محمد یاسین جہازی
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِي مَا أَتَی عَلَی بني إسرائیل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّی إِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ أَتَی أُمّہُ عَلاَنِیَۃً لَکَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ، وَإِنَّ بني إسرائیل تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، کُلُّھُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّۃً وَاحِدَۃً، قَالُوا: وَمَنْ ھِيَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیہِ وَأَصْحَابِي۔(سنن الترمذی،ابواب الایمان، باب ماجاء فیمن یموت، وھو یشھد ان لا الٰہ الا اللہ)
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری امت بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلے گی، یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل کے کسی شخص نے اپنی ماں کے ساتھ کچھ غلط کیا ہوگا، تو میری امت میں بھی ایسا ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئی تھی، جب کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ سب جہنمی ہوں گے، سوائے ایک فرقہ کے ، اور یہ وہ فرقہ ہوگا، جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلیں گے۔
امت مسلمہ کی حالیہ فکری و عملی صورت حال کا تجزیہ بتلاتا ہے کہ سرکار دوجہاں ﷺ کی یہ پیش قیاسی پورے طور پر عملی صورت اختیار کرچکی ہے۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، ہم ہر شعبہ میں یہودی ذہنیت سے متاثر اور اسرائیلی طرز عمل کو اختیار کرچکے ہیں۔
اس حدیث کے شارحین نے ایک عجیب نکتے کی بات لکھی ہے کہ اس روئے زمین پر جب سے انسان آباد ہوا ہے، اس وقت سے نبوت کے اختتام تک بہتر فی صد امتی ہیں اور ایک فیصد انبیاء و رسل بھیجے گئے ہیں۔ ہر نبی کی امتی میں سے بہتر فیصد نے ایمان کی دعوت قبول نہیں کی، صرف ایک فی صد ہی مسلمان ہوئی ہے۔ختم نبوت کے تاجدار حضرت محمد ﷺ کی دعوت کو بھی صرف تہترویں فیصد افراد نے قبول کیا ہے، بقیہ بہتر فیصد نے اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، ان میں سے بہتر فی صد عوام ہیں، جب کہ خواص اور علماء کی تعداد محض ایک فی صد ہے۔ اس تجزیہ کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہے ، تمام شعبہ ہائے حیات میں یہی تناسب ملے گا۔ فکرو عقیدے کے اعتبار سے تجزیہ کیجیے تو یہاں بھی یہی نظر آئے گا کہ بہتر حصے بد اعتقادی کے شکار ہیں، جب کہ ایک حصہ ہی صحیح الاعتقاد ہے۔ عملی رپورٹ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ عنوان کی مناسبت سے نماز کو ہی لے لیجیے، آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بہتر فی صد پنج وقتہ نمازوں سے کٹے ہوئے ہیں جب کہ ایک ہی فی صد سے مسجد کی رونق باقی ہے۔ اسی طرح ہفت واری نماز جمعہ کو لے لیجیے کہ اس میں بھی امت مسلمہ کا صرف ایک طبقہ شامل نماز ہوتا ہے، جب کہ بہتر فی صد جمعہ کی نماز کا بھی اہتمام نہیں کرتے۔
اس تجزیہ کو ایک دوسرے اینگل سے دیکھیے تو تہتر میں جو ایک طبقہ جمعہ کی نماز میں شامل ہوتاہے، اس میں سے بہتر کی نماز ہی صحیح نہیں ہوتی، صرف ایک فی صد کی نماز درست ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق کئی باتوں سے ہوتی ہے:
(۱) ہمارا نماز سے تعلق چوں کہ ہفت واری ہوتا ہے، اس لیے یہ نماز ہم دل سے نہیں، صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ کہیں تین جمعہ مسلسل چھوٹنے کے بعد ہم ایمان سے خارج نہ ہوجائے، تو نماز جمعہ کو اس کے حقیقی مقصد و نیت سے نہیں ادا کی جاتی ہے، علاوہ ازیں اگر ہم جمعہ کو واقعۃ ضروری سمجھ کر پڑھتے، تو اس سے زیادہ ضروری پنج وقتہ نمازیں ہیں، کیوں کہ وہ فرض ہیں اور جمعہ واجب ہے۔ جب فرض کا اہتمام نہیں کررہے ہیں، تو ہم کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ واجب کو صحیح نیت سے پڑھ رہے ہیں۔
(۲) فرائض کی تکمیل کے بغیر وہ چیز ادا ہی نہیں ہوگی۔ اور ہماری شریعت و احکام کی جانکاری کا عالم یہ ہے کہ ہمیں سنن و آداب تو دور ، فرائض کا صحیح علم نہیں ہے، تو بھلا بتائیے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وضو اور نماز میں جو کوتاہی ہوئی ہے، اس میں فرض نہیں چھوٹا ہے۔ اور اگر فرض چھوٹ گیا ہے ، تو بالیقین ہماری نماز نہیں ہوئی۔
(۳) عام حالات میں بھی اوربالخصوص نماز میں ستر عورت فرض ہے۔ عورت کے لیے دونوں ہتھیلی، چہرہ اور دونوں ٹخنوں کے علاوہ پورا بدن اور مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک ؛ یہ حصے ڈھانکے رکھنا بہرحال فرض ہے۔ اگر نماز میں مقدار فرض کا کوئی حصہ کھلا رہ گیا تو نماز بالکل نہیں ہوگی۔ ہماری بہنیں، بالخصوص وہ بہنیں، جو اسکول کالج یا آفس کی مجبوریوں کی وجہ سے باہر رہتی ہیں اور نما زکا بھی اہتمام کرتی ہیں، ان کو دیکھا گیا ہے کہ ایک تو عورت و مرد کی نماز میں جو فرق ہے، اس فرق کا لحاظ نہیں کرتیں وہ بھی بالعموم مردوں کی طرح ہی نماز پڑھتی ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ عام حالات میں سر کھلا رکھتی ہیں، لیکن نماز میں دوپٹے سے سرتو ڈھانک لیتی ہیں، لیکن ہاتھ کا فرض والا حصہ کھلا ہی رہ جاتا ہے، جس سے بالکل بھی نماز نہیں ہوتی۔
اسی طرح مرد کی بات کریں،تو آج کل کے نواجون لوور پہن کر آتے ہیں، اس میں ہوتا یہ ہے کہ جوں ہی رکوع یا سجدہ میں جاتے ہیں ، تو ان کا فرض والا حصہ کھل جاتا ہے اور پیچھے والے کو ان کی پوری ٹی وی دکھنے لگتی ہے، جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔
(۴) سجدے میں دونوں پیروں کی انگلیاں زمین سے ٹچ رہنا ضروری ہے۔ اگر بیک وقت دونوں زمین سے اٹھ گئیں،اور پورے سجدہ میں اٹھی ہی رہیں تونماز نہیں ہوگی۔اور یہ ایسی غلطی ہے، جو بالکل عام ہے۔
ایسی صورت حال میں ہمیں تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ ہم جو ہفتہ میں ایک ہی بار صحیح، صرف جمعہ کی نماز ہی پڑھتے ہیں ، تو کیا یہ ایک نماز بھی ہم مکمل فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر آپ فرائض پر مکمل دھیان دیتے ہیں ، تو آپ کواللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہونا چاہیے، اور اگر لوور پہن کر پڑھتے ہیں یا فرائض کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کرتے ہیں، تو پھر یہ محاسبہ کرنا ضروری ہے کہ ۔۔۔ میری نماز جمعہ ہوئی کیا۔۔۔ ؟!!!!۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں