مسلم ممالک میں ہندؤوں کا عمل دخل،قصور اپنا ہے

0
461
All kind of website designing

مشرق وسطی سے ہمارے کمزور تعلقات کے نقصانات

مشتاق نوری

کسی کے دل تک اترنے کے لیے اس کی زبان جاننا بے حد ضروری ہے۔ایک سعودی ریٹرن کا کہنا تھا کہ پیسے مشرق وسطی کی ہواؤں میں اڑتے ہیں انہیں پکڑنے کے لئے آپ کو بہترین عربی زبان جاننے کی ضرورت ہے، تاکہ عوامی نمائندوں ،رہنماؤں سے رابطہ آسان ہوسکے۔اصل میں زبان ہی کمیونی کیشن گیپ توڑنے میں معاون رول پلے کرتی ہے۔اس بات کی سچائی کا ۹۹؍ فیصد احساس مجھے تب ہوا جب آج سے تین سال قبل کولکاتا کے ایک بزرگ عالم دین سے ایک جلسے میں ملاقات ہوئی تھی مدارس اور عربی تعلیم پر بات چیت کے دوران انہوں نے ایک حقیقت کا انکشاف کرکے گویا مجھے چونکا ہی دیا تھا۔ان کے بقول، کولکاتا میں آر ایس ایس کی فنڈنگ اور دیکھ دیکھ میں’’شری کرشن میموریل ٹرسٹ‘‘ نامی ایک ادارہ چلتا ہے جس میں دھارمک گیان اور عصری علوم کے ساتھ ساتھ عربی لینگویج کا ایک خاص شعبہ بھی ہے، جس میں تقریبا دو سو ہندو لڑکے عربی اسپیکنگ کورس کر رہے ہیں ۔ اور انہیں عرب ممالک میں بڑے بڑے عہدوں، گلوبل اسٹیٹس کمپنیز کے لئے بطور امپلائی بھیجا جاتا ہے۔اور آپ اعدادو شمار نکال کر دیکھ لیں کتنے مدرسے والے گلف کے لئے اپنے طلبہ تیار کرتے ہیں۔ہم نے اب تک نہیں سنا کہ فلاں مدرسے یا ادارے کے بینر تلے روزگار کےلیے سرٹیفائڈ طلبہ کو فارین بھیجا گیا ہے۔ممکن ہے کہیں کوئی ایک دو ہو بھی مگر میرے علم میں نہیں ہے۔ویسے بھی ہماری اور دیگر اقوام کی چال کے درمیان وہی فرق ہے جو کچھوے اور خرگوش کی چال کے درمیان ہے۔یہ میں اس لیے بھی وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ آج تک سینکڑوں کوششوں کے بعد بھی روز گار کے لیے میرے گاؤں سے ایک بندہ بھی سعودی نہیں جاسکا ہے۔جبکہ ہمارے بغل کے ہندو گاؤں سے درجن بھر لوگ سعودی رہتے ہیں۔یہ ایسے نہیں ہوجاتا ہے صاحب! بلکہ اس کے لئے ہندو لابیز دن رات ایک کر رہی ہیں۔خلیجی ممالک سے رابطہ بنانے میں کافی پہلے سے یہ متحرک ہیں۔
اس میں ہمارے پچھڑے پن کا سبب ڈھونڈنے کے لئے آپ کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہمارے مدارس نے عربی کے اتنے کان کھینچے ہیں،قال قال کی اتنی گردان کروائی ہے،اس کے نین نقش پر قیل و قال کی اتنی پرتیں جمائی ہیں کہ دس سال لگا دینے کے بعد بھی ہم کسی عرب سے تبادلۂ خیال کے قابل نہیں بن پاتے اور نہ کسی پلیٹ فارم پر جاکر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے اہل ہو پاتے ہیں۔پھر مستزاد یہ کہ ہمارے مدارس والوں نے آج تک عرب شیوخ و رہنمایان خلیج ممالک سے کوئی ایسا معاہدہ بھی نہیں کیا کہ ہمارے طلبہ انڈیا میں دیگر علوم کے ساتھ ساتھ عربی ادب کی ضروری تعلیم حاصل کرکے خود کو ثابت کریں۔کہا جاتا ہے کہ تعلیم کو اگر روزگار سے جوڑ دیا جائے تو اس کے پھلنے پھولنے کے مواقع سہ گنا ہوجاتے ہیں۔
ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ مشرق وسطی میں تقریبا جتنے ہندوستانی رہتے ہیں ان میں تقریبا ۷۰؍ فیصد غیر مسلم ہندو ہیں جو وہاں بڑے بڑے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔اس سے اندازہ لگائیں کہ ہم کہاں ہیں اور وہ کہاں ہیں۔
انڈین مسلم اور عرب ممالک کے عوام و نمائندوں کے بیچ اتنی بڑی خلیج کیوں ہے؟ تو اولا آپ کو دو وجہ خوب سمجھ میں آئے گی۔پہلی تو یہ کہ ہم اس معیار کے پروڈکٹ پروڈیوس کرنے میں ناکام رہے ہیں جو عرب شیوخ و رہنمایان کو ہماری پریشانیاں، ضرورتیں سمجھا سکیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ہند و پاک دیگر مسالک کے خلاف سلفی مکتبہ نے فکرعلما و عوام کے اتنے کا ن بھرے ہیں کہ سعودیہ سے لے کر متحدہ عرب امارات تک کے سارے لوگ سلفی فکر کے علاوہ کسی بھی مسلک کے ماننے والے کو مسلمان تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، بلکہ انہیں وہ سرے مشرک بلکہ کفار مدینہ سے بھی بدتر سمجھتے ہیں اسی ناپاک و منظم پروپیگنڈہ کا نتیجہ ہے کہ عربوں کی میںان کی نظر میں بھارت کا غیرسلفی مسلمان ہندؤں سے بھی بدتر ہے۔ حالیہ چھ سات برسوں کے درمیان بالخصوص سعودی عرب اور عموماً تمام خلیجی ممالک کے سربراہوں، حکم رانوں اور آقاؤں نےہندوؤں کو جوعزت احترام بخشا ہے وہ سب اسی سلفی پروپیگنڈے کی دین ہے، لہذا ہمیں ہندوؤں پر سوال کھڑے کرنے سے پہلے اپنے گھروں میں جھانکنا چاہئے ۔جب کہ وقت و مصلحت کا تقاضا تھا کہ مسلکی عناد کی دیوار کو مضبوط کرنے کے بجائے باہم ایک دوسرے کو قریب کرنے اور بغل گیر ہونے کی پالیسی پر کام کیا جاتا۔مگر صد حیف! کہ ایسا نہ ہوسکا۔یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار یہاں کسی نہ کسی مسئلہ میں الجھا دیے جاتے ہیں۔ہمارے خلاف سازشیں ہوتی ہیں،لنچنگ ہوتی ہے،دنگے ہوتے ہیں اور عرب شیوخ،خلیجی سربراہان کان میں تیل ڈال کر سوئے رہتے ہیں۔انہیں ہمارے مسائل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ یہاں ہماری نسل کشی ہوتی ہے اور ہماری لاشوں جشن مناتے ہوئے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے شیوخ ہمارے قاتل پیر وں تلے سجدہ ریز ہونے کو قابل فخر قدم تصور کرتے رہتے ہیں۔
فطرت کا قانون ہے کہ زمین پر جب بھی زیر و زبری یا خوف و دہشت کا ماحول بنتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ مثبت اشارے بھی پنہاں ہوتے ہیں۔اب دیکھئے نا! ویسے تو’’کورونا لاک ڈاؤن‘‘ سے جانداروں کو درجنوں بڑے فائدے ہوئے ہیں۔اگرچہ کورونا نے سب کو دہشت زدہ کر دیا ہے ۔ یہاں تک کہ جو ہمیشہ دوسرے کو آنکھ دکھاتا تھا،جو اپنی ٹاپ لیبل ہیلتھ فیسیلٹی پر نازاں تھا، اسے بھی خون کے آنسو رلا دیا ہے۔ایسے میں ہمارے لئے کچھ شادمانی کی خبر یہ ہے کہ عرب ممالک کے نمائندگان،صحافی حضرات، اور شاہی خاندان کے افراد کو ہمارے دکھوں کا علم ہونے لگا ہے۔اور ان کے اندر ایمانی اخوت جاگنے لگی ہے۔اور وہ سب سوشل میڈیا کے ٹویٹر پلیٹ فارم سے ہمارے لئے نکل پڑے ہیں، اگرچہ ابھی یہ چند ہی ہیں، مگر امید ہے کہ رفتہ رفتہ ہی سہی ایک دن قافلہ ضرور بنے گا۔ظلم کا بادل چھٹے گا۔آثار بتاتے ہیں سحر ہوکے رہے گی (ان شاءاللہ)۔
بابا رام دیو جو بھگوا اور ہندو پرچار پرسار کو نہ صرف اپنا دھرم سمجھتا ہے، بلکہ پتنجلی کی آڑ میں دیش اور دنیا میں اپنی کیسریا زمین بنانے میں آج کامیاب نظر آتا ہے۔یہی رام دیو اپنی سنگھی مہم کے تحت، خالص توحیدی ہونے کا ڈھنڈھورا پیٹنے والے امارات کے متحدہ ریاستوں کے کئی بڑے شہروں میں یوگا آشرم کھول رہاہے۔مودی نے پہلے ہی ابو ذہبی میں ہندو سماج کے لئے ایک عالی شان مندر تعمیر کروا لیا ہے یہ سب ہندوتو احیا کی اسی خفیہ پالیسی کا حصہ ہیں ۔انڈیا میں ہمارے مولانا و پیر حضرات صرف مدرسہ چندہ اور پیری مریدی کا گیم کھیل رہے ہیں۔آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ رام دیو اور ہندو تنظیموں کی یہ کتنی بڑی کامیابی ہے۔
پچھلی پندرہ سو سالہ تاریخ میں ہم نے کافی جنگیں تب ہاری ہیں، جب ہمارے اندر کوئی میر جعفر پیدا ہوا ہے۔کہتے ہیں نا کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ آج بھی ہم ان جیسے لوگوں سے گھرے ہوئے ہیں۔تب کے مقابلہ میں اب تو حالات اور بھی مشکل ہوگئے ہیں اس وقت غداروں کی شناخت آسان تھی کہ کوئی حدیث و قرآن کی تاویل و تشریح کرکے ایسا نہیں کرتا تھا۔اب تو مذہبی جماعت سے ہی ایسے لوگ اٹھے ہیں جو حکومت کی کاسہ لیسی کرکے ملت کے وجود و وقار کا سودا کر لیتے ہیں۔کمال تعجب تو یہ ہے کہ کوئی مولوی مذہبی بھی ہو اور سرکاری بھی، ایسا کیسے ممکن ہے؟ جب کہ مذہبی و اخلاقی نقطۂ نظر سے مولوی کا سرکاری ہوجانا کسی گالی سے کم نہیں۔
اس لئے ٹویٹر کی جنگ کو مزید تیز کرنے،اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے مولوی محمود مدنی،ارشد مدنی،صہیب قاسمی،ابو طالب رحمانی،سلمان ندوی،سنی و شیعہ وقف بورڈز کے حاشیہ بردار جیسے سرکاری عنایت خوروں پہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔انہیں ایکسپوز کرنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ ابھی جو حالات بنے ہیں اس کی صفائی کے لئے انہی چہروں کا استعمال ہوگا۔ٹھیک ویسے ہی جیسے کشمیری لاک ڈاؤن سے کراہ رہے کشمیری عوام کی آواز دبانے کے لئے جینیوا کانفرنس میں محمود مدنی سے کہلوایا گیا تھا کہ کشمیر کا معاملہ ہمارا داخلی معاملہ ہے اور کشمیری عوام لاک ڈاؤن اور آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی سے کسی طرح کی دقت میں نہیں ہے ۔
اس لئے ان میر جعفروں سے ہوشیار رہ کر،موثر منصوبہ بند پیش قدمی جاری رکھنی ہوگی۔مشرق وسطی کے اہم ممالک جیسے سعودی ،مصر،یو اے ای، ترکی،ایران،قطر ،بحرین سے روابط بڑھانے ہوں گے۔انہیں اعتماد میں لینا ہوگا۔اس وقت ملی اقبال ،قومی وقار کے تحفظ کے لیے کئی مشکل ترین مورچے سے ہماری نبرد آزمائی ہے ان میں ایک میڈیا ہے جس کے منفی پروپگنڈے نے ہمیں ویلین بنا رکھا ہے۔اگر اس کے دانت کھٹے کرنے ہیں تو مذکورہ بالا ممالک کے سربراہان کو سچوئیشن سے باخبر کرکے ساتھ لانا ہوگا۔اور پھر ایک گلوبل یونٹ بن کر ٹویٹر پہ جو جنگ چھڑی ہے اسے ہمیں بہرحال جیتنی ہوگی۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here