اپنی شرط پر جینا ضروری ہے۔۔۔

0
1522
ڈاکٹر زین شمسی کے ساتھ معروف صحافی ڈاکٹر عزیز برنی
All kind of website designing

 صحافت کا میدان آج بھی عزیز برنی جیسے بے باک صحافی سے خالی

ڈاکٹر زین شمسی کی عزیز برنی سے ملاقات اور سرگزشت

 صحافت کا میدان آج بھی عزیز برنی جیسے بے باک صحافی سے خالی ہے اور ضرورت ہے کہ اس خلا کو کو کوئی پر  کردے تاکہ اردو صحافت یتیمی احساس کمتری اور  لاچاری سے نکل کر ایک نئی زندگی پاسکے ۔

افراد ہیں تو وسائل نہیں وسائل ہیں پلیٹ فارم نہیں۔ ان نا امیدیوں کے درمیان ایک چہرہ نظر آتا ہے جن کی شخصیت خوداری غیرت بے باکی حوصلہ ہمت عزم ایمانداری سے مزین ہے اور جو میدان صحافت کے بہترین شہسوار ہیں ان ہی کی قیادصحافت کو ایک نئی زندگی مل سکتی جنہیں لوگ زین شمسی کے نام سے جانتے ہیں۔

عزیز برنی صاحب کی بے باک صحافت کا ان پر گہرا چھاپ ملتا ہے۔ زین صاحب کی اپنے صحافت کے استاد عزیز برنی صاحب سے ایک مختصر ملاقات کی ایک مختصر اورخوبصورت تحریر خود زین صاحب کی زبانی۔ ایک عرصہ کے بعد عزیز برنی صاحب کی کوٹھی  کے سامنے تھا۔ 6گاڑیاں کھڑی تھیں اور تین گارڈس موجود تھے۔گارڈ کو اپنا نام بتایا، اس نے انٹرکام پر بات کرنے کے بعد ہمیں داخلہ دے دیا۔ پہلی منزل پر بیشمار کتابوں اور ان گنت تصویروں سے مزین ڈرائنگ روم میں وہ پروقار انداز میں منتظر تھے۔ 

السلام علیکم

آئو شمسی ! انہوں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

 بڑھتی عمر  کے حصار میں ہیں ، مگر صحت مند بھی اور چاق و چوبند بھی۔ لہجہ میں وہی طمطراق ، انداز بیاں  منفرد، فکری سطح پر مضبوط اور سیاسی و سماجی سروکار میں پہلے ہی کی طرح اپ ڈیٹ۔

کیا کر رہے ہو آج کل، مسکراتے ہوئے پوچھا

وہی جو آپ نے سکھایا؟ مگر ویسا نہیں کر پا رہا ہوں جیسا آپ نے کر دکھایا۔ وہ پیمانہ جو آپ نے طے کیا وہاں تک  پہنچنا ہی مشکل ہے ، کبھی کبھی لگتا ہے کہ آپ نے اچھا نہیں کیا، عزیز برنی بنو، تبھی صحافت کا حق ادا کر سکتے ہو ، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ 

انہوں نےغور سے سنا، اور ایک ایسی بات کہی ، جس کی توقع شاید ان سے نہیں تھی۔

عزیز برنی کو وسائل ملے تھے ، سہولت ملی تھی اور اختیارات بھی ملےتھے، تم بھی ٹیلنٹیڈ ہو ، لیکن تمہیں وسائل نہیں مل سکے ، سہولتیں مہیا نہیں ہو سکیں ، اس لیے تم وہ نہیں کر پا رہے ہو جو کرنا چاہتے ہو۔

کم از کم میرے لیے ان کی یہ باتیںنادر  تحفہ سے کم نہیںتھے۔

آپ کوازسر نو صحافت کی دنیا میں واپس آ جانا چاہیے ، سر! میدان پہلے سے بھی زیادہ خالی ہے۔ پہلے اخبارات کی کمی تھی ، اب صحافیوں کا فقدان ہے۔ جھوٹی خبریں ، ذاتی خبریں ، یکطرفہ خبریں، شخصی خبریں ، بغض سے بھری خبریں، شبیہ خراب کرنے والی پروپگنڈہ سے پُرخبریں ، مسلکی تنازع پھیلانے والی خبریں، قورمہ زدہ  خبریں ،  اب خبرخبر نہیں رہی سر!قبر ہو گئی۔ کیسے بچے گی صحافت۔ آجایئے۔

اب مشکل ہے ، انہوں نے مجھے روکا۔ ایک اخبار کھڑا کیا ، اسے آپ لوگ نہیں بچا سکے۔ کئی لوگوں کو سہارا دیا، جو کسی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے اور خود ساختہ بڑے صحافی کی سند لے کر اترا رہے ہیں۔ دراصل اردو کا سماج آج بھی صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں لے پا رہا ہے۔ میں نے بھی اخبار نکالا تھا ، میں جانتا تھا کہ یہ چل نہیں پائے گا ، اسی لیے اپنے پہلے اداریہ میں ہی لکھ دیا تھا کہ یہ اخبار زیادہ سے زیادہ دس دنوں تک چلے گا ، اس کے بعد اردو کا سماج چاہے گا تو چلے گا ورنہ بند ہو جائے گا۔ اخبارات وسائل مانگتے ہیں۔ پیسہ چاہیے اسے۔ پیسہ کون دے گا، کیا میں اپنا اثاثہ بیچ دوں قوم کے درمیان ایک اچھا اور صحت مند اخبار لانے کے لیے۔ میں کر سکتا ہوں ،لیکن اس کا ریٹرن کیا ہوگا۔ اپنے یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو اچھا اخبار نکال سکتے ہیں ، لیکن دیکھنا، یہ کام بھی امبانی اور اڈانی ہی کریں گے۔

گویا ہمیں تعصب پسند ، مفاد پرست اور ملی و سماجی ہم آہنگی کو توڑنے والے اخبارات کے ساتھ ہی جینا ہوگا؟

 ڈیجیٹل کی دنیا آگئی ہے، ضروری نہیں ہے کہ آپ اخبار ہی نکالیں۔ نیٹ پر آجائیں۔ اپنی بات رکھیں۔ ویب پورٹل ، آن لائن اخبار کی رِچ پرنٹیڈ اخبار سے آگے نکل چکی ہے۔ دیکھو اخبار کتنا چھاپ سکتے ہو۔ زیادہ سے زیادہ دو ہزار، مگر آن لائن تمہیں دو لاکھ آدمی جان پائیں گے۔ اب اخبار کی دنیا محدود ہو گئی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ زمانہ کے ساتھ چلو۔

بہت ساری باتیں ہوئیں ، انہیں اس بات کی تکلیف تو ضرور ہے کہ راشٹریہ سہارا کے ذریعہ جو تحریک انہوں نے چلائی اگر انہیں مزیدموقعہ ملتا تو شاید قوم کو نئی سمت عطا ہو گئی ہوتی ، لیکن شاید اللہ کو ان سے اتنا ہی کام لینا تھا۔

نئے جنریشن سے وہ مطمئن ضرور ہیں ، لیکن ان کی جلد بازی اور بغیر غور وفکر کے آگے بڑھنے کی آرزو سے وہ ڈرے ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا ، یہی ، اسی جگہ جہاں تم بیٹھے ہو ، ہندوستان کے بڑے بڑے سیاستداں ، علما اور دانشوران بیٹھ چکے ہیں۔ میں کبھی کسی کے گھر پر نہیں گیا ، اسی لیے سب میرے گھر آئے۔ آپ صحافی ہیں ، سب سے پہلے اپنی قدر کرنا سیکھئے ، تب ہی دوسرے آپ کی قدر کریں گے۔عزیز برنی  اپنی شرط پر جینے والا صحافی رہا ہے  ، آج بھی اپنی شرط پر جی رہا ہے۔

ان سے ملاقات ضروری ہے ، یوں ہی ، جب آپ کبھی نوئیڈا کی طرف ہوں تو چلے جایئے ، ان سے گفتگو رائیگاں نہیں جاتی ، بہت ساری چیزوں کی پرتیں کھلتی ہیں ، بہت ساری باتیں جو وہ آپ سے کریں گے ، شاید آپ کو لگے گا کہ یہ ممکن نہیں ہے ، لیکن بہت کچھ ممکن نہیں ہوتا اگر لوگ ناممکنات میں جیتے

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here