*ہندوستان/اسرائیل کی بڑھتی دوستی کا سبب وہی بدو عرب ہیں، جن کے بارے میں قرآن کہتاہے، _الاعراب اشد کُفرا و نفاقا و اجدر الا یعلموا حدود ما انزل الله علی رسوله_*
*جاننے والے جانتے ہیں کہ:*
کانگریس کے بال و پر آر ایس ایس کی سرپرستی میں نکلے ہیں اور کانگریس نے اس کو کبھی نظر انداز نہیں کیا، البتہ اس کی فتنہ انگیزیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے، ہندوستانی مسلمانوں پر دہشت گردی کا عفریت مسلط کرنے کا کام اسی نے کیا، بلا وجہ، بلا جرم نوجوانوں کو اچک کر جیلوں میں ٹھونسنے کی طرح اسی نے ڈالی، پچاسو ہزار نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا اور صرف آشرواد لیتی رہی، اس کے بدلے آشواسن دیتی رہی، مظلوموں کے انکاؤنٹر کا سلسلہ بھی اسی کی ایجادات میں شمار ہوتا ہے، *اور سب چھوڑ دیجیے ،مودی کا اسرائیل دورہ اور اب نتین یاہو کا ہندوستانی دور لوگوں کے لیے بڑے کرب و تعجب کا باعث ہے مگر ہمارے لیے بالکل نہیں،جانتے ہیں کیوں؟*
اس لیے کہ اسرائیل سے گہرے مراسم کی ابتداء بھی کانگریس کے دور میں ہوئی تھی، نرسمہا راو کے دور حکومت ۱۹۹۲ میں اسرائیلی سفارت خانہ ہندوستان میں قائم ہوا تھا، اس کی وجہ بھی لکھ دوں، ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی اپنے ملک کے مفادات کو ملحوظ رکھ کر بناتا ہے، ہندوستان کے بہت سے مفادات عربوں سے وابستہ تھے، اسرائیل سے دوستانہ اور سفارتی تعلقات عربوں کی ناراضگی کا سبب ہوسکتے تھے، اگرچہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہند اسرائیل تعلقات نہ رہے ہوں، لیکن باضابطہ تعلقات کا آغاز تب ہوا جب ہندوستان کو عرب اسرائیل تعلقات کا اچھی طرح علم ہوگیا، عین اسوقت جب خلیج میں امریکی فوجی اڈہ قائم ہوا، عربوں کی خود مختاری ختم ہوئی، ان کے اسرائیل سے تعلقات منظر عام پر آے تو دوسروں کے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر ناراض ہونے والا کوئی نہ رہ گیا، لہذا کانگریس میں بیٹھے اعلی درجہ کے آر ایس ایس کے حامیوں نے برادرانہ حق ادا کیا، اور سفارت خانہ کھولا گیا۔
اس وقت پوری دنیا جان گئی ہے کہ ریاض پر اسرائیل کا معنوی قبضہ مکمل ہوچکا ہے، ریاض اور امارات کی حکومتیں اب صرف امریکی بل بوتے پر قائم ہیں، اور اسرائیل کے تحفظ کے لیے کوشاں اور کام میں لگی ہوئی ہیں، خیر تو یہاں تک ہے کہ اب سعودیہ میں ایک ادارہ قائم کیا جارہا ہے جہاں کتابوں کی تنقیح کا کام ہوگا، ایسا نصاب تیار کیا جاے گا جو شدت پسندی سے پاک ہو اس ادارہ میں معتدل(ہماری زبان میں معتدل کا مطلب اسلامی روح سے خالی اور سیکولر) ائمہ مساجد کی تربیت کی جاے گی، اسی ادارہ کی راست نگرانی وائٹ ہاؤس کرے گا، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جلد ہی ریاض میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی قائم ہوجاے گا، *اس صورت میں ہم کو اگر قرآن کریم کی آیت “لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین آمنوا الیھود والذین أشرکوا”۔۔کی تفسیر پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوے یاہو اور مودی کے گرم جوشی سے گلے ملنے میں نظر آے تو اس میں تعجب کیا؟*
*سعودیہ نے ہی تو ملت اسلامیہ پر ” احسان” کیا تھا جب ہمارے وزیر اعظم کو اپنا سب سے بڑا اعزاز دیا تھا، ٹرمپ کو اپنی تاریخ کے سب سے قیمتی تحائف دیے، انکشاف تو یہاں تک ہوا کہ الیکشن میں نتن یاہو کو فنڈ بھی فراہم کیا، محمد بن سلمان کی ولی عہدی پر اسرائیلی میڈیا نے خوشی کا اظہار کیا جیسے سعودی امداد سے قابض ہوے سیسی کی آمد پر استقبال کیا تھا، اب بھی اگر کسی کو اسباب اور تفسیر سمجھ میں نہ آے تو بڑی حیرت ہوگئی، ہم متعدد واقعات پر اس آیت کا حوالہ دے چکے ہیں اور یہ لکھ چکے ہیں کہ وطن عزیز کی پالیسیاں طے کرنے میں اسرائیل کی حصہ داری یقینی ہے۔*
✍ ڈاکٹر طارق ایّوبی ندوی ✍
ایڈیٹر: ماہنامہ ندائے اعتدال، علی گڑھ
صدر: کاروان امن و انصاف
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں