کیاسپریم کورٹ صدیوں پہلے کی ملکیت کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے؟

0
1111
All kind of website designing

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اشوک گنگولی کا اہم سوال

عبدالعزیز

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اشوک گنگولی نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر چشم کشا سوالات کئے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ”گزشتہ سنیچر کو اجودھیا کے تنازع پر جو فیصلہ ہوا ہے اس سے بہت سے شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے میں بیحد پریشان ہوں“۔ ”اقلیتوں نے نسلاً بعد نسلاً دیکھا ہے کہ وہاں مسجد تھی جو منہدم کردی گئی۔ اب فیصلے کے مطابق وہاں مندر بنا دیا جائے گا۔ اس سے میرے دماغ میں شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ دستور کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس فیصلے کو تسلیم کرنا میرے لئے مشکل ہے“۔ 72سالہجسٹس گنگولی نے یہ بات کہی۔ یہ وہی جسٹس اشوک گنگولی ہیں جنھوں نے 2-G اسپیکٹرم کیس کا فیصلہ کیا تھا جس پر این ڈی اے نے جشن منایا تھا۔ انھوں نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ ”سنیچر کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ یہ عبادت کرنے والوں کو یقین ہے کہ وہاں مسجد تھی، اسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ 1856/57ءکے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہاں مسجد نہیں تھی لیکن 1949ءسے تو کہا جاسکتا ہے کہ وہاں نماز پڑھی جاتی تھی، جس کا ثبوت ہے۔ جب ہمارے دستور کا نفاذ ہوا تو اس وقت وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ ایک جگہ جہاں نماز پڑھی جاتی ہے وہ مسجد کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ تو اقلیتی فرقہ کو اپنے مذہب کی آزادی کی مدافعت کا حق ہے۔ یہ ایک بنیادی حق ہے جس کی ضمانت دستور میں دی گئی ہے“۔ ”آج مسلمان کیا دیکھتے ہیں؟ وہاں ایک مسجد تھی جو بہت سالوں سے منہدم کردی گئی۔ اب عدالت اس جگہ مندر بنانے کی اجازت دے رہی ہے۔ اس کا یہ کہنا غلط ہے کہ اس جگہ کا تعلق رام للّا سے ہے۔ کیا سپریم کورٹ صدیوں پہلے کی ملکیت کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے“؟ ”کیا سپریم کورٹ یہ بھول جائے گا کہ اس مقام پر دستورِ ہند کے نفاذ سے بہت پہلے سے مسجد عرصہ¿ دراز سے قائم تھی “۔ جسٹس اشوک گنگولی نے کہا۔
انھوں نے مزید کہاکہ ”دستور کا یہ حق ہوتا ہے اور سپریم کورٹ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کا تحفظ کیا جائے۔ دستور سے پہلے وہاں کیا چیز تھی، اس کی حفاظت کی ذمہ داری نہ تو دستور کو حاصل ہے اور نہ سپریم کورٹ کو ، کیونکہ اس وقت ہندستان میں جمہوری نظام قائم نہیں تھا“۔ ”آج اگر ہم یہ فیصلہ کرنے لگیں کہ کہاں پہلے مسجد تھی، کہاں مندر تھا، کہاں بودھ مت کا پوجا گھر تھا، کہاں چرچ اور گرودوارہ تھا؟ تو بہت سے مندر اور مسجد کو زمین بوس کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ ہم لوگ دیومالائی افسانویت کی تلاش نہیں کرسکتے۔ رام کون ہے؟ کیا تاریخی حیثیت سے اس کا ثبوت ملتا ہے؟ یہ سب یقین اور عقیدے کا مسئلہ ہے، جس کے پیچھے پڑنا ہمارا کام نہیں ہے“۔ جسٹس گنگولی نے کہا۔ آگے وہ کہتے ہیں کہ ”سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ”اس وقت کی بات کو عقیدے کی بنیاد پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مسجد کے نیچے کوئی ڈھانچہ تھا مگر وہ مندر نہیں تھا اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی مندر گراکر وہاں مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن مسجد گراکر مندر بنایا جارہا ہے۔ 500 سال پہلے زمین کس نے خریدی تھی کوئی بتا سکتا ہے؟ ہم تاریخ کو جنم نہیں دے سکتے۔ کورٹ کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ اس کا تحفظ کرے جو چیز موجود ہے۔ اور ان کے حقوق کی حفاظت کرے جو اس وقت موجود ہے۔ تاریخ سازی کرنا عدالت کا کام نہیں ہے۔ پانچ سو سال پہلے کسی مقام پر کیا چیز تھی کورٹ یا عدالت ہر گز نہیں جان سکتی۔ کورٹ صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ وہاں مسجد تھی، یہ حقیقت ہے۔ یہ کوئی تاریخی حقیقت نہیں ہے بلکہ آج کی حقیقت ہے۔ جس کو ہر ایک نے اپنی آنکھوں سے منہدم کرتے ہوئے دیکھا ہے جس کو بحال کرنا چاہئے۔ اگر ان کو مسجد رکھنے کا حق نہیں ہے تو آپ حکومت کو کیوں یہ ہدایت دے رہے ہیں کہ حکومت ان کو پانچ ایکڑ زمین دے تاکہ وہ مسجد بنائیں۔ آخر کیوں؟اس کا مطلب تو یہ ہواکہ مسجد کا انہدام صحیح طور پر نہیں ہوا“۔ جسٹس گنگولی نے کہا کہ ”کیا یہ صحیح فیصلہ ہے جو کیا گیا ہے“۔ جسٹس اشوک گنگولی نے کہاکہ ان میں سے دونوں میں سے کوئی ایک چیز کی ہی ہدایت دی جاسکتی ہے۔ یا تو یہاں ایک مسجد بنا دی جائے جہاں مسجد گرائی تھی۔ اگر وہ جگہ متنازعہ ہے تومیری ہدایت ہوگی کہ وہاں نہ مسجد بنائی جائے اور نہ مندر کی تعمیر کی جائے۔ آپ وہاں اسپتال، کالج، اسکول یا کوئی بھی فلاحی ادارہ بناسکتے ہیں۔ اور مسجد یا مندر بنانا ہے تو کسی دوسری جگہ پر بناسکتے ہیں۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے دعوے پر اسے ہندوو¿ں کو نہیں دے سکتے۔ وہ مسجد کو یا کسی چیز کو بھی جس کو وہ ناپسند کرتے ہیں کسی وقت بھی اسے مسمار کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حکومت سے ان کو مدد مل رہی ہے۔ بدقسمتی سے اب عدلیہ بھی ان کی حمایت اور مدد کر رہی ہے۔ یہی چیز مجھے ڈسٹرب کر رہی ہے“۔ ”بہت سے لوگ صاف طریقے سے میری ان باتوں کو بیان نہیں کرسکتے“۔ جسٹس گنگولی نے فرمایا۔
تبصرہ: جسٹس اشوک گنگولی کا یہ بیان آج (10 نومبر) انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں صفحہ اول پر شائع ہوا۔ جسٹس گنگولی مغربی بنگال میں حقوق انسانی کمیشن کے چیئرمین تھے۔ FDC (فورم برائے جمہوریت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی مغربی بنگال) کے صدر ہیں۔ اور ’جمہوریت بچاو¿‘ جیسے ادارے کے بھی چیئرمین ہیں۔ سپریم کورٹ نے کئی معاملات اور مقدمات کا تاریخی فیصلہ کیا ہے جس کیلئے وہ جانے جاتے ہیں۔ ان کا یہ بیان ٹی وی چینلوں پر بھی آیا ہے۔ اسی طرح کا بیان بمبئی ہائی کورٹ کے ایک سابق جج کا بھی آیا ہے۔ ریٹائرڈ ججوں اور ماہرین قانون کے اگر اس طرح کے بیانات آتے ہیں تو ان کے بیانات پہ غور و خوض کرنا چاہئے۔ کیونکہ قانون کی ان کو واقفیت ہوتی ہے۔ گنگولی صاحب نے جو سوالات کئے ہیں پانچ ججوں کی بنچ جس نے فیصلہ کیا ہے ان کے سوالات کی روشنی میں دیکھا جائے تو پورے طور پر معلوم ہوگا کہ اس فیصلے میں کوئی وزن نہیں ہے۔ انھوںنے سوال اٹھایا ہے کہ جب ہندستان کا دستور نہیں تھا اور یہاں جمہوری نظام قائم نہیں تھا تو اس سے پہلے یعنی دستور اور نظام کے قیام سے پہلے کی چیزوںکی حفاظت کی ذمہ داری نہ دستور پہ ہوتی ہے نہ عدلیہ پر۔ سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں نے پانچ سو سال کے پہلے کے مندر کی حفاظت کی ذمہ داری عدلیہ اور دستور کے کاندھے پہ ڈالی ہے جو سراسر غلط ہے۔ اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب موجودہ ججوں کے پاس نہیں ہے۔ مثلاً مندر توڑا گیا یا نہیں اسے کسی نے نہیں دیکھا نہ تاریخ کے صفحات میں درج ہے لیکن مسجد گراتے ہوئے سب نے دیکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عدلیہ جس چیز کو گراتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا اس کی حفاظت کر رہی ہے اور اس کو بنانے کی ذمہ داری حکومت کو دے رہی ہے اور جو چیز موجود تھی جس کو دنیا کی آنکھوں کے سامنے گرایا گیا اس کی حفاظت سے عدلیہ راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔ اور غیر دستوری اور غیر قانونی طور پر ایک فیصلہ صادر کر رہی ہے، جس سے صرف وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہوگی جنھوں نے دن دہاڑے مسجد منہدم کی ہے۔ کیا یہی عدل و انصاف ہے؟ اس طرح کے بہت سے سوالات جسٹس گنگولی نے اٹھائے ہیں۔
میرے خیال سے جسٹس اشوک گنگولی کے ان سوالات کو مسلم پرسنل لاءبورڈ جو فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دینا چاہتا ہے اسے شامل کرے۔ اور ایسے بہت سے سوالات ہوں گے جو مشہور وکیل راجیو دھون جنھوں نے بابری مسجد کے مقدمے کو دلیری کے ساتھ لڑاہے ان کے پاس بھی ایسے بہت سے سوالات ہوں گے۔
E-mail:[email protected]                                        

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here