محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
شریعت اسلامی میں مقررہ عبادتوں کی ہیئتوں پر غور کیا جائے، تو تین طرح کی عبادتیں نظر آتی ہیں: (۱) بدنی عبادت، جیسے کہ نماز، ورزہ، ذکر تلاوت وغیرہ۔ (۲) مالی عبادت، جیسے کہ زکوٰۃ، صدقات، فطرہ وغیرہ۔ (۳) بدنی و مالی عبادت، جیسے کہ حج۔ حج ایک ایسی عبادت ہے، جس میں اپنا وجود بھی لگانا پڑتا ہے اور اس میں مال بھی خرچ ہوتا ہے۔ حج کے ستر ایام ہیں، جس کی شروعات یکم شوال سے ہوتی ہے اور دس ذی الحجہ کو تکمیل پذیر ہوتا ہے۔ حج سن ۹ ؍ ہجری میں فرض ہوا ہے۔ اس کے فرض ہونے کی پانچ شرطیں ہیں: (۱) مسلمان ہونا۔ (۲) عقل مند ہونا۔ (۳) بالغ ہونا۔ (۴) آزاد ہونا۔ (۵) استطاعت ہونا۔ مرد و عورت دونوں کے لیے استطاعت میں چار چیزیں شامل ہیں: (۱) اخراجات سفر کا ہونا۔ (۲) تندرست ہونا۔ (۳) راستہ مامون ہونا۔ (۴) جانا ممکن ہونا۔ اور صرف عورتوں کے لیے دو چیزیں اور استطاعت میں شامل ہیں: (۱) محرم ساتھ میں ہونا۔ (۲) حالت عدت میں نہ ہونا۔
حج کی فضیلتوں پر مشتمل احادیث کا خلاصہ کیا جائے، تو تقریبا آٹھ قسم کے فضائل سامنے آتے ہیں، جن میں :
(۱)سابقہ تمام گناہ یک بیک معاف ہوجاتے ہیں۔
(۲) حج زندگی کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔
(۳) حاجی کے تلبیہ میں دیگر مخلوق بھی ہم نوائی کرتی ہے۔
(۴) ایک حاجی کو چار سو لوگوں تک کی سفارش کا حق ملتا ہے۔
(۵) حج میں خرچ کرنے کا ثواب جہاد میں خرچ کرنے کے برابر ملتا ہے، یعنی ایک کا بدلہ سات سو ملتا ہے۔
(۶) حج کرنے والا کبھی غریب نہیں ہوسکتا۔
(۷) حج بوڑھے، کمزور اور عورتوں کے لیے جہاد ہے۔
(۸) حج و عمرہ کے لیے جاتے ہوئے راستے میں انتقال ہوجائے، تو بلاحساب جنت میں جائے گا۔
فضیلت نمبر(۱)
ابنشماسہ مَہری فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرو ابن العاصؓ بستر مرگ پر تھے، تو میں عیادت کے لیے حاضر ہوا۔میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کیا ہوا ہے اور زارو قطار رو رہے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر ان کے بیٹے نے پوچھا کہ ابا جان! آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے ایسی ایسی خوش خبری نہیں دی ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارا سب سے افضل عمل تو یہ ہے کہ ہم نے گواہی دی کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ پھر فرمایا کہ میری زندگی کے تین حصے ہیں۔
پہلا حصہ تو یہ ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سخت نفرت کرتا تھا اور میری دلی تمنا تھی کہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ مجھے مل جائیں، تو میں انھیں قتل کردوں۔ اگر ایسی حالت میں موت آجاتی، تو بالیقین میں جہنمی ہوتا۔
دوسرا حصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عظمت اور محبت کو میرے دل میں ڈال دیا۔ تومیں کاشانہ نبوی ﷺ پر حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھایا، لیکن میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ یہ دیکھ کر سرکار کائنات ﷺ نے فرمایا کہ عمرو کیا ہوا؟ تو میں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ نبی امی فداہ امی و ابی نے فرمایا کہ کیا شرط رکھنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا کہ میرے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، تبھی میں اسلام قبول کروں گا۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
اما علمت یا عمرو! ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ، و ان الھجرۃ تھدم ماکان قبلھا، و ان الحج یھدم ماکان قبلہ۔ (شرح السنۃ،کتاب الایمان،باب من مات ولایشرک باللہ شیئا)
ائے عمرو کیا تمھیں پتہ نہیں ہے کہ اسلام پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، ہجرت بھی سابقہ تمام گناہ معاف کردیتی ہے اور حج سے بھی سابقہ تمام گناہ ختم کردیے جاتے ہیں۔
چنانچہ میں نے اسلام قبول کرلیا۔ جس وقت اسلام قبول کیا، تو میری نگاہ میں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی اور محبوب نہیں رہ گیا تھا۔ کلمہ پڑھتے ہی آپ ﷺ کی عظمت و جلال میرے وجود پر اس قدر چھا گیا کہ میرے اندر رسول اللہ ﷺ کو نگاہ بھر دیکھنے کی بھی سکت نہیں رہ گئی۔ اگر اس حالت میں مجھے موت آجاتی، تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔
میری زندگی کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد ہمارے اوپر کچھ ذمہ داریاں دی گئیں، جن کے ادا کرنے میں کوتاہیاں سرزد ہوئیں، اس لیے اب پتہ نہیں کہ میرا کیا ہوگا۔
پھر آپؓ نے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر مرجاؤں تو رونے والی اور آگ میرے جنازے کے ساتھ نہ ہو۔ اور دفن کے بعد میری قبر پر اتنی دیر ٹھہرنا، جتنی دیر میں ایک اونٹ کو ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کردیا جاتا ہے تاکہ تمھاری قربت سے مجھے انسیت ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ حج کرنے سے پچھلی زندگی کے سبھی گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
فضیلت نمبر (۲)
عن ابی ھریرۃؓ قال: سمعتُ رسول اللّٰہ ﷺ یقول: من حج للّٰہ، فلم یرفث، ولم یفسق، رجع کیوم ولدتہ امہ۔ (بخاری، کتاب الحج، باب فضل حج مبرور)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کا ارشاد سنا کہ جو شخص صرف اللہ کے لیے حج کرے، جس میں نہ توفحش گوئی کرے اور نہ ہیلڑائی جھگڑا،تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسے کہ وہ آج ہی پید اہوا ہو۔ جس طرح ایک دن کا بچہ کوئی گناہ نہیں کرسکتا، نہ ہاتھ سے ، نہ پیر سے اور نہ ہی جسم کے کسی دوسرے اعضا سے، اسی طرح حاجی کی زندگی معصومیت کا عکس بن جاتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ حج کو درج بالا تینوں شرطوں کے ساتھ کیا ہو۔ اس حدیث کی تشبیہ پر غور کریں، تو یہ پہلو سامنے آتے ہیں کہ
(۱) انسانی زندگی میں سب سے زیادہ مشکل کام زچگی کا عمل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج بھی تمام عبادتوں میں سب سے مشکل کام ہے۔
(۲) پیدائش کے وقت زچہ بچہ دونوں زندگی اور موت کے مرحلے سے گذرتے ہیں۔ اسی طرح حج کا بھی معاملہ ہے کہ کیا پتہ کہ بری، بحری اور فضائی سفر حادثہ سے مامون رہے گا یا نہیں، یا حج کو زندگی ملے گی یا نہیں، یعنی قبول ہوگا کہ نہیں۔
(۳) پیدائش کے بعد زچہ بچہ دونوں کی طرز زندگی بدل جاتی ہے۔ اسی طرح حج کے بعد ایک حاجی کی زندگی میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی، تبھی حج مقبول ہونے کی امید ہے۔
(۴) ایک دن کا بچہ اپنے کسی بھی عضو سے گناہ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ حاجی کی بھی شان یہی ہونی چاہیے کہ اسے گناہوں سے سخت نفرت ہوجائے۔
(۵) زچہ بچہ دونوں انتہائی نگہ داشت کے محتاج ہوتے ہیں۔ حاجی کو بھی اپنے حج کے تعلق سے قدم قدم پر محتاط اور ہر عمل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(۶) زچہ بچہ کی سلامتی کے بعد ساتویں دن عقیقہ کیا جاتا ہے۔ حج سے لوٹنے کے بعد مقبول حج کی تین علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ مہمان نواز بن جاتا ہے۔
یہ تمام اشارات شاہد ہیں کہ حج انسانی زندگی کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ اور نقطہ انقلاب ہے، جہاں سے حاجی کی زندگی کی ایک نئی شروعات ہوتی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو گناہوں کی کثافت سے پاک و صاف ہو اور اس کی رحمت و برکت سے دوسرے لوگ بھی بہرہ مند ہوں۔
فضیلت نمبر (۳)
جب ایک حاجی حج کے لیے تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں بائیں اینٹ پتھر درخت جو مخلوق بھی ہوتی ہے زمین کی آخری حد تک اس کے تلبیہ کی ہم نوائی کرتی ہے۔ حضرت سہل ابن سعدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
ما من مسلم یُلبی الا لبّٰی من عن یمینیہ او عن شمالہ من حجراو شجر او مدر، حتیّٰ تنقطع الارض من ھٰھنا و ھٰھنا۔ (سنن الترمذی، باب ما جاء فی فضل التلبیۃ)
فضیلت نمبر(۴)
حاجیوں کو اپنی قوم کے چار سو لوگوں کی سفارش کا حق مل جاتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ
الحاج یشفع فی اربع مءۃ من قومہ۔ (مصنف عبد الرزاق، ج؍۵، ص؍ ۷)
فضیلت نمبر(۵)
حج میں خرچ کرنے کااتنا ہی ثواب ہے ، جتنا کہ جہاد میں خرچ کرنے کا ثواب ہے، یعنی ایک کا بدلہ سات سو گنا ملتا ہے۔ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ
النفقۃ فی الحج، کالنفقۃ فی سبیل اللّٰہ بسبع مءۃ ضعف۔ (مسند احمد، حدیث بریدۃ الاسلمی)
اس سے معلوم ہوا کہ حج کے سفر میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اور اخراجات سے طبیعت پر گرانی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے کہ آدمی کے کریم ہونے کے آثار میں سے یہ ہے کہ اس کے سفر کا توشہ عمدہ ہو یا سفر میں خرچ کرنے سے طبیعت پر بوجھ محسوس نہ ہو۔
فضیلت نمبر(۶)
حدیث میں وعدہ ہے کہ جو شخص حج کر لے گا وہ شخص کبھی بھی غریب نہیں ہوسکتا، اس لیے جمع پونجی کو سفر حج میں خرچ کرنے سے اس لیے گریز نہ کرے کہ یہ ختم ہوجائے گا ہم غریب ہوجائیں گے، بلکہ اس سفر میں حصول ثواب کے لیے خرچ اور بڑھا دینا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ
عن جابر بن عبدا للہ یرفعہ: ما امعر حاج قط، فقیل لجابر: ما الامعار؟ قال: ما افتقر۔ (شعب الایمان للبیہقی، باب ما امعر حاج قط)
فضیلت نمبر(۷)
بوڑھوں ، کمزوروں اور عورتوں کا جہاد حج ہے۔ ان حضرات کو حج کرنے سے جہاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔
عن عائشۃؓ استاذنتُ النبی ﷺ فی الجھاد، فقال: جھادکن الحج۔ (بخاری، جہاد النساء)
فضیلت نمبر(۸)
حج کے لیے جارہا تھا کہ راستے میں ہی انتقال ہوگیا تو قیامت تک اس کے لیے حج کا اجر لکھا جائے گا۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ
من خرج حاجا فمات، کتب لہ اجر الحاج الیٰ یوم القیامۃ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، قطعۃ من المفقود)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حج کی سعادت سے نوازے ، آمین۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں