مولانا الیاس گھمن
سرگودھا،پاکستان
اللہ تعالیٰ جن لوگوں سے نفرت کا معاملہ فرماتے ہیں ان کی نشاندہی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرما دی ہیں تاکہ خود کو ان گندے اوصاف سے دور رکھا جا سکے ۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّرَضِیَ اللُہ عَنْہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہ ُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ قَالَ: …… وَالثَّلاَثۃُ الَّذِينَ يُبْغِضہُمُ اللہ ُ: اَلشَّيْخُ الزَّانِي وَالْفَقِيْرُ الْمُخْتَالُ وَالْغَنِيُّ الظَّلُوْمُ ۔ جامع الترمذی ، باب ، حدیث نمبر 2568
ترجمہ: حضرت ابوذر غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین طرح کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نفرت کا معاملہ فرماتے ہیں : ان میں سے پہلا وہ شخص ہے جو بوڑھا ہوج
ائے پھر بھی زنا کرے ۔ دوسرا وہ شخص جو فقیر اور تنگدست ہو پھر بھی تکبر کرے اور تیسرا وہ شخص جو مال دار ہو ،لیکن دوسروں پر ظلم کرے ۔
اس حدیث مبارکہ میں ان تین طبقات کا ذکر ہے، جن کے ساتھ اللہ رب العزت انتہائی نفرت کا معاملہ فرماتے ہیں ۔ بڑھاپے میں بھی زنا کرنے والا ۔ فقیر ہو کر بھی تکبر کرنے والا اور مال دار ہو کر ظلم کرنے والا ۔ یہ وہ تین طرح کے لوگ ہیں جو نگاہ خداوندی میں انتہائی مبغوض اور قابل نفرت ہیں ۔ اللہ کے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت پر کس قدر احسان ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں اور ان کے ان کاموں کی نشاندہی بھی فرما دی ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ رب العزت کی نگاہ میں مبغوض ٹھہرتا ہے ۔
پہلا مبغوض بندہ: وہ ہے جو بوڑھا ہو کر بھی زنا کرتا ہو۔ یوں تو زنا ہر ایک کے لیےبہت بڑا گناہ ہے، لیکن انسان عمر کے اس حصے میں پہنچ جائے ،کہ جہاں جنسی خواہشات کمزور ہو چکی ہوتی ہیں ، اسباب زنا کے مواقع بہت کم ہوجاتے ہیں ، اس کے باوجود جب کوئی زنا کرتا ہے تو اللہ ایسے بندے سے شدید نفرت فرماتے ہیں۔
کبیرہ گناہوں میں سے زنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کے متعلق یہ نہیں کہا کہ تم زنا نہ کرو بلکہ اسے بے حیائی اور بہت برا راستہ قرار دے کر اس کے قریب جانے سے بھی روک دیا ہے ۔ یعنی تمام ایسی باتوں سے خود کو بچانے کا حکم دیا جن کی وجہ سے انسان زنا جیسی لعنت میں گرفتار ہو سکتا ہے ۔ یعنی نامحرم کے ساتھ بے حجابانہ گفتگو ، تنہائی ، بوس و کنار وغیرہ ۔ عموماً بدنظری سے شروع ہونے والا سفر بدکاری تک جا کر تمام ہوتا ہے ۔ اس دوران جتنے مراحل سے انسان گزرتا ہے ہر ہر لمحے میں اللہ کی ناراضگی اور پھٹکار کا شکار ہوتا رہتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں زنا کو فروغ دینے کے لیے ایسی راہیں ہموار کی جا چکی ہیں کہ اب احساس گناہ ہی مٹتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بندہ توبہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے ۔ہمارے بچے اور بالخصوص نوجوان نسل اس کا اتنا شکار ہو چکی ہے کہ الامان والحفیظ۔ اس سے کہیں زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ عمررسیدہ بوڑھے زنا میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ حالات و واقعات کی دنیا میں آئے روز ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
اسلامی شریعت میں اس گناہ سے معاشرے کو بچانے کے لیے سخت ترین سزا مقرر فرمائی گئی ۔ شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو اس کو رجم یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے اور اگر غیر شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرے تو اسے 100 ، 100 کوڑے مارے جائیں گے ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ جیسے زنا کی سزا بہت سخت ہے اسی طرح زنا کو ثابت کرنے کے لیے گواہوں کی گواہی کو پرکھنے کا طریقہ اور حکم بھی بہت سخت ہے ۔
دوسرا مبغوض بندہ: وہ بندہ جو فقیر اور تنگدست ہو پھر بھی تکبر کرے ۔ قرآن و سنت میں متکبر شخص کے بارے میں بہت سخت وعیدیں مذکور ہیں ۔تکبر کرنا ویسے ہی بہت بڑا گناہ ہے، لیکن ایک ایسا شخص جس کے پاس اسباب تکبر بھی نہیں ، وہ بھی تکبر کرے تو اللہ رب العزت کی نگاہ رحمت میں قابل نفرت بن جاتا ہے ۔
تکبر کسے کہتے ہیں؟
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَا نَ فِي قَلْبہِ مِثْقَالُ ذَرّۃٍ مِنْ کِبَرٍِِ قَالَ رَجُلٌ : إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبہُ حَسَنًا وَنَعْلہُ حَسَناً ، قَالَ : إِنَّ اللہ َ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ ۔ الکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ ، وَغَمْطُ النَّاسِ ۔ (صحیح مسلم،باب الکبر وبیانہ، حدیث نمبر 178(
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بندہ جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا ۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ بندہ اچھے کپڑے اور اچھے جوتے کو پسند کرتا ہے ۔ )کیا یہ بھی تکبر ہے ؟ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں، اللہ جمیل ہیں اور حسن وجمال کو پسند فرماتے ہیں ۔ تکبر یہ ہے کہ بندہ حق بات کو قبول نہ کرے اور لوگوں کو ذلیل سمجھے۔
حدیث مبارک کے پہلے حصے میں متکبر کی سزا کا تذکرہ ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور دوسرے حصے میں تکبر کی تعریف اور حقیقت بیان فرمائی گئی ہے ۔ عام طور پر تکبر علم ، حسب و نسب ، مال و دولت ، حسن و جمال پر کیا جاتا ہے جبکہ یہ ساری چیزیں اللہ رب العزت کی محض عطا ہیں ،اس پر انسان کو اترانا اور تکبر کرنا زیب ہی نہیں دیتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کا علاج یہ بتلایا ہے کہ بندہ سلام کرنے میں پہل کرے ۔
تیسرا مبغوض بندہ: وہ ہے جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ ظلم کرے۔ جو بندہ مال دار ہونے کے باوجود ظلم کرتا ہے، وہ اللہ کے ہاں قابل نفرت ہے ۔ کیونکہ مال کا مل جانا محض اللہ کی عطا سے ہے، اس کی وجہ سے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی پر ظلم کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے ۔ محدثین کرام رحمہم اللہ نے الغنی الظلوم کی تشریح میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو دولت مند ہونے کے باوجود بھی قرض خواہوں کو قرض کی ادائیگی نہ کرے یہ بھی ظلم ہے ۔
اللہ کریم ہمیں اپنے محبوب بندوں میں شامل فرمائےاور مبغوض ہونے سے بچائے ۔آمین بجاہ محبوب رب عالمین صلی اللہ علیہ وآلہ سلم
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں