پروفیسر حکیم عبدالحلیم قاسمی
پرنسپل ارم یونانی میڈیکل کالج، لکھنؤ
[email protected]
اس وقت مشرق خاص طورپر ترقی پسند اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں شوگر وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ مگر ان کے بارے میں تمام مایوس کن اعداد وشمار سامنے آنے کے باوجود حکومتی یا عوامی وسماجی سطح پر اس سے بچاو¿ کی خاطر خواہ مہمات دیکھنے کو نہیں ملتیں، رہی بات ذیا بیطس کے مرض سے محفوظ رکھنے والے ویکسین یا ٹیکے کی تو ہیلتھ سائنس میں ہمالیہ سر کرنے کا دعویٰ کرنے والے ترقی یافتہ ممالک اور بڑے بڑے سائنسی ادارے بھی ابھی تک اس کی ایجاد نہیں کرپائے ہیں۔ایسے میں پہلا سوال یہی ذہن میں آتا ہے کہ شوگر کوئی مرض ہے بھی یا نہیں ، ہمارے مشرقی ممالک میں اس کو مرض ہی نہیں ، بلکہ ایک لاعلاج بیماری بناکر پیش کیا جاتا ہے اور مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے ڈاکٹرز اور دواساز کمپنیاں اس کے تدارک (علاج کیلئے نہیں) کیلئے روزانہ نئے ناموں کے ساتھ پرانے فارمولوں میں تھوڑی بہت تبدیلی کرکے نئی نئی دوائیں بازار میں اتار رہی ہیں اور اس طرح ہم مشرقی باشندوں کی گاڑھی کمائی سالانہ اربوں ڈالر کی شکل میں ترقی یافتہ ممالک بالخصوص امریکہ کے خزانے میں غارت ہورہی ہے۔جبکہ اسی ترقی یافتہ ممالک کے معالجین اور سائنسداں شوگر کو مرض نہیں مانتے ۔ رپورٹس کے مطابق مغرب میں اکثر ڈاکٹر یا کنسلٹنٹ اسے بیماری نہیں،بلکہ ایک ”کنڈیشن“ سمجھتے ہیں ،جس کو بیشتر مرحلوں پرزندگی گزارنے کے طور طریقے بدل کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ان ہی تبدیلیوں اور احتیاط کے باعث کئی ایک مریضوں نے تو اسے جڑ سے ہی ختم کر لیا ہے ۔ اس موضوع پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے شوگر کے مریض اور بی بی سی ہیں لندن کے کالم نگار لکھتے:
”مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی دفعہ ڈاکٹر کے کلینک سے ٹیسٹ کروا کے باہر آیا تو ایک دوست جو میرا وہاں انتظار کر رہا تھا ، میں نے اس سے بتایا کہ ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ آپ کا شوگر لیول اس سطح پر ہے جہاں آپ کو ذیابیطس ہو سکتی ہے تو میرے دوست کے منہ سے فی البدیہ نکلا’ہاو¿ سویٹ‘۔ یقین کیجئے کہ اس ’ہاو¿ سویٹ‘ کا بھی آپ کی بیماری کے کنٹرول میں بہت ہاتھ ہے۔ مطلب یہ کہ خوش رہیں۔ اگر آپ نے ذہنی طور پر اسے اپنے آپ پر اسے حاوی نہ ہونے دیا تو آپ اس کے ساتھ ایک اچھے’لائف پارٹنر‘ کے طور پر بھی رہ سکتے ہیں“۔
مگر ہمارے ہندوستان میں جہاں مریض کی صحت اور صحیح علاج اور طبی مدد کے لئے آنے والوں ستم رسیدہ کے ساتھ ہمدردی سے زیادہ ڈاکٹروں کی نظر ان کی جیبوں پر ہوتی ہے، وہ بس اس خیال سے شوگر کے متاثرین کی کاو¿نسلنگ اور ایماندارانہ رہنمائی نہیں کرتے کہ یہ کوئی مرض نہیں ہے، بلکہ ہندوستانی ڈاکٹر اسے مرض کے تعلق سے دہشت زدہ کرتا ہے اور اس سے فکر مند ہوکر مریض اپنی صحت کو اور زیادہ گھلا لیتا ہے، لہذا شوگر ظاہر ہونے کے بعد اس سے گھبرائیں نہیں ، بلکہ چند احتیاط اور روز مرہ کی زندگی میں معمولی تبدیلی ہی اس کا فطری علاج ہے۔ مغرب میں شوگر کنڈیشن کی صورت ماہرین صحت اور انسان دوست معالجین علاج بالدواءبہت کم جبکہ اس مرض کے ازالہ کیلئے علاج بالتدبیر کو ہی بروئے کار لاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان کے بیوپاری معالجین اور ڈاکٹرز مریض کو اس قدر خوف زدہ کردیتے ہیں کہ وہ اس ” کنڈیشن “کو ہی اپنے اوپر حاوی کر لیتا ہے، نتیجہ کار یہ مرض جو میڈیکل سائنس کی رو سے مرض ہی نہیں ہے ،وہی چیز سوہان روح بن جاتی ہے اور انسان کو اندر سے بالکل کھوکھلا کردیتی ہے۔
ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذیابیطس کے مریضوں کیلئے دوا کے بجائے احتیاطی تدا بیر اور معمولات زندگی کو حفظان صحت کے اصولوں پر لانے کی بات ہے۔ اس میں وہی چیزیں شامل ہیں جیسے کہ کھانے پینے والی جن اشیاءسے یہ مرض بڑھتا ہے اس سے ہر ممکن حد تک پرہیز کرنا چاہئے ، آرام پسندی اور گاو¿ تکیہ والی پُر آسائش زندگی کو ترک جسمانی محنت اور ورزش والے کام اختیار کرنے چاہئیں۔
علاوہ ازیں ذیابیطس میں مبتلا افراد کو اپنے کھانے پینے کے حوالے سے بہت زیادہ احتیاط کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔جہاں ذیابیطس کے مریض میٹھا کھانے سے پرہیز کرتے ہیں، وہیں انہیں مشروبات کے استعما ل سے بھی منع کیا جاتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 42 کروڑ 50 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔شوگر میں مبتلا افراد کو کئی اور مرض کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جن میں گردے اور دل کے مسائل اور موٹاپا شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرز شوگر کے مریضوں کو زیادہ احتیاط کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ذیابیطس کے شکار افراد میٹھے سے پرہیز کی وجہ سے اپنے من پسند پھل بھی نہیں کھا پاتے، کیوں کہ پھلوں میں بھی قدرتی طور پر شوگر موجود ہوتی ہے۔ چند پھل ایسے بھی ہیں جن کو ذیابیطس میں مبتلا افراد بآسانی کھاسکتے ہیں اور انہیں شوگر کے حوالے سے پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
امرود: امرود میں فائبر کی مقدار بہت زیادہ ہے، یہ بلڈ میں شوگر کو بڑھنے نہیں دیتے۔
آڑو: آڑو کو سلاد میں بھی کھایا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ ذیابیطس میں مبتلا افراد اسے بغیر کسی فکر کے کھا سکتے ہیں۔
کیوی: کیوی نہایت مزیدار پھل ہے، جس میں وٹامن اے اور سی دونوں موجود ہیں، کیوی خون میں شوگر کی سطح کو بڑھنے نہیں دیتے۔ سیب روزانہ ایک سیب ذیابیطس میں مبتلا افراد کو کھانا چاہیے، اس میں فائبر موجود ہوتا ہے، جبکہ اس سے نظام ہاضمہ بھی بہتر ہوتا ہے۔ذیل میں ایسے ہی چند اور پھلوں کا ذکر کیا جارہا ہے ،جنھیں ذیابیطس کے مریض کھا سکتے ہیں اور جو ان کے لیے مفید وضروری ہیں:
مالٹا،سنگترہ : ماہرین صحت مالٹے اور سنگترے جیسے ترش پھلوں کو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک ذیابیطس کے شکار افراد کے جسم میں حیاتین ج(وٹامن سی)کی مقدار میں کمی آجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مالٹے ،سنگترے اور کینو کھانے کی ہدایت کی جاتی ہے،کیوں کہ ان میں حیاتین ج زیادہ مقدار میں ہوتی ہے۔یہ مانع تکسید(ANTIOXIDANT)پھل ہیں،جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں،خاص طور پر ذیابیطس قسم دوم کو قابو میں رکھتے ہیں۔کیلی فورنیا یونی ورسٹی میں کی گئی تحقیق کے مطابق ترش پھل ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہیں۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترش پھل مٹاپے کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ دل وجگر کی بیماریوں اور ذیابیطس سے بچاو¿ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان پھلوں میں حیاتین ج اور مانع تکسید اجزاءبھر ے ہوتے ہیں۔یہ آزاد اصلیوں(فری ریڈ یکلز)کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ماہرین صحت ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ذیل میں دیے گئے پھل بھی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
چکوترا : اگر آپ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں تو چکوترا تمام پھلوں میں آپ کے لیے بہترین ہے ۔ یہ خون میں شکر کی سطح کو معمول پر لے آتاہے۔ چکوترے میں موجود حیاتین الف اور ج ، فو لا د ، فا سفو ر س اور چونے کی بڑی مقدار ذیابیطس کے مریضوں کے مدافعتی نظام کو تقویت پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ماہرین صحت چکوترے کی بے پناہ خصوصیات کے باعث ذیابیطس کے مریض کو روزانہ آدھی پیالی چکوترا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
جامن : جامن میں ذیابیطس سمیت کئی بیماریوں کا علاج پوشیدہ ہے۔اسے روزانہ کھانے سے ذیابیطس کی بیماری قابو میں رہتی ہے۔اگر ذیابیطس کے مریض جامن اور آم کا رس ہم وزن ملا کر پئیں تو خون میں شکرکی مقدار کم کرنے میں مدد ملے گی۔جامن کے علاوہ اس کے پھول بھی پانی میں بھگو کر پینے سے مریض کو فائدہ ہوتاہے۔
آڑو : آڑو میں حیاتین (الف )اور (ج )کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ آڑو میں پوٹاشیم اور ریشے کی بھی اچھی خاصی مقدار ہوتی ہے۔ذیابیطس کے مریضوں کو یہ پھل کھانے کا اکثر مشور ہ دیا جا تا ہے ، اس لیے کہ اسے کھانے سے جسم میں شکر کی مقدار معمول پر رہتی ہے۔یہ مزے دار پھل جسم کی فاضل چربی بھی گھٹا دیتاہے۔
سرخ انگور: معالجین ذیابیطس کے مرض میں مبتلا فرد کو سرخ انگور کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔امریکی تحقیق کے مطابق سرخ انگور میں ایسے کئی اجزاءپائے گئے ہیں ،جو فربہی ،امراض قلب اور شوگر ٹائپ2 جیسے امراض کو نہ صرف روکتے ہیں،بلکہ ان کے علاج میں بھی مفید ہیں۔ایک تحقیقی رپورٹ میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے دومفید پھلوں کا ذکر کیا گیا ہے،جن میں سے ایک سرخ انگور ہے۔ماہرین صحت کے مطابق سرخ انگور اور نارنگی میں ایسے خاص قسم کے اجزاءپائے جاتے ہیں ،جو خون میں شکر کی سطح کم کرتے ہیں،مٹاپے کو گھٹاتے ہیں اور امراض قلب پر قابو پانے میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔
بیریاں: بیریاں(BERRIES)ایسے پھل ہیں،جن میں موجود ریشہ اور کئی اقسام کی حیاتین ذیابیطس کے مریضوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ماہرین غذا کے نزدیک بیریاں بہترین مانع تکسید پھل ہیں۔ذیابیطس کے مریضوں کو دن میں تین چوتھائی پیالی بیریاں کھانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔رس بھری اور نیلی بیری ذیابیطس کے مریضوں کے لیے سود مند ثابت ہو چکی ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں