شیخ امین عثمانی کی وفات پر تاثراتی تحریر
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
کورونا نے کتنی قیمتی شخصیات سے ہم کو محروم کر دیا ہے _ ایک کی تعزیت سے فارغ نہیں ہوتے کہ دوسرے کی وفات کی خبر بے چین کردیتی ہے _ دوپہر میں جب سے میرے مربّی ، محسن اور مشفق شیخ امین عثمانی ندوی کی وفات کی خبر ملی ہے ، دل و دماغ بالکل ماؤف ہیں ، طبیعت غم سے نڈھال ہے ، حواس مختل ہیں ، لیکن ہم صرف وہی بات اپنی زبان پر لائیں گے جس سے ہمیں اپنے رب کی رضا علاوہ علمی مذاکروں اور لیکچرس کی تعداد کا شمار نہیں _ امین صاحب متعینہ تاریخوں سے کئی روز قبل طے شدہ مقام پر اپنی ٹیم کے
ساتھ پہنچ جاتے اور پورا نظم و نسق سنبھال لیتے _ اکیڈمی کی اشاعتی سرگرمیاں شروع ہوئیں اور سیمیناروں میں پیش کیے گئے مقالات کتابی صورت میں شائع ہونے لگے تو انھوں نے اس کام میں بھی دل چسپی لی _ وہ اکیڈمی کی مطبوعات مختلف تعلیمی اداروں میں بھجوانے کی کوشش کرتے تھے اور علمی شخصیات کو تحفۃً بھی پیش کرتے تھے _ وہ اکیڈمی کے مفادات کے تحفظ کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے _ اکیڈمی نے کویت کی الموسوعۃ الفقہیۃ کا اردو ترجمہ کروایا ہے _ تقریباً 3 ماہ قبل پتہ چلا کہ پاکستان کا ایک اشاعتی ادارہ اسے بلا اجازت چھپواکر فروخت کررہا ہے _ امین صاحب پریشان ہوگئے _ مجھ سے کہا کہ میں اپنے پاکستانی احباب کی معرفت اس معاملے کی تحقیق کروں _ اکیڈمی کے معاملے میں امین صاحب کی حیثیت ‘بنیاد کے پتھر’ کی تھی _ وہ دیکھنے والوں کو نظر نہیں آتا ، لیکن عمارت کا استحکام اسی پر منحصر ہوتا ہے _ امین صاحب صلہ و ستائش سے بے پروا ، نام و نمود سے بہت فاصلہ رکھنے والے اور اسٹیج اور ڈائس سے دور بھاگنے والے تھے _ بڑے سمینار ہوں یا اکیڈمی کے دفتر میں منعقد ہونے والی مختصر علمی نشستیں ، انہیں میں نے کبھی اسٹیج پر نہیں دیکھا _ وہ پسِ پردہ رہ کر اور چھپ کر کام کرنے والے تھے _
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں