توسیع پسند انہ سیاست جنگیں اور طاعون

0
526
All kind of website designing

ڈاکٹر میم ضاد فضلی
(سینئر صحافی و تجزیہ نگار)

آج جب کورونا کی تباہ کاری سے دنیاکے طاقتور ترین ممالک کراہ رہے ہیں، اور امریکہ ، اسپین ،اٹلی اور برطانیہ سمیت اس کے تمام حوااری ممالک پانی پی پی کر چین کو کوس رہے ہیں اور اپنے عوام کا ذہن اپنی سیہ کاریوں سے ہٹاکر چین کی جا

ڈاکٹر میم ضاد فضلی
ڈاکٹر میم ضاد فضلی

نب موڑنے کے نت نئے جتن کرر ہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی احمقانہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح ان کے عوام یہ یقین کرلیں کہ جان لیوا کووڈ19-ان کے جرائم کا نتیجہ نہیں ہیں ، بلکہ یہ صرف چین کی کارستانی ہے ، جس کی وجہ سےپہلے اٹلی، اسپین ، برطانیہ کنیڈا اور آج تک امریکہ تباہ ہورہا ہے۔ آج جب مغرب کے متعصب ماہرین کورونا کو کسی بائیوجنگ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں تو مجھے بے ساختہ آج سے لگ بھگ پچھتر برس پہلے امریکہ کے ذریعہ روئے زمین پر کیا گیا سب سے بڑا گناہ عظیم کسی فلم کی طرح میرے ذہن کے پردے پر دوڑنے لگا ، روئے زمین پر امریکہ نے جو عظیم انسانی بحران پیدا کرنے کی ظالمانہ دہشت گردی انجام دی تھی اس کی روداد آپ ہیروشیما اور ناگاساکی میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں آج تک پیدا ہونے والے معذور اور صحت کے اعتبار کسی نہ کسی نوعیت سے محروم بچے ماؤں کے شکم سے باہر نکل رہے ہیں۔وہ سارے منظر آج میری ناتواں آنکھوں میں گھوم رہے ہیں اورشدید کرب نے مجھ سے میری راتوں کی نیندیں چھین لی ہیں۔
قارئین جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جسے جوہری حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سن 1945 میں امریکہ نے پہلے ہیروشیما اور پھر ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے۔جس کے نتیجے میں اسی وقت کم ازکم ڈیڑھ لاکھ بے گناہ اور نہتے جاپانی موت کا نوالہ بن گیے تھے اور ان کے خون سے سمندر کا پانی نیلگوں ہوگیا تھا۔مگر اسی پر بس نہیں ہوا امریکہ کے اس گناہ عظیم کی لپیٹ میں جاپان آج بھی سسک رہا ہے اور ناگاساکی و ہیروشیما کی مائیں ہنوز بیمار بچے جن رہی ہیں۔اس کے بعد بھی امریکہ نے اپنی شیطانی سے توبہ نہیں کیا اور انسانوں کے لہوں پینے اور توسیع پسندی کے اس کے ناپاک منصوبے نے روس کو بھی سبوتاژ کردیا،بعد ازاں خلیجی ممالک کی اپنے لے پالک اولادوں سعودی عرب، کوویت، اردن، یو اے ای اور دیگر ناتحقیق نطفوں کے ساتھ مل کر عراق کی سرزمین پر1991 میں انسانوں کی لہوآشامی کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے آج تک جاری ہے اور چند عرب ممالک کو چھوڑ کر پورے اقصائے عرب میں موت کا کھیل امریکہ لگاتار کھیل رہا ہے۔ کیا روس ، امریکہ اور اسرائیل کے ایٹمی اسلحے اور بائیو کیمیکل پر محیط بم گولے کوئی وبا یا کوئی نئی بیماری پیدا نہیں کرر ہے ہوں گے۔ اگر آپ اس کی تردید کرتے ہیں تو یہی سمجھا جائے گا کہ یاتو آپ کافزکس اور کیمیکل سائنس کا علم ناقص ہے یا آپ نے چند عرب ممالک کے غلام حکم رانوں کی طرح امریکہ کے طوق غلامی آپ کوبھی حق کے اعتراف سے روک رہا ہے۔
تاریخ کے مختلف ادوار گواہ ہیں کہ جب بھی کوئی ملک اپنی سرحدوں کو توسیع دیتے ہوئے سلطنت یا استعماری قوت کا درجہ پاتا ہے، تب بڑے پیمانے پر جنگیں بھی چھڑتی ہیں اور اِن جنگوں کے نتیجے میں نقل مکانی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں وبائیں بھی پھیلتی ہیں۔ ان وباؤں کے ہاتھوں کئی سلطنتیں تباہی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ آج کی بڑی طاقتوں کو اس بنیادی تاریخی حقیقت کا نوٹس لینا چاہیے ،تاکہ ہر ممکن حد تک تباہی کو ٹالا جاسکے۔
کورونا وائرس محض ہیلتھ ایمرجنسی کا معاملہ نہیں۔ یہ ایک بڑا سیاسی منصوبہ اور دنیاکو الٹ پلٹ دینے والا موڑ بھی ہے۔ ماحول عجیب رنگ کا ہو چلا ہے۔ ایسے میں کوئی بڑی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ اگر ہم یورپ میں قرون وسطیٰ کے دوران رونما ہونے والی ’’سیاہ موت‘‘ (طاعون کی وبا) سے ۱۹۱۸ء میں پھیلنے والے ’’اسپینش فلو‘‘ تک جتنی بھی وبائیں پھیلیں اُن کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ سوال صرف صحتِ عامہ کا نہ تھا، بلکہ معاشروں اور سیاست پر بھی اِن وباؤں کے شدید اثرات مرتب ہوئے۔
رومن سلطنت سے اب تک استعماریت یعنی توسیع پسند ی اور وباؤں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ۱۰۰ سال کے دوران جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت اور سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ عالمگیر نوعیت کی وباؤں پر قابو پانا اب بھی انسان سے ممکن نہیں ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ ’’سیاہ موت‘‘ چوہوں نے پھیلائی تھی۔ اب مورخین ریکارڈ کھنگال کر بتا رہے ہیں کہ یورپ میں انتہائی تباہ کن طاعون چوہوں نے نہیں، بلکہ انسانوں نے پھیلایا تھا۔ یہ وبا ایشیا سے یورپ پہنچی تھی۔ ایسے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ استعماری قوتوں کے درمیان رسّہ کشی یا جنگ نے وباؤں کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اس کی زندہ مثال آبشاروں اور جنگلوں سے جنت کا نظارہ پیش کرنے والا ملک کریمیا ہے ۔کریمیا میں کافہ شہر کا محاصرہ تو منگولوں نے کرلیا ،مگر اِس شہر کو اطالوی قوت کے پنجے سے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے تھے۔ منگولوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے طاعون پھیلایا۔ وہ ایسے کہ طاعون سے مر جانے والوں کی لاشیں شہر میں پھینکی گئیں۔ یہ عیسائی تاجروں (جینوز) کا شہر تھا۔ منگولوں نے انہیں بعض معاملات میں رعایت دے رکھی تھی۔ یورپ سے تجارت کے علاوہ غلاموں کی تجارت پر بھی ان کی اجارہ داری تھی۔آج بھی جوکچھ ہورہاہے مثلا کورونا کی تباہ کاری اس کے پس پشت بل گیٹس جیسے عالمی شہرت کے حامل اور بڑی بڑی دواساز کمپنیوں کے بلینرس کا شاطر داغ کارفرماہے۔ بھارت کی تو بھاجپائی حکومت ہی گجرات کے دھناسیٹھوں کی رکھیل بنی ہوئی اور اڈانی و امبانی کے آفس پی ایم او پر حاوی ہیں۔ایسے میں یہ بات کون تسلیم کرسکے گا کہ نہایت جلد بازی میںمیڈیکل ایکوپمنٹ اور طبی آلات کی تجارت شروع کرنے والا ساہوکار مکیش امبانی کا ملک کوکورونا سے دوچار کرنے میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔
بہر حال بات چل رہی تھی منگولوں کی تباہی کی تو آئیے اسی طرف لوٹتے ہیں۔ مسلم منگولوں اور عیسائی تاجروں میں (جنہوں نے مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا تھا) غیر معمولی کشیدگی چل رہی تھی۔ مذہب کے اختلاف نے اس کشیدگی کو مزید ہوا دی۔ پہلے حملے میں ۱۵ ہزار منگول مارے گئے۔ جب شہر فتح ہوگیا تو فرار ہوتے ہوئے عیسائی تاجر اپنے ساتھ طاعون لے کر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) پہنچے۔ وہاں سے یہ وبا پورے یورپ میں پھیل گئی۔ اس وباء نے ایک عظیم سلطنت کی بنیادیں ہلادیں اور بالآخر اُسے ختم کرکے دم لیا۔
۱۹۱۸ء کی وبا
دورِ جدید کی بدترین وبا ’اسپینش فلو‘ تھی۔ یہ نام بھی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ حال ہی میں ریکارڈ کی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانوی اور فرانسیسی افواج کے پیچھے کی صف میں چین سے محنت کشوں کی منتقلی ہوئی اور انہی سے یہ فلو پھیلا۔ کینیڈا سے یورپ منتقل ہونے والے تین سے پچیس ہزار چینی محنت کشوں کو فلو کی علامات ظاہر ہونے پر قرنطینہ کیا گیا تھا۔
کینیڈا کی ولفرڈ لوریئر یونیورسٹی کے تاریخ دان مارک ہمفریز کہتے ہیں کہ آرکائیو سے معلوم ہوا ہے کہ نومبر ۱۹۱۷ء میں چین میں سانس سے متعلق ایک بیماری کو اسپینش فلو کے مماثل قرار دیا گیا۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسپینش فلو نے پہلی جنگِ عظیم کی بساط لپیٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ماحول کی تبدیلی اور طاعون
جنگیں اور وبائیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی کے دوران جسٹن کے مقام سے پھیلنے والے طاعون نے روم کی سلطنت کا خاتمہ کردیا تھا۔ یہ وبا ۵۴۲ء میں قسطنطنیہ پہنچی۔ صرف ایک سال قبل یہ وبا رومی سلطنت کے باہری صوبوں تک محدود تھی۔ چھٹی صدی عیسوی سے آٹھویں صدی عیسوی کے دوران بحیرۂ روم کے خطے میں طاعون کسی نہ کسی شکل میں کم و بیش ۲۲۵ سال تک تباہی و بربادی کا بازار گرم کرتا رہا۔ قسطنطنیہ تک طاعون شمالی افریقہ کی نو آبادیوں سے آیا تھا۔ اُس زمانے میں رومن سلطنت کے لیے خوراک، تیل، ہاتھی دانت اور غلاموں کی رسد کے حوالے سے مصر کلیدی کردار کا حامل تھا۔ جارجیا یونیورسٹی کے جان ہارگن نے لکھا ہے کہ طاعون چوہوں اور پسوؤں سے پھیلا۔ ان دونوں کو بھرپور انداز سے پنپنے کے لیے مصر میں اناج کے بڑے بڑے گودام میسر آئے۔ اب طاعون کو پھیلنے سے کون روک سکتا تھا۔جہاں ان طاعون زدہ چوہوں کی افزئش ہوئی۔
ایک طرف طاعون تھا اور دوسری طرف ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں۔ سردی بڑھ گئی۔ سورج کی روشنی کم کم میسر ہوتی رہی۔ بہت سے آتش فشاں پھٹ پڑے اور فصلیں تباہی سے دوچار ہوئیں۔ خوراک کی شدید قلت نے کئی خطوں کو لپیٹے میں لیا۔مورخین بتاتے ہیں کہ طاعون اور اسپینش فلو جیسی وبائیں جنگوں کے نتیجے میں پھلیں اور توسیع پسندانہ عزائم بھی اِن وباؤں کی پشت پر تھے۔ فوجی، ان کا سامان اور اُن کا سامان اٹھانے والی گاڑیاں اور جانور وباؤں کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوئے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here