جی ایس ٹی میں تخفیف کا پس منظر

0
1057
ڈاکٹراسلم جاوید

دیسی دواؤ ں کے کاروبار کو چوپٹ کرنا چاہتی ہے سرکار!

ڈاکٹر اسلم جاوید

اسی سال ماہ جولائی میں اشیاء وخدمات ٹیکس نافذ کئے جانے کے بعد ملک بھر میں دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی، اوندھے منہ گرچکی جی ڈی پی اور اس کے بعد بے حس بن چکی حکومت پر خود بی جے پی کے متعدد سینئر لیڈران ،ماہرین اقتصادیات اورسابق وزرا ئے مالیات کی جانب سے جتایے گئے سخت اعتراض کے بعد حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑا۔پارٹی صدر کو آناً فاناً کیرالا کاطوفانی دورہ منسوخ کرکے درمیان میں ہی دہلی طلب کر لیا گیا،وزیر اعظم نے وزیر مالیات ارون جیٹلی کو ہدایت دی کہ محکمہ کے تمام افسران کے ساتھ اس فیصلے پر اعلیٰ سطحی میٹنگ کرکے جی ایس ٹی سلیب میں ٹیکس کی شرح اور کم کرکے عوام کو ہونے والی تکالیف اور بے چینی دور کرنے کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔حالا نکہ وزیر مالیات کے ذریعہ یکم اکتو بر2017کو ہی یہ اشارہ دیاگیاتھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے سابقہ فیصلے میں ترمیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔غالباًانہیں اپنے ہی سابق رہنما اور قدآور لیڈریشونت سنہا کی اس تنقید کو بھی فضول سمجھ رہے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ وزیر اعظم نریندر مودی پہلے سے ہی یہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے بہت ہی قریب سے غربت اور غریبی دیکھی ہے،لہذا اب مودی جی پورے ملک کو اسی غریبی کا مزہ چکھانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔بی جے پی کی کئی حلیف جماعتیں بھی جی ایس ٹی میں ضروریات زندگی کی کئی لازمی اشیاء کے شرح ٹیکس میں 28فیصد تک اضافہ کئے جانے پر نالاں تھیں اور ان میں سے کئی جماعتوں نے تو برملا اس فیصلہ کو تغلقی فرمان تک کہہ دیاتھا۔اس جی ایس ٹی کے نتیجے میں یکم جولائی 2017کے بعد کئی تہوار بھی آئے ۔مگر وہ بے مزہ ہی رہے۔نوٹ منسوخی کے نتیجے میں جاچکی نوکریوں اور غیر منظم شعبہ میں چھانے والی مندی نے مزدوروں اور کنسٹرکشن شعبہ کے ملا زموں کا سب کچھ پہلے ہی چھین لیا تھااور اس کے فوراًبعدجی ایس ٹی کے جابرانہ نفاذ نے ملک کے عام باشندوں کی کمر توڑ دی تھی ،ایسے میں کوئی بھی شادی یا تہوار میں خوشی ومسرت کیسے باقی رہ سکتی تھی ،اس کا احساس وہی لوگ کرسکتے ہیں ،جنہوں نے جی ایس ٹی آ نے کے بعد بے روزگاری کا کرب جھیلا ہے،اپنے کاروبار ٹھپ ہونے کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ جی ایس ٹی جیسا حوصلہ آزما فیصلہ لیتے ہوئے دوا علاج اور صحت جیسے اہم شعبہ کوبھی نہیں بخشا گیا۔خود وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات سے متواتر یہ خبر آ تی رہی کہ جی ایس ٹی سافٹ ویئر کی دقتوں کی وجہ سے وہاں کے دوا دکاندار کئی قیمتی اور ضروری دوائیں مریضوں کو دینے سے بھی منع کررہے ہیں ۔ ایک طرف حالات اس قدر خراب تھے اورحکومت اس کا احساس کرنے کو بھی غیر ضروری سمجھتی رہی، اس کا اثر یہ ہوا کہ پورے ملک کے بازار ٹھپ پڑ گئے تہواروں اور شادی کے موسموں میں بھی دکاندار گاہکوں کے انتظار میں حکومت کے تغلقی فرما ن کا ماتم کرتے رہے ۔مگر وزیر مالیات ارون جیٹلی کی صحت پر اس سے کوئی فرق پڑتا ہو ا نظر نہیں آ یا ۔ البتہ بی جے پی کے سینئر لیڈران کی بے انتہا برہمی اور اس فیصلے کے خلاف مہم چلانے کے بعد وزیر اعظم نے خود ہی اس کا نوٹس لیا ،جبکہ جیٹلی اپنی اکڑ اور ضد پر مسلسل قائم تھے۔یکم اکتو بر2017کو وزیرمالیات نے یہ اشارہ دیاکہ محصولات بڑھنے کے بعد جی ایس ٹی سلیب میں کٹوتی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے عمل درآمد کے بعد ’ریونیو نیوٹرل‘ کی سطح تک پہنچنے کے بعد ہی بڑے پیمانے پراقتصادی اصلا حا ت کی گنجائش ہے۔خیال رہے کہ ریونیو نیوٹرل کی شرح جی ایس ٹی کی وہ شرح ہے ، جس میں ٹیکس کے ضابطوں میں تبدیلی کے بعد بھی ٹیکس کی شکل میں حکومت کو مساوی رقم ملے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال جی ایس ٹی کے چار سلیب ہیں جو صفر سے 28 فیصد کے درمیان ہیں۔ انہوں نے اپنے ناقدین کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ملک کی ترقی کا مطالبہ کرتے ہیں، انہیں اس میں خود ہی تعاون کرنا چاہئے اور ایمانداری کے ساتھ ٹیکس کی ادائیگی کرنی چاہئے۔مسٹر جیٹلی نے نیشنل اکیڈمی آف کسٹمس اکسائز اینڈ نارکوٹکس کے یوم قیام کے موقع پراورانڈین ریونیوآفیسر کے 67 ویں بیچ کے الوداعی تقریب سے فرید آ با د میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کو چلانے کے لئے ٹیکس ضروری ہے اور اس آمدنی کے حصول کے بعد ہی ہندوستان ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ معیشت بن سکتا ہے۔مگر وہ یہ بات قطعی طور پر بھول گئے کہ وہ فیصلہ تو امریکہ جیسے خود کفیل اور ترقی یافتہ ملک کے طرز پر لے رہے ہیں ۔مگر یہاں کے عوام کی فی کس آمدنی امریکی عوام کے 110گنا سے بھی کم ہے۔
بہر حال یہ مسٹر ارون جیٹلی کی اپنی ضد تھی جو انہیں ملک کے سواکروڑ عوام کی تکالیف کا احساس کرنے کا موقع بھی نہیں دے رہی تھی۔یعنی روم کے فرمانروا نیرو کی طرح کہ’’ ملک جل رہاتھا اور نیرو بانسری بجانے میں مگن تھا‘‘۔اصل وجہ یہ تھی کہ عوام پر چاہے جو بھی آ فت آ ئی ہو ،اس سے وزیر مالیات کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑرہا تھا ،اس لئے کہ وہ اس وقت اقتدار میں ہیں اور ان کی شاہی ٹھاٹ باٹ حکومت کی جانب سے پوری کی جارہی ہے ۔مگر مسٹر یشونت سنہا ،ارون شوری ، آر ایس ایس کا مزدور ونگ اور کسان سبھا کی بے قراری نے انہیں خواب غفلت سے بیدار ہونے پر مجبور کردیا ۔انجام کار گزشتہ 6 اکتو بر 2017کو ہنگامی طور پر جی ایس ٹی کونسل کی میراتھن میٹنگ طلب کی گئی اور لگ بھگ 27اشیا ء پر جی ایس ٹی میں رعایت دیتے ہوئے بارہ سے پانچ فیصد تک ٹیکس گھٹا یا گیا۔ہم ان اشیاء سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے اصل ہدف کی جانب آ تے ہیں ۔تازہ ترین ٹیکس اصلاحات میں جن27چیزوں کی قیمتیں کم کی گئی ہیں ان میں چھٹے نمبر پر آیور ویدک ،یونانی سمیت وہ سبھی دیسی دوائیں ہیں جن میں بنا نام والی اور غیر پٹینٹ یا غیر برانڈیڈ دواؤں پر سابقہ12فیصد شرح ٹیکس میں تخفیف کرکے 5 فیصد تک کردی گئی ہے۔قابل ذکر ہے کہ برانڈیڈ اور پیٹنٹ دیسی دواؤ ں پر پہلے18فیصد ٹیکس لاگو تھا۔دیسی طریقہ علاج اور صحت کے شعبہ سے وابستہ طبقات کو امید تھی کہ وزیر اعظم چونکہ ’’انڈیا فرسٹ‘‘ کے اصول پر ہمیشہ کار بند ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں اور دیسی طریقۂ علاج کی حوصلہ افزائی کرنے ،اس سیکٹر کو خاص طورپر ترقی دینے کی ضرورت کا احساس ہمیشہ دلاتے رہے ہیں ،لہذا مودی جی دیسی طریقہ علاج اور دیسی دواؤ ں پر نظر عنایت فرمائیں گے۔مگر ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘ ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا اور دیسی طریقہ علاج میں بھروسہ کرنے وا لے مریضوں ،صحت مراکز اور دواساز اداروں کی سا ر ی توقعات دم توڑ گئیں۔ 
اگرچہ یونانی و آیورویدک کی کلاسک دواؤ ں پر ٹیکس میں کمی کی گئی ہے ،حالانکہ امید یہ کی جارہی تھی کہ اس شعبہ کو سرے سے جی ایس ٹی سلیب سے ہی علیحدہ رکھا جائے گا اور دیسی طریقہ ہائے علاج کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے گی۔مگر یہ ساری آرزوئیں دھری کی دھری رہ گئیں اور دیسی دواؤ ں کو مہنگا کرنے کا سخت فیصلہ لے ہی لیا گیا۔البتہ جو اہم دوائیں پٹینٹ یعنی برانڈیڈ ہیں، اس پر بھاری بھرکم 12فیصد جی ایس ٹی نافذ کرکے حکومت ہند عوام کو دیسی طریقہ علاج کے سلسلے میں کیا پیغام دینا چاہتی ہے،اس سلسلے میں زیادہ بہتر سرکارکے ارباب اقتدار ہی جانتے ہوں گے ۔مگر اس میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ اپنی دواؤں کو گا ہکو ں کی قوت خرید کے مطابق بنایے رکھنے کیلئے ان برانڈیڈ ادویہ کی کوالیٹی اور معیار کو برقرررکھنا دواساز اداروں کیلئے مشکل ترین مسئلہ بن جائے گا۔اگر دواساز ادارے دواء کی قیمت سے سمجھوتہ کرتے ہیں تو لامحالہ انہیں اپنی دواء کی کوالیٹی کو باقی رکھنا آسان نہیں رہے گا۔اس لئے کہ ادویہ کے نسخے میں شامل اجزاء کی قیمتیں بھی اس جی ایس ٹی سلیب سے محفوظ نہیں ہیں۔ اگر مفرد ادویہ مہنگی قیمت پر ہی دواساز کمپنیوں کو خریدناہوں گے تو لامحالہ قیمت کم رکھنے کیلئے وہ معیاری کوالیٹی کے مفردات دوامیں شامل نہیں کرسکیں گے۔مثال کے طور پر اگر آپ معیاری اور اعلیٰ کوالیٹی کے ڈرائی فروٹس یا مغزیات خریدتے ہیں تو جی ایس ٹی کے ساتھ اس کی قیمت سمجھ لیجئے کہ سات سو روپے فی کلو پڑے گی ،جبکہ وہی چیزیں غیر معیاری اور سستی بھی دستیاب ہوں گی ،ظاہرسی بات ہے کہ ایسے میں اگرقیمت کو کنٹرول میں رکھنا ہے اور خریداروں پر اپنی پکڑ بنایے رکھنی ہے تو دواء ساز ادارے کیا کرسکیں گے اس کا اندا زہ لگا نا بہت مشکل نہیں ہے۔

09891759909

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here