میم ضاد فضلی
میں نے اسی زمانے میں مسلمانوں کے دشمن ،آرایس ایس ،بی جے پی اوراسرائیل کے ترجمان اخبارروزنامہ انقلاب کے قلمی یا مالی تعاون کو حرام ہونے کا شرعی ثبوت علمائے امت کے سامنے رکھ دیا تھا ،جب مجھے معلوم ہواتھا کہ اس بدنام زمانہ اخبار کو وہ میڈیا ہاؤس خرید رہا ہے جو میڈیا کمپنیوں میں سنگھ کو سب سے زیادہ چندہ فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔میں بات کررہا ہوں جاگرن گروپ کی اور اس کے تحت شائع ہونے والے دیگر اخبارات یا ٹی وی چینلوں کی کہ اس کا تعاون کرنا شرعی اعتبار سے ہم اہل سنت والجماعت کے یہاں متفقہ طور پر حرام ہے ،اس لئے کہ نص قطعی کہتی ہے’’ وتعاونو اعلی البر والتقویٰ ولاتعا ونو ا علی الاثم والعدوان‘‘۔القرآن
یعنی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں مدد کرو اور بدی و نافرمانی کے کاموں میں مدد نہ کرو۔
اسی طرح حدیث صحیحہ کہتی ہے ’’الدال علی الخیر کفاعلہ‘‘۔(بخاری ،کتاب الادب)
یعنی خیر کی جانب رہنمائی کرنے والا خیر کرنے والے کی طرح ہی اجر کا مستحق ہوگا۔اس کے برعکس شر کی جانب رہنمائی کرنے والے یا شرکی ترغیب دلانے والے کو بھی گناہ کرنے والے کے برابر ہی اللہ کی پکڑاور اس کے عتاب سے گزرنا ہوگا۔مذکورہ بالا اصول کی بنیاد پر آلات رقص وسرود یا ہر وہ کام جس کے کرنے سے خلاق عالم نے اپنے بندوں کو روکاہے اس کو کرنے والا اور اس برائی میں کسی بھی نوعیت سے تعاون کرنے والا بھی برابر کا گنہ گار اور مجرم قرار دیا جائے گا۔یوں سمجھ لیجئے کہ ایک فلم دیکھنے والا جس میں خواتین کے برہنہ جسم دکھائے گئے ہوں،اورل سیکس کی منظر کشی اور ساز وآواز جیسے لوازم�ۂگناہ مناظر شامل ہوں اللہ کے نزدیک مجرم اور قابل مواخذہ گنہ گار ہے،اسی طرح اس فلم کی کامپیکٹ ڈسک یا اس فلم کی ڈی وی ڈی یعنی Digital Versatile Disc بیچنے والا بھی اللہ کے نزدیک مجرم ہے،گنہ گار ہے اور اس کی کمائی حرام ہے۔ اگرچہ وہ اپنی اس کمائی سے انتہائی عالی شان مسجد تعمیر کرادے ،ہر سال عمرہ اداکرنے چلاجائے اور حج پر حج کرتا رہے توبھی اس سے اس کا حرام عمل حلال نہیں ہو جا ئے گا۔البتہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ کا بڑا مولو ی گرم جوش مصافحے کیلئے مادی حیثیت دیکھ کر ہی ہاتھ بڑھاتا ہے وہ بالعموم اس معاملے میں حرام وحلا ل کا امتیاز نہیں رکھتا۔ ہمارا بڑا مولوی اس بات کو قطعی خاطر میں نہیں لاتا کہ وہ جس حاجی صاحب کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے اس کی پائی پائی حرام کی ہے، وہ ننگی فلموں کی کیسٹیں بیچتاہے جسے دیکھ کر معاشرہ کے ہزاروں لاکھوں افراد اللہ کے مجرم بن رہے ہیں اور اس کی گرفت کے مستوجب بنتے جارہے ہیں۔وہ حاجی صاحب سودی کاروبار کرتاہے ،چوری کی بجلی سے بڑے بڑے کارخانے چلاتا ہے،البتہ نمازوں میں بھی اگلی صف میں کھڑاملتاہے ۔کیا اس کی یہ نماز اس کے حرام کو حلال بناسکتی ہے ؟ کیا محض ڈھیر سارے صدقات خیرات مولوی کی مٹھی میں رکھ کر سود خور،بجلی چور حاجی صاحب اللہ کی پکڑ سے بچ جائے گا اور اس کے دسترخوان پر چنی گئیں انواع اقسام کی نعمتیں محض اس وجہ سے حلال ہوجائیں گی کہ ہمارا بڑا مولوی اس کے دسترخوان سے لذیذنعمتیں اٹھا اٹھا کر اپنی انتڑیوں کے حوالے کررہا ہے۔قارئین آپ بوجھل ہورہے ہوں گے کہ کیا کیا ہفوات بکی جارہی ہیں اور اس کا مقصد کیا ہے اورتحریر کی ابتدائی سطور سے ان ساری معروضات کا کیا تعلق ہے۔
اب ذراایک موٹی سی مثال کے ذریعہ میری معروضات کو سمجھئے۔تصور کیجئے کہ آپ اس فتنہ پرور اخبار کی یومیہ پچاس ہزارکاپیاں خرید رہے ہیں۔یعنی اپنی گاڑھی کمائی میں سے یومیہ ڈھائی لاکھ روپے ایک ایسے ادارہ کی جھولی میں ڈال رہے ہیں جو آپ کے قاتل کو آپ کی معصوم بہنوں ،بیٹیوں اور ماؤ ں کی آبرو لوٹنے والی طاقتوں کو بلم ،برچھی ،بھالے ،گنڈاسے اور ترشول خرید نے کیلئے یومیہ پانچ ہزار روپے دان کررہا ہے تو کیا آپ کو بھی ان قاتلوں اورعفت مآب بہنوں کی عصمت کے لٹیروں کا معاون نہیں کہا جائے گا؟
یہ بات محتاج وضاحت نہیں ہے کہ آر ایس ایس اپنے زمانۂ تشکیل 1925سے آج تک متواترصفحۂ ہستی سے مسلمانوں کاصفایا کردینے کے مشن پر گامزن ہے اورمسلمانوں کے درمیان فتنہ ڈالنے، ان کے آپس میں پھوٹ ڈالنے کا کو ئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔اس تنظیم کو اقوام متحدہ سمیت حقوق انسانی کی متعدد عالمی تنظیموں نے بھی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
چناں چہ13اکتوبر2017کے متعدد مغربی اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع کی گئی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ ’امریکی حکومت کی ویب سائٹ نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کو دہشت گرد تنظیموں کی عالمی فہرست میں شامل کردیا ہے ۔ اس ویب سائٹ کے مطابق سنگھ ایک ایسا گروپ ہے جو ہندوراشٹر قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے تربیتی کیمپوں میں ہندو نوجوانوں کو دہشت گردی اورہتھیار چلانے کی تربیت دیتا ہے۔
www.terrorism.com نے اپنی ویب سائٹ میں لکھا ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو بی جے پی کی نظریاتی بنیاد مانا جا تا ہے۔ اس ویب سائٹ کا امریکی تھنک ٹھینک بین الاقوامی اورعالمی دہشت گردی سے وابستہ گروہوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ مذکورہ ویب سائٹ نے آر ایس ایس کو ’’تھریٹ گروپ پروفائل‘‘ میں ڈال دیا ہے۔ اس سائٹ کو آبزور، آرنیڈ،آ یسائیڈ ایکٹ نام کی امریکی حکومت کی تنظیم چلاتی ہے۔خبروں میں کہا گیا تھا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ہندوستان کی انتہا پسند تنظیموں کی ماں ہے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں نے اسی کے بطن سے جنم لیا ہے۔ بی جے پی کے دور اقتدار میں پورے ہندوستان میں سنگھ پریوار کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا دائرہ کار کئی ممالک تک پھیل چکا ہے۔ مودی حکومت میں آر ایس ایس کی شاکھاؤں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ اورروز بروز ان کا دہشت گردی نیٹ ورک تمام ریاستوں میں پھیلتا جارہا ہے۔غور کیجئے کہ جس تنظیم کا مقصد قیام ہی مخصوص فکر کو قوت فراہم کرناہے اس کو تعاون کرنے والے اداروں اور میڈیا ہاؤسوں کی معتبریت کیا ہوگی۔کیا اس کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے یہ معاون ادارے سنگھ کے اشارے پر کام نہیں کریں گے؟کیا کٹھوعہ میں بکروال خاندان کی آٹھ سالہ معصوم بچی کا اغواکرکے دیواستھان میں کئی دنوں تک اس کی اجتماعی آبروریزی کرنے کے بعد انتہائی بے رحمانہ طریقے سے اس کا قتل کردینے والوں کے دفاع میں فریق بن کھڑاہونے والاجاگرن گروپ اور اس کے اخبارات صرف اس لئے قرآن کے صفحات کی طرح قبول کرلئے جائیں کہ اس میں مولانا ارشد مدنی کی خبریں چھپتی ہیں اور اسی اخبار کا بے غیرت ایڈیٹر اس لئے پوجاجائے کہ وہ قاتل اعظم بشار الاسدکا مسلکی رشتہ دار ہے۔کیا دنیا نہیں جانتی ہے کہ جاگرن گروپ کو ایسے ہی دومنہ کے سانپ کی ضرورت تھی جو ایک سمت آر ایس ایس کی سبحہ خوانی کرے اور دوسری طرف ملت کے شیرازہ کومنتشر کرکے یرقانی گیدڑوں کومسلمانوں کے لہوٹانک کی شکل میں پلاتا رہے۔کیا مسلمانوں کو اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ سنگھ کے بھکت جاگرن گروپ کے مالکان نے اس اخبارکی باگ ڈور اسی لئے تھامی ہے تاکہ اسرائیل کے اہداف کاتحفظ کیا جاسکے اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر پردہ ڈالنے میں ساری توانائی لگادی جائے۔کیاعام مسلمان اوربڑے بڑے مولانا اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ فرمان بھلابیٹھے ہیں کہ ’’الفتنۃ اشد من القتل‘‘ فتنہ انگیزی قتل سے بھی زیادہ قابل گرفت اور شدید نقصاندہ ہے۔پھر کیا ضرورت ہے کہ فتنہ کے اس سانپ کو دودھ پلایا جائے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ شریر فتنہ کسی بھی قیمت پر مسلمانوں کا وفادار نہیں ہوسکتا۔اسے بہر صورت وقتی عیاشیوں کیلئے صرف سنگھی آقاؤں کے تلوے چاٹنے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی آگ کو ہوادینا ہے۔میں نے آج ابن الوقتی اور مسلم دشمنی کاثبوت دینے والی بے غیرتی کے ساتھ پیش کی گئی شکیل شمسی کی تحریر دیکھی ہے جسے اس ننگ دین نے آج اپنے موضوع گفتگو نام کے روسیاہ کالم میں لکھاہے۔مجھے اس پر کوئی تعجب نہیں ہوا اس لئے کہ اس جاہ پرست صاحب قلم سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔ملت اسلامیہ ہند سوال پوچھنا چاہتی ہے مولانا متین الحق اسامہ قاسمی سے جنہوں نے گزشتہ چندماہ قبل لاکھوں روپے کے اشتہارات سے اس اخبار کو نواز کر سنگھ کو طاقت دی ہے۔سسکتی ہوئی ملت سوال پوچھنا چاہتی ہے مفتی محفوظ الرحمان عثمانی سے جو اپنی شہرت کیلئے امت کی دولت اس فتنہ کے توسط سے آرایس ایس کی جھولی میں دونوں ہاتھوں سے ڈال رہے ہیں۔ملت کو جواب چاہئے مولانا سید سلمان ندوی سے جنہوں نے سعودی عرب کیخلاف محاذ کھولنے کیلئے اسی اسلام دشمن اخبارکے صفحات خریدے اور لاکھوں روپے اس پرنثار کرکے سنگھ کے پالے ہوئے دومنہ والے اس سانپ کو توانائی بخشی ۔مظلوم مسلمانوں کو اس شعبدہ باز مولانا صاحب سے بھی جواب چاہئے جو اس مسلم دشمن فتنہ کے ایک فردکو خدائی نمائندہ کی طرح ہمیشہ خود سے چپکائے رہتے ہیں۔ملت کو جواب چاہئے ایک عدد مولانا ممبر پارلیمنٹ سے بھی جو اس اخبار میں صرف اپنے مضمون چھپوانے کیلئے ہمیشہ بے قرار نظر آتے ہیں۔اگر ہم سب مل کر اس اخبار کی کاپیاں اٹھانا بند کردیں اور اللہ کے حکم کی تابعداری کرتے ہوئے ’’ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان‘‘کے سبق کو یاد رکھیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ فتنہ اپنی موت آپ مرجائے گا۔مگر المیہ یہ ہے کہ عوام سے پہلے ملت کا مولوی اور اہل ثروت طبقہ مسلمانوں کے قاتلوں تک اپنے عطیات پہنچانے کیلئے اسی ناپاک فتنہ کو سہارا بنائے ہوئے ہے۔ (جاری)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں