیں:۔ ایک بھوک، جس میں پیٹ کی بھوک کے علاوہ دولت کی ہوس بھی شامل ہے اور دوسری شہوانیت۔ عام زندگی میں ہم نے بغور مشاہدہ کیا ہے کہ جو شخص اِن دو خواہشات پر قدرتِ انضباط رکھتا ہے وہ معاشرے میں شرافت کے پیکر اور اعتبار کے منبع کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ رمضان کے روزے انسان کو انہی دو خواہشات پر قابو پانے کی مشق کراتے ہیں۔ کوئی شخص اس تربیت میں کامیاب ہوا یا ناکام یا کتنا کامیاب ہوا، اس کا تجزیہ اس کی بعد از رمضان زندگی کے اطوار، اعمال اور معاملات کو دیکھ کر بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
ماہِ رمضان کا اختتام استقبالِ عید سے ہوتا ہے۔ عید کو سب سے بڑے اسلامی تہوار کی حیثیت حاصل ہے جس کا آغاز نبی ِ رحمت ؐ نے خود فرمایا۔ جہاں یہ تہوار جشن ِ تکمیل ِ رمضان ہے وہاں کئی لحاظ سے خدا کا شکر ا دا کرنے کا موقع بھی ہے کہ اُس نے اس ماہِ مبارک میں انسان کی فلاح کے لئے قرآن اُتارا اور بندے کو یہ ہمّت عطا کی کہ وہ پورے ماہِ رمضان میں حصول ِ تقویٰ کے کٹھن مراحل سے خود احتسابی کے عمل کے ذریعے کامیابی سے گزرا،اور اب اِس پر وہ مالک ِ کائنات کے سامنے جہاں سجدۂ تشکر بجالانے کے لئے حاضر ہے وہاں انعامات کابھی حقدار ہے۔دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک ہندوستان میں بھی عیدالفطر پورے مذہبی جوش و خروش اور ُتزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ احباب نصف رمضان کے بعد ہی عید کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔نئے کپڑوں کی خریداری اور اِن کی بروقت سلائی کے علاوہ عزیز وں اور دوستوں کے لئے تحفے تحائف کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ جہاں عید ایک بھر پور مذہبی تہوار ہے، وہاں اپنے پیاروں سے میل ملاقات کا پورے سال میں سب سے بڑا موقع بھی ہے۔ اس سال کی عید الفطر گزشتہ سالوں کی عیدوں سے بہت مختلف ہوگی۔ عید پر بچھڑے یاد نہ آئیں یہ ممکن ہی نہیں۔ اس سال جتنے پیارے راہئ ملک ِ عدم ہوئے ہیں، زندہ احباب کی حیات میں کسی ایک سال کے اندر اتنے کبھی نہیں ہوئے۔ شاید ہی کوئی ہم وطن ایسا ہو جس کے گھر کا کوئی فرد، دوست، ہم پیشہ، ہم مکتب یا ہم محفل اس سے جُدا نہ ہوا ہو۔ اس عید پر کتنے گھروں میں آہیں، سسکیاں، بین اور آنسوؤں کی لڑیاں سینے فگار کریں گی۔ کیسے کیسے نگینے اس سال منوں مٹی تلے چلے گئے اور ہم بے یارو مددگاردیکھتے رہ گئے۔کورونا کے باعث ہونے والی اموات کے علاوہ مودی ظالمانہ لاک ڈاؤن اور ملک کے حالات پر یکایک ڈالے گئے ڈاکے سینکڑوں مہاجر مزدوروں کی ملک گیر پیمانے پر سڑکوں ، ریلوے ٹریکوں اور بھوک پیاس کی شدت کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور ان کے پسماندگان کی یاس و نا امیدی پہ مبنی آہ و بکا ایک الگ رُوح فرسا سانحہ کی یاد داشت ہے۔ ا س بار کی عید پر دردو غم کی دبیز تہہ کا اترنا فطری بات ہے۔
وہ خوش قسمت جن کے گھروں کے دروازے کورونا کی دستک سے محفوظ رہے ہیں، اُن پر لازم ہے کہ وہ اپنے اڑوس پڑوس، قرب و جوار میں ایسے گھروں پر نظر رکھیں،جہاں خوشی کی پرُ شور آوازوں کی جگہ بہنوں کی گریہ زاری، والدین کی ڈھاہیں اور بچوں کی رِقّت بھری چیخیں ہر کان کو متوجہ اور ہر آنکھ کو پر نم کرنے کا سبب ہوں گی۔ اُن کے ساتھ نشست کرکے دلاسہ کا اہتمام کریں۔ کتنے سفید پوش گھرانے ایسے بھی ہوں گے،جہاں کوئی کمانے والا نہ بچا ہوگا یا کورونا کی وجہ سے کسب ِ حلال مشکل ہو گیا ہوگا۔ ایسے لوگوں کی خاموش مالی معاونت کرنا بھی ہم پر فرض ہے۔
ہم ایک بہت ”آزاد“بلکہ ”سگنل فری“ معاشرہہیں، بلکہ اسلام کی بہت سی اخلاقی فریضہ تعلیمات کو اپنےاوپر ضروری ہی نہیں سمجھتے ۔ بھلے ہم میں سے اکثریت اسکول کے بنیادی نصاب سے ناآشنا ہے۔ مذہب کی مبادیات سے کبھی شغف نہیں ،رہااور طب کے متعلق نہ کبھی پڑھا، نہ سنا ۔مگر پھر بھی ہم علماء، فقہاء اور اطباء سے بڑھ کر صاحب الرّائے ہیں۔ کہیں ہمیں پولیو کے حفاظتی قطروں میں ”بیرونی سازش“ کے جراثیم دوڑتے ہوئے نظر آ جاتے ہیں تو کہیں ہمیں کورونا محض ”دشمن کا ایجنڈا“ دکھائی دیتا ہے اور اس کا وجود ایک ڈھونگ سے بڑھ کر نظر نہیں آتا۔ لہٰذا ہم اِس سے متعلق احتیاطی تدابیر کے بارے میں سوچنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ خدشہ ہے کہ ہماری یہ ”علم و آگہی“ عید کے موقع پر ہمیں کہیں زیادہ ”سگنل فری“نہ کر دے۔ حکومت وقت نے کروناکے پھیلاؤ کو روکنے کے سلسلے میں جن احتیاطی اقدامات کی تاکید کی ہے اگر ہم نے عید کے موقع پر ان پر عمل نہ کیا تو ممکن ہے اگلے سال کی عید، عید نہ کہلاسکے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here