روح اور دل کی بیماری کا علاج کرلیجئے، ہارٹ اٹیک نہیں ہوگا!

0
705
All kind of website designing

ڈاکٹر میم ضاد فضلی

آج کے نازک اور خدا بے زار دور میں جبکہ ہر طرف دل کی بیماریوں کا تذکرہ ہے اوراس کے علاج معالجے میں نت نئی تحقیق ہو رہی ہے، اور علاج و معالجہ بھی ہونا ضروری ہے ، اس لیے کہ علاج ایک مسنون عمل ہے ،جس کی محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے۔
مگر ہمیں دل کی ظاہری بیماری کے ساتھ ہر لمحہ روح کے لیے ناسور متصور کیے جانے والی دل کی بیماری کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔ جس طرف عموماً اہل ثروت اور ان گنت دولت کی نعمت سے سرفراز اور علم سے مالامال لوگ قطعی طور پر دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔حالاں کہ اگر ہم تھوڑا سا بھی قلب کی روحانی بیماری کی طرف توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر امراض قلب کا باعث دنیوی اضطراب اور عیش و عشرت کی عادی زندگی میں معمولی کبھی بھی آجائے تو ہمیں اندرسے بے چین کردیتی ہے، جس سے ڈپریشن پیدا ہوتا اور یہی ڈپریشن قلب کی مہلک بیماری کا شکار بنادیتی ہے۔جدید سائنس بھی اس بات کو قبول کرتی ہے کہ اندرونی بے چینی ہی دل کا کے اطمینان و سکون کو غارت کردیتی ہے اور اس کے نیتجے ہارٹ اٹیک کے چانسز 98 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر میم ضاد فضلی
ڈاکٹر میم ضاد فضلی

بے تحاشہ دنیا، مادی ترقی اور سرمایہ جمع کرنے خواہش، عہد ہ اور منصب پانےکی تمنا ہمیں اللہ کی یاد سے غافل کردیتی ہے اور بسا اوقات لفظ ’’ اللہ‘‘ ادا کرنے سے بھیہماری توفیق من جانب اللہ سلب کر لی جاتی ہے۔ دعا فرمائیے !رب کریم ایسی محرومی سے اپنی پناہ میں رکھے، جس کی وجہ سے ’’اللہ‘‘ کا نام لینے کی توفیق بھی چھین لی جاتی ہو۔ قرآن کریم ڈپریشن سے نجات اور طمانیت قلب کا انتہائی آسان سا فارمولہ ہمیں بتایا ہے،جس پر زندگی کے ایک ایک پل میں ہمیں عمل پیرا ہونا چاہیے۔ معروف صاحب دل اورمصلح انسانیت پیر مہر علی شاہ ؒ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہمارے پھیپھڑوں کے اندر آنے جانے والی سانس ہے ،لہذا اس کا حق ہے کہ شکرانے کے طور پرہرسانس کے ساتھ اللہ کا نام لینا چاہیے،اور بغیر’’ اللہ‘‘ کہے جو سانس چلی گئی وہ حرام گئی۔
اللہ کا ایک مومن بندہ ہونے کے ناطے ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے اوردیکھنا چاہیے کہ دینی اصطلاح میں ہمارے دل کن بیماریوں میں مبتلاہیں۔ حضوراکرم کا ارشا دہے:
’’آگاہ ہو جاؤ کہ سینے میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جب یہ تندرست ہو تو تمام بدن تندرست رہتا ہے اور اگر اس میں خرابی و فساد پیدا ہو جائے تو سارے جسم میں خرابی و فساد پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘
دل کی بیماریوں سے مراد تکبر، ریا، غصہ، بغض، حسد، کینہ، منافقت اور غریبوں ، مساکین ، محنت و مشقت کے خوگر مزدوروں سے نفرت یہ بیماریاں انسانی اخلاق و کردار کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے دور حاضر کے بظاہربڑے علما اور عقیدت مندوں کے حصار میں بیٹھنے والے پیر صاحبان، رفاہی اور ملی تنظیموں کے ذمے داران ، بڑی بڑی کمپنیوں کے ارب پتی سیٹھ یا منیجنگ ڈائریکٹرس مذکورہ بالا بیماریوں میں سب سے زیادہ مبتلا ہیں، مگر اللہ کی سلب کردہ توفیق نے انہیں اس ادراک و احساس کرنے سے محروم کررکھا ہے۔اسے معمولی نہیں احساس گناہ کا مرجانا اللہ کی گرفت کا پہلا نقطہ آغاز ہے۔
لہذا ہمیں بذات خود اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہئے کہ مذکورہ بالا خبائث میں سےکون سی بیماری ہمارے دلوں اور روحوں کو لگی ہے ،اور اس کا پتہ چلتے ہی ہمیں اس کے علاج کی جانب مستعدی سے توجہ دینی چاہیے ،جیسے ہم جسمانی بیماریوں کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، اس لیے کہ مذکورہ بیماریاں ہمیں صرف روحانی طور پرہی متاثر نہیں کرتیں، بلکہ اس کے برے اثرات جسمانی طور پر ہمیں امراض قلب و دماغ کا دائمی مریض بنادیتی ہیں۔
تکبراور غرور :
غرور کا مطلب دھوکا، تکبر کا مطلب بڑائی، تفاخر جتانا اور دوسروں کو حقیر جاننا ہے، یہ بیماری عام طور پر مسلمان امراء اور بڑے بڑے علما و مشائخ اور سجادہ نشینوں، مدارس ودینی اداروں کے ذمے داران کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں، لہذا ان سے سلام کلام کرنا اور دعاؤں کی گزارش کے لیے ان کے وی آئی پی دفاتر اور خانقاہوں تک پہنچنا عام اور فرسودہ حال مسلمانوں کے لیے تقریباً ایک کار محال ہے، ہاں !صاحب حیثیت اور مالداروں اور خوش پوش سیٹھوں کے لیے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے ہو تے ہیں، وہاں لمحہ بھر کیلئے بھی صاحبان جبہ و دستار اس جانب توجہ نہیں دیتے کہ جو عالیشان ٹھاٹ باٹ ولا رئیس ان سے بغل گیر ہے ،اس کی پائی پائی غریبوں کا لہو چوس کر اور حرام کے ذریعے جمع کی ہوئی ہے ۔
خیال رہے کہ غرور و تکبر ابلیس کی سرشت ہے۔ اس نے اپنے رب کے حکم سے سیدناآدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ ابلیس کے تکبر کی بنیاد یہ تھی کہ وہ آگ سے اور سیدنا آدم ؑ مٹی سے ہیں۔تکبر اور کبریائی صرف اللہ کیلئے ہے۔ ہم کہتے ہیں{ اللہ اکبر} یعنی اللہ بڑا ہے،اللہ کے سوا کسی کی کبریائی نہیں۔اللہ کبر متعلق ارشاد فرماتا ہے’’ الکبر ردائی‘‘ کبر میری چادر ہے اور میری چادر کو اپنے لیےروا سمجھنے والا گویا کہ خدائی کا دعویٰ کررہا ہے، جو شرک سے بھی بڑا جرم اور ناقابل معافی گناہ ہے۔
تکبر کن باتوں پر ہوتا ہے؟:
٭ حسب و نسب، عہدہ و منصب
٭ مال و دولت و اولاد کی کثرت ۔
٭ مالی فراوانی اور نعمتوں سے سرفراز ہونا۔
٭ خوش شکلی یعنی اپنے حسن وجمال پر اترانا۔
٭ تقویٰ دینداری و علم پر گھمنڈ میں مبتلا ہوجانا ۔ حالاں کہ یہ تمام عطیۂ ربانی ہیں اوراس کے ملنے پر اُس ذات پاک کا شکر ادا کرنا چاہیے، جس نے ہمیں یہ نعمتیں بخشی ہیں۔ایک موقعہ پر معروف مقرر و داعی قاری حنیف ملتانی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ ’’ آج کل تہجد گزار اور گدی نشین اور ملی تنظیموں کے مسند بردار علما و عہدیداران کے اخلاق اور مزاج اتنے بگڑ چکے ہیں کہ وہ اگر پانچ دن پابندی سے نماز ادا کرنے لگے تو اس کو اپنے علاوہ سبھی کافر نظر آنے لگتے ہیں۔العیاذ باللہ
حسب ، نسب، مرتبہ :
قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
’’ بے شک تم میں عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو، اللہ سے ڈرنے والا ہو، گناہوں سے بچنے والا ہو۔‘‘(الحجرات13)۔
مال و دولت اور اولاد کیلئے قرآن میں ارشاد ہے:
’’ مال اور اولاد دنیا کی رونق ہیں، باقی رہنے والے تو نیک اعمال ہیں، وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب اور امید کے لحاظ سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔‘‘(الکہف46)۔
اس لئے مال ودولت ، اولاد کی قابلیت یا اس کے اعلی عہدے پر فائز ہوجانا اور بے انتہا دولت حاصل کرلینا صرف اس دنیا کی شان ہے۔اللہ تعا لیٰ کی نظر میں ان کی ذرہ برابر کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اگر کوئی حیثیت ہے تو نیک اعمال کی جو انسان انجام دیتا ہے، اپنے مال سے دنیا میں کوئی نیک کام انجام دیتا ہے، اولاد نیک اور صالح ہو تو اس کے لئے مرنے کے بعد صدقۂ جاریہ بن جاتا ہے۔دنیا کی زندگی کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہے:
’’دنیا کی زندگی دھوکے کے سرمایے کے سوا کچھ نہیں ۔‘‘(الحدید20)۔
غرور کے معنیٰ دھوکہ کے ہیں اور اس طرح ہم اپنی بڑائی جتلا کر دوسروں کو حقیر جان کر اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے تو یہ سارے عطیے اور نعمتیں ہم سے چھین بھی سکتا ہے۔ وہی عزت دینے والا ہے، وہی ذلت دینے والا ہے(وتعزُمن تشائُ وتُذِلُّ مَن تشاء)بلکہ اس طرح کی مثالیں ہماری اپنی زندگی میں ہی مشاہدے میں ہمیشہ آتی رہتی ہیں ۔اب ہم یہاں جائزہ لیں گے کہ تمام اعمال کی کسوٹی تقویٰ ہے۔
دینداری پر غرور:
اب جو لوگ اپنی زندگیوں میں نیک اور عملِ صالح کر رہے ہیں ،وہ اس بناء پر غرور کے پندار میں مبتلا ہو جائیں کہ ہم تو نیک ہیں، اچھے ہیں باقی لوگ بے حد خراب ہیں اور اس بناء پر دوسروں کو کم تر و حقیر جانیں یہ طریقہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ حضور اکرم کا ارشاد ہے :
’’ نہ تو میرا عمل مجھے جنت میں لے جائے گا اور جہنم سے بچا سکے گا اورنہ تمہارا، مگر اللہ کے فضل و کرم سے، اس لئے اللہ کا خوف اور اس سے امید رکھنی چاہیے۔‘‘
اب اس حوالے کی چند احادیث اور بزرگان دین کے واقعات کا مطالعہ کرتے ہوئے دعا کریں کہ اللہ ہمارے دلوں سے ہر قسم کی روحانی بیماریوں، جیسے غرور، تکبر، حسد، کینہ ، بغض اور ریاکاری اور غریبوں مزدوروں کوحقیر سمجھنےکی لعنت سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔آمین
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو یہ بات پہنچی کہ ان کے بیٹے نے ایک انگھوٹی بنائی ہے، جس کی قیمت ہزاروں درہم ہے، تو امیر المؤمنین نے اپنے بیٹے کو لکھا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم نے انگھوٹی ہزاروں درہم کی بنائی ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو اس انگو ٹھی کو بیچ دو اور اس کی قیمت سے ہزار بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور اس کے بدلے ایک سادی لوہے کی انگھوٹی بنا لو اور اس انگھوٹی پر یہ عبارت لکھ دو:
ترجمہ: ’’خدا جل جلا لہ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے آپ کو پہچان لے۔‘‘
( شرح اسماء الحسنیٰ للقشیری: 123)
حضرت ابن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت عثمانؓ کی انگوٹھی پر کیا عبارت نقش تھی؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ انہوں نے پورے صدق نیت سے اپنی انگوٹھی پر یہ جملہ نقش کرایا تھا:
’’خدایا!مجھے سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرما‘‘ پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم انہیں سعادت کی زندگی بھی ملی اور شہادت کی موت بھی۔‘‘ (مستدرک حاکم، ص 106 ج 3 کتاب معرفتہ الصحابہؓ)
مہلب وزیر کا ایک بیٹا ایک دن حضرت مالک بن دینارؒ کے قریب سے فخر اور غرور کی چال چلتا ہوا گزرا تو مالک بن دینارؒ نے اسے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اے لڑکے! کیا ہی اچھا ہو اگر تم تکبر چھوڑ دو۔‘‘
وزیر کا بیٹا کہنے لگا: ’’کیا تم نے مجھے پہچانا نہیں؟‘‘
تو انہوں نے جواب دیا: ’’کیوں نہیں، میں تو تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ تمہاری ابتدا تو ایک ناپاک نطفہ ہے اور تمہاری انتہا بدبو دار جسم ہے اور درمیانی حالت یہ ہے کہ نجاست اٹھائے پھرتے ہو۔‘‘ یہ سن کر اس لڑکے نے سر جھکا لیا اور آئندہ کے لئے توبہ کرلی۔ (المستطرف: 404/1)
دعاء فرمائیے ! اللہ کریم صاحب تحریر کو اور ہم سب کوان تمام معاصی سے جوسب کے سب جرم عظیم ہیں ،ان سے پاک کرکے اپنے محبوب اور متقی بندوں میں ہمیں شامل کرلے۔آمین

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here