مدثر اسلم
بے بسی اس کے عمر رسیدہ چہرے سے پسینے کی طرح ٹپک رہی تھی۔حالات کے دباؤ سے اس کی کمر جھک چکی تھی۔وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی، لیکن اس کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔اس کی نظریں کسی بے لگام گھوڑے کی طرح ادھر اُدھر پھر رہی تھی ۔شاید وہ کسی مُحسن کی تلاش میں تھی۔وہ چاہتی تھی کہ اپنی بے بسی کا قصہ سنائے، لیکن اُ س کی زبان اُس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ، لیکن اُ س کی آنکھیں اُس کے احوال کا پورا قصہ دیکھنے والے کو سنا رہی تھی۔پتہ ہے کیوں؟ اس لیے نہیں کہ اس کی بیٹی اس دنیا سے رخصت ہورہی تھی، بلکہ اس لیے کہ اُس نے اپنی بیٹی کواپنے گھر سے رخصت کرنا تھا اور اُس کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہ تھا، سوائے چند دعاؤں کے۔اُس کا خاوند بھی بُڑھاپے کو پہنچ چکا تھا اور اپنی بقیہ عمر کوئی بھی مشقت طلب کام کر کے روزی روٹی پوری کرنے کے قابل نہ تھا۔
بُڑھیا اور اس کے خاوند کو دوہری اذیت کا سامنا تھا۔ایک اذیت یہ کہ انہوں نے اپنی اُس بیٹی کو رخصت کرنا تھا، جو ان کا کل سرمایہ تھی اور دوسری یہ کہ اُن کے پاس اُسے دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔بس اب ایک ہی چارہ تھا یعنی قرض۔تو اس کے خاوند نے کسی خدا ترس انسان سے قرض لے لیا اور اس قرض کے بوجھ تلے دب گیا کہ جس کو چُکانے کے لیے شاید اس کی ساری عمر بھی کم پڑجاتی، لیکن اور کرتا بھی کیا؟ اُس کا مقابلہ اُن نمائشوں سے تھاجو امیروں نے بنا رکھی تھی۔زیادہ سے زیادہ سامان دینے کی نمائش۔۔۔۔اور وہ اپنی بیٹی کو باعزت گھر سے رُخصت کرنا چاہتا تھا۔وہ غریب تو تھا ہی مگر خوددار بھی تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کل کو کوئی شخص اس کی بیٹی کی رخصتی کے بارے میں زبان درازی کرے کہ یہ تو اپنی بیٹی کو کچھ نہ دے سکا ،تو بس بالآ خر زمانے کی بنائی ہوئی نمائشیں جیت گئی اور وہ بوڑھا ہار گیا۔
اُس نے اُدھار لی گئی رقم سے اپنی لاڈلی بیٹی کا جہیز بنوایا اور اسے رُخصت کیا۔اصطلاح میں جہیز سے مراد وہ سامان ہے جو والدین شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹی کو دیتے ہیں۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔یہ زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے نکاح کے موقع پر بہت معمولی سا سامان بطور جہیز دیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ لڑکی کا گھر بسانے کے لیے اسے ضروری سازوسامان دینا سنت کے عین مطابق ہے۔ مگر اس سلسلے میں حد سے تجاوز کرنا محض رسم پرستی اور فضول خرچی ہے۔معاشرے میں بااثر طبقے نے زیادہ سے زیادہ سامان دینے کی رسم رائج کر دی ہے۔اور اس رسم کی تقلید کرنے کی کوشش میں متوسط طبقہ اور خصوصا غریب و مفلس طبقہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ایک غریب شخص جو بمشکل اپنا گزر بسر کرتا ہے، وہ بھی اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ سامان دینے کی کوشش میں رہتا ہے۔
خواہ پھر اُسے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔وہ بس یہی سوچتا ہے کہ معاشرے میں اس کی ساکھ قائم رہے۔حالانکہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے اپنی بیٹی کو بہت سا جہیز اس لیے نہیں دیا تاکہ ان کی امت کا غریب سے غریب شخص بھی معمولی جہیز دینے کے باوجود اپنے آپ کو عزت دار سمجھے۔سامان دینے میں فضول خرچی کرنے کی اس رسم کانتیجہ یہ ہے کہ آج بہت سے غریب او ر باعزت گھرانے کی بیٹیاں شادی کی عمر تک پہنچنے کے باوجودشادی کرنے سے قاصر ہیں۔کیوں کہ ان کے والدین لڑکے والوں کی مرضی کے مطابق جہیز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
بوڑھی ہوئی غریب کی بیٹی شباب میں
غربت نے رنگ روپ نکھرنے نہیں دیا
گویا یہ ایک ایسی رسم ہے کہ جس نے بہت سی بیٹیوں اور بہنوں کی زندگیوں کو غارت کر دیا ہے۔اور والدین کا بھی یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ زیادہ سے زیادہ جہیز دیں گے تو اُن کی بیٹی کی سسرال میں عزت ہوگی اور وہ راج کرے گی ۔بصورت دیگر اسے سسرال والوں کے طعنے برداشت کرنا ہوں گے۔تو اس حوالے سے ضروری یہ بھی ہے کہ لڑکے والے بھی اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھیں اور زیادہ سامان لینے سے انکار کر دیں۔اس طرح ہی اس سوچ کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے ایک اور رسم بھی قابل مذمت ہے اور وہ یہ کہ لڑکی والے جب اپنی بیٹی کو سامان دیتے ہیں تو پورے محلے کی عورتوں کو یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ وہ اُن کے گھر آئیں اور سامان دیکھ لیں۔
تو محلے کی عورتیں سامان دیکھنے آتی ہیں اور لڑکی والے خوب داد وصول کرتے ہیں کہ واہ بھئی واہ تم تو اپنی بیٹی کو اس قدر خوبصورت اور اضافی سامان دے رہی ہو۔مگر افسوس کہ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ اُن میں وہ یتیم لڑکی بھی ہوتی ہے جس کے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہوتا اور وہ لڑکی بھی ہوتی ہے کہ جس کا باپ مزدور ہے اور بمشکل گھر چلا رہا ہے۔تو یقیننا اس لڑکی کے دل میں بھی یہ حسرت تو آتی ہوگی کہ کاش کہ میرا باپ بھی زندہ ہوتا یا کاش کہ میرے والدین بھی اس قابل ہوتے کہ وہ مجھے ایسا سامان دے پاتے۔یہ سوچ کر اسے جو دلی تکلیف ہوتی ہوگی اُسے میرے الفاظ بیان نہیں کر سکتے۔اسلام تو ایک ایسا مذہب ہے جو کہتا ہے کہ اپنے گھر میں پکے ہوئے گوشت کی خوشبو سے بھی اپنے ہمسایے کو تکلیف نہ دو اور اگر ہو سکے تو شوربا زیادہ بناؤ تاکہ ہمسائے کو بھی دے سکو۔وہ مذہب جو دوسروں کی تکلیف کا اس قدر خیال رکھتا ہے تو وہ کیسے اس طرح کی رسم کی اجازت دے سکتا ہے جس سے کسی دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہو۔
تو ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔خلاصئہ کلام کے طور پر یہ کہنا چاہوں گا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہیز دینے میں بے جا فضول خرچی کرنے کی رسم کا خاتمہ کیا جائے تاکہ ایک غریب سے غریب شخص بھی اپنی بیٹی کو باعزت طریقے سے بیاہ سکے۔اور ایک مختصر مگر جامع بات یہ ہے کہ امیر لوگ خواہ آسائش نہ چھوڑیں محض نمائش چھوڑ دیں تو معاشرے سے ایسی کئی دیگر رسومات کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا ہے کیوں کہ دیکھا دیکھی ہی یہ رسومات پروان چڑھتی ہیں۔
اور لڑکے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنا مئوثر کردار ادا کریں اور لڑکی والوں کو زیادہ سامان دینے کے لیے مجبور نہ کریں اور ان کی استطاعت کا خاص خیال رکھیں۔ایک دوسرے کی مجبوریوں کو سمجھنے اور غم بانٹنے کا نام ہی زندگی ہے۔خداہمارا حامی وناصر ہو۔آمین۔۔۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں