ترکی کی مصر کے ساتھ مشترک اقدار جلد مختلف پیش رفت کا سبب بن سکتی ہے: وزیردفاع
انقرہ: ترکی میں اپوزیشن جماعتوں کی دعوت پرکل ہفتے کے روز پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ترک حکومت کی جانب سے سعودی عرب کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ترک معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات اور نتائج پر بحث کی گئی۔کثیرالاشاعت ترک اخبار’جمہوریت‘ کی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ‘پیپلز ڈیموکریٹک’ کے مطالبے پر منعقد کیا گیا۔اخبار نے ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اوگلو کا ایک بیان بھی نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ حکومت سعودی عرب کے ساتھ دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ سعوی عرب کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا معاملہ نومبر 2020ء کونیامی میں ہونے والے اجلاس میں سعودی وزیر خارجہ کے ساتھ بھی زیر بحث آیا تھا۔ سعودی وزیر خارجہ سے ملاقات میں سعودی عرب میں ترک مصنوعات کے بائیکاٹ اور ترک کمپنیوں کے منصوبوں میں درپیش رکاوٹوں پر بھی بات چیت کی گئی تھی۔حزب اختلاف کی جماعت نے اجلاس میں ایک یاداشت پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چند ماہ سے جو صورت حال جاری ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ یاداشت میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے بائیکاٹ کے نتیجے میں دھاگہ اور غذائی مواد منگوانے والی کمپنیوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ دریں اثنا ترک وزیر دفاع حلوسی عکارنے کہا ہے کہ ان کا ملک اور مصر مشترک اقدار کے حامل ہیں اور یہ اقدار مختلف پیش رفتوں کا سبب بن سکتی ہیں۔ترکی کی سرکاری خبررساں ایجنسی اناطولو نے ہفتے کے روز وزیردفاع حلوسی عکارکا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انھوں نیکہا ہے کہ ’’ہماری مصر کے ساتھ بہت سی تاریخی اور ثقافتی اقدارمشترک ہیں۔جب انھیں بروئے کار لایا جائے گا تو ہمارے خیال میں آیندہ دنوں میں مختلف پیش رفتیں وقوع پذیر ہوں گی۔‘‘
واضح رہے کہ ترکی اور مصر کے درمیان 2013 میں الاخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے ملک کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمدمرسی کی حکومت کی معزولی کے بعد سے کشیدگی چلی آرہی ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جماعت انصاف اور ترقی پارٹی (آق) مصرکی کی قدیم مذہبی سیاسی جماعت الاخوان المسلمون کی اتحادی اور مددگارہے۔مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت نے الاخوان المسلمون کوصدر مرسی کی معزولی کے بعد دہشت گرد قراردے دیا تھا اور اس کی سرگرمیوں پر پابندی عاید کردی تھی۔مصری سکیورٹی فورسز نے الاخوان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا تھا۔ان مخالفانہ کارروائیوں کے بعد الاخوان المسلمون کے بہت سے لیڈر اور کارکنان ملک سے نقل مکانی کرکے ترکی چلے گئے تھے اور انھوں نے وہاں ایک طرح سے سیاسی پناہ لے رکھی ہے۔مصر اور ترکی کے درمیان آبی حدود اور آف شور قدرتی وسائل پر تنازعات کے علاوہ لیبیا میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ دونوں ملک لیبیا میں متحارب گروپوں کی حمایت کررہے ہیں۔مصر لیبیا کے مشرقی شہر بنغازی سے تعلق رکھنے والے جنرل خلیفہ حفتر اور ان کے زیر قیادت لیبی قومی فوج کی حمایت کررہا ہے جبکہ ترکی طرابلس میں قائم قومی اتحاد کی حکومت کا حامی ہے۔مصر نے گذشتہ ماہ 24 بلاکوں میں تیل اور قدرتی گیس کی تلاش اورانھیں نکالنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ان میں بعض بحر متوسط میں واقع ہیں۔
مصر اور ترکی گذشتہ برسوں کے دوران میں ایک دوسرے کے خلاف تندوتیز بیانات جاری کرتے رہے ہیں لیکن اب دونوں کے درمیان پائے جانے والے گرما گرم ماحول میں کمی واقع ہوچکی ہے اور ان کے لیڈروں نے مفاہمانہ بیانات دینا شروع کردیے ہیں۔تاہم ترک حکام کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان کوئی سیاسی بات چیت نہیں ہورہی ہے۔البتہ ان کے درمیان صرف اور صرف انٹیلی جنس وجوہ کی بنا پر روابط موجود ہیں۔ترک وزیر خارجہ مولود شاوش اوغلو نے گذشتہ بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’مصر اور ترکی کے درمیان بحرمتوسط کے مشرقی حصے میں ایک طویل ساحلی پٹی ہے۔اگر ہمارے تعلقات اور حالات اجازت دیں تو ہم مذاکرات کے ذریعے بحری حدبندی کا بھی سمجھوتا کرسکتے ہیں اور مصر کے ساتھ اس پر دست خط کرسکتے ہیں۔‘‘
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں