ہاں میں جہیز کی ستائی ہوئی بیٹی ہوں۔۔۔۔!

0
1216
All kind of website designing

نازش ہماقاسمی

جی!کبھی میں تِلک کے نام پر ماری گئی، جہیز کے نام پر آگ میں جھونکی گئی، ہندوانہ رسم ورواج کے نام پر مالی ہوس کی بھینٹ چڑھی،جہیز کے لیےساس، سسر، نند، شوہراور دیگر سسرالی رشتہ داروں کے دل شکن طعنوں سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور، مقہور، ستم رسیدہ،جورو وجفا کی ماری ، ظلم و برداشت کرنے والی، اذیت جھیلنے والی، طعنے سہنے والی، سکون واطمینان سے کوسوں دور، قوت وہمت اور صبر کے باندھ ٹوٹ جانے پر انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور، غریب ماں باپ کی لاڈلی بیٹی، والدین اور بھائیوں کی عزت وآبرو کے تحفظ کےلیے مسلسل اور پے درپے ستم سہنے والی،ستم زدہ، ناانصافی کی شکار، ایک دکھیارن حواکی بیٹی ہوں۔ ہاں میں جہیز کی شکار وہ بیٹی ہوں، جسے کبھی جہیز نہ لانے کی وجہ سے ظالمانہ طریقے سے آگ کے حوالے کردیاجاتا ہے، کبھی کھانے میں زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، کبھی ماں باپ کے بٹھا دیا جاتا ہے، کبھی ہاتھوں کی مہندی سوکھنے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے، کبھی دروازے پر آئی ہوئی بارات واپس کرادی جاتی ہے، کبھی بھری محفل میں شرفاء کے سامنے غریب والدین کی عزت تار تار کی جاتی ہے، کبھی سرعام رسوا کیاجاتا ہے، کبھی والدین کی عزت کو پامال کرکے انتقام لیاجاتا ہے، کبھی ساس کم جہیز لانے کے طعنے دیتی ہے، کبھی نندیں کمی بیشی کی شکایت کرتی ہیں، کبھی شوہر ماں بہن کی باتوں میں آکر غریب ماں باپ سے اورجہیز لے کر آنے کو مجبور کرتا ہے۔
ہاں! میں وہی جہیز کی بھیٹ چڑھنے والی بیٹی ہوں، جس کی آزمائش شادی کے پہلے دن سے ہی شروع ہوتی ہے اور اس کا خاتمہ موت پر ہوتا ہے، ہاں میں تمام مذہب میں جہیز کی شکار ہوں، ہندوئوں میں بھی’ دان دہیج‘ کے نام پر ستائی جاتی ہوں، مسلم سماج میں بھی تِلک اور جہیز کے نام سے تڑپائی اورپریشان کی جاتی ہوں، عیسائیوں میں بھی اسی جہیز کی خاطر ہراساں وپشیماںکی جاتی ہوں۔ اور اتنی ستائی ہوئی ہوں کہ جہیز کی’ پرتھا‘سے روز ازل سے مبتلائے غم ہوں۔ اسلام نے اس کے خلاف مؤثر تحریکیں چلائیں، مسلمانوں کو اس شرمناک ،ذلت آمیز اور ظالمانہ رواج سے روکا، مذہب اسلام میں بیٹیوں کے ساتھ ہمدردی و محبت کا حکم دیاگیا ہے، لیکن آج مسلمان اپنے مذہبی احکام کو پس پشت ڈال کر غیروں کا شیوہ اختیار کرکے جہیز جیسی قبیح رسم ورواج کے چکرمیں خاندانی نظام کو تباہ کربیٹھے ہیں۔
ہر گھر میں جہیز کے نام پر روزانہ سینکڑوںبیٹیاں مار دی جاتی ہیں، جہیز کے انتظام سے مجبور والدین کی بیٹیوں کے سر میں چاندی اتر آتی ہے، امیر ماں باپ تو دھوم دھام سے اپنی
 بیٹیوں کو رخصت کرکے اپنی عزیز از جان بیٹی کا گھر بسا دیتے ہیں، لیکن ہماری جیسی غریبوں کے مفلس والدین جنہیں ایک وقت کے کھانے کا بھی یارا نہیں ہوتا ، ان مشکلات کے باوجود اپنا گھر بار بیچ کر ہم قسمت کی ماریوں کو رخصت کرتے ہیں، جہیز کے نام پر وہ چیزیں بھی دیتے ہیں جو انہوں نے کبھی خود نہیں خریدی ہوتی ہے، والدین یہ سامان ہمیں اس لیے دیتے ہیں تاکہ ہم خوش رہیں، ہمیں ہماری ساس طعنے نہ دیں، ہماری نندیں جملے اور ہمارے شوہر پھبتیاں نہ کسیں، لیکن ہماری قسمت میں یہی لکھا ہوتا ہے اور ہم ظلم سہتے سہتےٹوٹ جاتے ہیں ،کبھی انتہائی قدم اُٹھالیتے ہیں، کبھی والدین کی دہلیز پر آکر موت تک ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں، کبھی سسرال میں ہی ٹھہر کر پوری زندگی اِن ظالموں کا مقابلہ کرتے ہیں اورپھر وہیں سے ہماری لاشیں نکلتی ہیں۔ ہاں میں وہی جہیز کی ستائی ہوئی اور اپنے شوہر کی بے رخی کی شکار دلہنوں میں سے ایک ہوں جو حالیہ دنوں خودکشی کرنے والی احمد آباد کے’ المینا پارک‘ کی رہائشی، ٹیلر لیاقت کی بیٹی، آئی سی آئی سی آئی بینک میں ملازمت کرنے والی، ایس وی کامرس کالج سے معاشیات میں ایم اے سال آخر کی طالبہ راجستھان کے عارف نامی درندہ صفت انسان کی بدنصیب بیوی ’عائشہ عارف خان‘ ہوں۔ میرے والدین نے بھی اپنی استطاعت کے بقدر جہیز اور دیگر تحائف دیے ،میرے شوہر نے جب پیسے کے لئے اپنی گندی زبان کھولی،تو والدین نے ادھر اُدھرسے انتظام کرکے اس کا منہ بھرنے کی ہر ممکن کوشش کی ، مگر وہ پھر بھی آسودہ نہ ہوا اور موٹی رقم کا مطالبہ کرتا رہا، وہ مجھ پر جہیز کےلیے ظلمڈھاتا رہا، مجھ سے شادی ہونے کے باوجود میرے ہی سامنے کسی غیر محرم عورت سے بات کرکے مجھے ناقابلِ برداشت روحانی اذیتیں دیتا رہا، میں اپنا زخم سلتی رہی، ظلم سہتی رہی کہ ایک نہ ایک دن اُس درندہ صفت سنگ دل کو اپنا بنالوں گی، لیکن ظلم وزیادتی کی انتہاء ہوتی گئی، ظلم سہتے اور طعنے سنتے سنتے میرے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا برداشت کی انتہا ہوگئی۔ اس بے رحم کا ظلم وستم دیکھئے ، اُس نے میری کوکھ میں پل رہے اپنی ہی اولاد کو مجھے چار دن تک بھوکا پیاسا رکھ کرمار ڈالا، جس سے میں دلبرداشتہ ہوکر ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئی، ظلم سہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور وہ حد میں پار کرچکی تھی ۔ سابر متی ندی کے کنارے لبوں پر حسیں تبسم سجا کر غموں کے امڈتے طوفان کو سمیٹ کر الوادعی ویڈیو بنائی ۔ جس میں مَیں نے اپنے پیار کا اظہار اخیر وقت تک کیا ،اس ویڈیو نے ہندوستان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے انصاف پسند ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور مجھے انصاف دینے کےلیےتحریکیں شروع ہوگئیں، تاکہ مجھے انصاف مل سکے ۔آج میرا ظالم شوہر سلاخوں کے پیچھے ہے، حالاں کہ میں نے ا پنے والدین کو منع کردیا تھا کہ کیس ختم کرلیجئے گا، خیر میں تو اب آپ کی دنیا میں نہیں ، لیکن ظلم کی شکار ہزاروں عائشائیں دنیا میں موجود ہیں، جو ہر روز کسی نہ کسی عارف کے مظالم سہنے پر مجبور ہیں، انہیں خدارا بچالیجئے، میرا معاملہ اب خدا کے حضور ہے، وہی مجھے جنت یاجہنم میں بھیجنے کا مالک ہے، آپ میرے لیے دعا کرسکتے ہیں ،وہ ارحم الراحمین ہے ،اس کی صفت’ ِ العزیز الجبار‘ پر صفت ’رحمٰن ‘غالب ہے، مجھے امید ہے کہ وہ میری بخشش فرما دے گا ۔ خدارا! آپ مجھے جہنم میں نہ بھیجیں،بلکہ جو جہنم نما زندگی گزارنے پر مجبور عائشیائیں ہیں، انہیں جنت نما زندگی فراہم کئے جانے کے اسباب پیدا کریں۔ جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے کوششیں تیز کردیں، مؤثر تحریک چلائیں، تاکہ پھر کوئی میری جیسی ظلم کی شکار اعلیٰ تعلیم یافتہ عائشہ اپنا انجام بد کے مجبور نہ کی جایے، بلکہ والدین کا فخر بن کر، سسرال میں عزت وعافیت کی زندگی گزار کر اپنے شوہر کی وفادار رہ کر دین اسلام کی خدمت کےساتھ ساتھ بہترین گھر گرہستی چلائے اور جہیز کی وجہ سے جو نظام درہم برہم ہے، وہ خوش گوار ہوجائے۔نصیر ترابی ؔ نے مجھ جیسے حالات سے مجبوربیٹیو کی کیا خوب ترجمانی کی ہے ،دنیا ہمیں بے وفانہیں کہے گی، بلکہ سماج کے معزز ٹھیکے داروں کو ’بے وفائی ‘ کا طوق پہنائے گی۔
عداوتیں  تھیں، تغافل  تھا، رنجشیں  تھیں    بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here