’’علامہ حمیدالدین فراہی :علمی وفکری میراث ‘‘کے موضوع پردو روزہ بین الاقوامی سیمیناراختتام پذیر
اعظم گڑھ، 25 مارچ : ’’علامہ حمید الدین فراہی علمی وفکری میراث ‘‘پر منعقدہ دوروزہ بین اقوامی سمینار کے چوتھے اورآخری تکنیکی سیشن کاآغاز شاہ نواز فیض کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ڈاکٹر عنایت اللہ اسدسبحانی اور مولانا عمر اسلم اصلاحی نے مشترکہ طورپر تقریب کے مذکورہ مرحلہ کی صدارت کی اور نظامت کے فرائض ابوسعد نے انجام دیے۔اہم مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ڈاکٹر شاہنوازفیاض (دہلی) فضل الرحمن، ڈاکٹرمحمد ارشد اعظمی، محمود غازی، ڈاکٹر قمر اقبال (لکھنؤ) نے اپنے تحقیقی مقالہ میں کہا کہ ارسطو کی شاعری تصویر کی تصویرہے، انہوں نے مزید بتایا کہ ارسطو کے مطابق فطری نقالی کا نام ہے۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے الامام حمید الدین فراہی کی کتاب فی ملکوت اللہ پراپنا تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اس کتاب خلافت وملوکیت پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔ یہ کتاب اگرچہ تشنہ تکمیل ہے ،تاہم انتہائی اہم مباحث پیش کئے گئے ہیں اور علم قران کی شکل میں اس کا بھرپور مطالعہ کیاجانا چاہئے ۔
سیشن کے دوران علامہ فراہی کی شادی کے موقع پر ان کے استاذ مولانا مہندی چتاروی نے جو سہرا لکھا تھا اس کو ڈاکٹرشفیع الزماں نے پیش کیا جو پہلی بار سمینار کے ذریعے علمی دنیا کے سامنے آیا جس کی لوگوں نے خوب سراہا۔ اختتامی تقریب کے موقع پر ڈاکٹر سکندر اصلاحی، ڈاکٹرقمر اقبال، ڈاکٹررضی الاسلام ندوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ مولانا فراہی کی تحقیقات سے حاصل کردہ نتائج کا ہی حصہ ہے۔ ڈاکٹر علاء الدین خان نے اپنے الفاظ میں شبلی کالج کے منیجر شاہ عالم (گڈو جمالی) کے پیغام کو پڑھ کرشرکاء سمینارکو پڑھ کر سنایا ۔ پروفیسر الطاف احمد اعظمی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مودودیؒ اگر جماعت اسلامی نہ بناتے تو وہ مذہب اسلام کے بہت بڑے متکلم ہوتے۔ڈاکٹر عنایت اللہ اسد سبحانی نے کہا کہ مولانا مودودیؒ کا مولانا فراہی سے کوئی تقابل یا تنازع نہیں ہے ،جو لوگ یہ کہتے ہیں انہیں حقیقت کا علم نہیں ہے۔ آخر میں اپنے صدارتی خطاب میںاختتامی اختتامی تقریب کے صدر ڈاکٹر شباب الدین نے کہا کہ مولانا فراہیؒ بنیادی طور پر شاعرو ادیب تھے اور فطری طور پر خدا نے ان کو ایسا ذہن دیاتھا کہ وہ بچپن سے ہی غورو فکر کرتے تھے انہوں نے مزید کہا کہ ابھی ’’فکر فراہی ‘‘ پرمکمل طور سے کام نہیں کیا گیاہے۔اس شعبہ میں وسیع پیمانہ پر کام کرنے کی ضرورت ہے ،انہوں نے کے ملک کے اولین وزیر تعلیم مولاناابوالکلام آزادؒ امام فراہی مرحوم کے بارے میں کہاہے کہ میں نے علامہ حمید الدین فراہی ؒ سے ملاقات کی ہے، لیکن میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ ان کا علم اعلی تھایاان کا زہد وتقویٰ اورخلوص وللہیت زیادہ تھا۔ سیمینار آخری اجلاس میں ڈاکٹر محی الدین آزاد اصلاحی نے خود اپنی اور شبلی نیشنل کالج اور اسکے تمام اسٹاف وذہ دار ان کی جانب سے اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے شرکاء کیلئے توصیفی کلمات بیان کئے اور کہاکہ ہم آپ حضرات کے شایان شان مہمان نوازی نہیں کرسکے تاہم کالج اور انتظامیہ کی جانب سے پوری کوشش رہی ہے کہ آپ حضرات کو کسی قسم کی تکلیف کا احساس نہ ہو تاہم اگر کہیں کوئی کمی رہ گئی ہوتو ہم معذرت خواہ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے اعلیٰ ظرف مہمانان کرام ہمیں معاف کردیں گے۔انہوں نے علامہ حمید الدین فراہی پر سمینار کے اس سلسلہ کو آئندہ بھی جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ اس موقع پر سمینار کے میڈیا انچارج ڈاکٹر شفیع الزماں اور ڈاکٹر شباب الدین، ڈاکٹروصی الدین ایڈوکیٹ، محمد نعمان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، محمد اسلم، فیروز طلعت، ڈاکٹر شوکت علی، ڈاکٹرقمر اقبال، ڈاکٹر جاوید علی عبدالمعبود، مولانا طاہر مدنی، ڈاکٹر محمد ارشد اعظمی، ڈاکٹر خالد شمیم، ڈاکٹر افضال احمد، ڈاکٹر مکرم علی، محمد رافع، ڈاکٹر انیس احمد خاں، ڈاکٹر عبد الحنان، مرزا وسیم باری بیگ ، ڈاکٹر عرفات جعفر، عدنان احمد زریاب شفیع، مرزا اسد بیگ (منا) وغیرہ اور شہر کی معزز وعلمی شخصیات موجود رہیں۔ اختتامی سیشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر زبیرخاور صدیقی نے انجام دیے۔قابل ذکر ہے ملک ایک عالم گیر شخصیت علم و فن کے دانائے راز علامہ حمید الدین فراہی کی زندگی اور علمی فکرو تدبر پر مربوط اس بین الاقوامی سمینار کا انعقاد قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے عمل میں آیا ،جس کی تاریخی کامیابی پر سمینار کے کلیدی محرک ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی کی کوششوں کو ہر ذی علم شرکاء نے دادو تحسین سے نوازا۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں