4فروری عالمی یوم کینسر پر خاص
حکیم نازش احتشام اعظمی
4فروری کوہر سال دنیا بھر میں یونین برائے بین الاقوامی کینسر کنٹرول (یو آئی سی سی) کے زیر اہتمام کینسر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد انفرادی اور اجتماعی طورپر کینسر جیسے موذی مرض کے اسباب کو جاننا اور اس کے سدباب کے لیے آواز بلند کرنا اور عوام کے درمیان بیداری پیدا کرنا ہے۔ اس موقع پر لوگوں کو کینسر کی مختلف اقسام، وجوہات، ابتدائی علامات، علاج معالجہ اور اس سے بچاؤ کے متعلق معلومات اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے سیمینارز، واکس اور مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
اس کی مناسبت سے ہمارے یہاں ہندوستان میں بھی 4فروری کو”کینسر کا عالمی دن“ منایا جاتا ہے۔اگر عالمی سطح پرکینسر سے ہونے والی ہلاکتوں پر نظر ڈالی جائے معلوم ہوتا ہے کہ کینسر سے ہلاک ہونے والی اموات کی تعداد ہمارے وطن ہندوستان میں حد سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس خطرناک اور عموماً لاعلاج مرض سے وطن ِ عزیز ہندوستان میں ہر دو منٹ میں تین افراد کینسر جیسے موذی کا لقمہ بن کر ابدی نیند سوجاتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود ہمیں 2019 کے بعد کینسر کی وجہ سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار دیکھنے کو نہیں ملے۔البتہ 2014سے 2019کے درمیان چھ برسوں پر محیط اموات کے اعداد شمار فراہم ہوسکیہیں وہ بھی عام ہندوستانیوں کے دلوں میں سنسی برپا کردیتے ہیں۔ چونکہ موجودہ حکومت نے ان سبھی معاملات کے اعداد و شمار عوام کے لیے شائع کرنے بندکردیے ہیں جس سے حکومت کی کار کردگی پر سوال اٹھتے ہوں۔شاید اسی پالیسی کے تحت کینسر کے اعدادو شمار کو شائع کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس موضوع پر نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ، جھجرنے اموات کے اعدادو شمار شائع کئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2019 میں 8,37,997 افراد ہلاک ہوئے۔ یعنی ملک کے مختلف حصوں میں یومیہ 2296 افراد کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہوگئے۔ یعنی ہر دو منٹ میں تین افراد کینسر کی وجہ سے زندگی کی جنگ ہار گئے۔ کینسرانسٹی ٹیوٹ جھجرکی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیاہے کہ2019 میں 16 لاکھ سے زیادہ افراد کینسر کے تیسرے اسٹیج تک پہنچ چکے تھے۔
واضح رہے کہ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ ہر سال ملک میں کینسر کی صورتحال اور متاثرہ افراد اور اس مرض سے ہونے والی اموات
کی تحقیقات کرکے اپنی ریسرچ رپورٹجاری کرتا ہے،مگر کووڈ کی ہلاکت خیزیوں کی آڑ میں اس مہلک ترین مرض میں مبتلا ہونے والے افراد اور ان سے ہونے والی اموات کی رپورٹ جاری نہیں کی گئی۔ ادارہ سے وابستہ ذرائع بتاتے ہیں کہ ملک کے مختلف اسپتالوں سے2014 سے 2018 تک اس مرض سے ہلاکتوں کا سلسلہ وہی تھا جو مندرجہ بالا سطور پیش میں پیش کیا گیا ہے۔ حالاں کہ2018 مقابلے 2019 میں کینسر کے باعث 4.56 فیصد زیادہ اموات ہوئیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گزرتے ماہ و سال کے ساتھ سرطان (کینسر) سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد میں کمی آنے کے بر عکس اضافہ ہی ہوتا جاتا جارہا ہے۔
کینسرانسٹی ٹیوٹ جھجر فی الحال تمام ریاستوں سے موصول ہونے والی سرطان کے امراض کی تعداد پر ریسر چ کر رہا ہے ۔ اس کے بعد مکمل رپورٹ جاری کی جائے گی، لیکن اس معاملے میں ادارہ کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں کی طرح اب کے برس بھی کینسر کے سب سے زیادہ معاملے اتر پردیش سے ہی سامنے آئے ہیں۔قصہ مختصر یہ کے اگر ہم 2014 سے2019 تک کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یہ جان کرششدر رہ جاتے ہیں کہ گزشتہ 6 برسوں میں 45,10,188 افراد کینسر سے مر چکے ہیں۔جو کینسر بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ متاثر کررہا ہے۔اس میں چھاتی کا کینسر(breast cancer)، منہ اور ہونٹ کے کینسر،جگر اور پتے کی نالیوں کا کینسر، بڑی آنت کا کینسر، پروسٹیٹ کینسر، برین ٹیومر، مثانے کا کینسر، ہوچکنز اورنان ہوچکنز کینسر،جلد کا کینسر،اووری کا کینسر،پھیپھڑوں کا کینسر اورکولون (Colon cancer)کینسر کے مریضوں میں زیادہ اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مرد حضرات زیادہ تر پھیپھڑوں،پراسٹیٹ(prostate cancer)،کولوریکٹم(colo rectum cancer)،معدے،منہ اور جگرکے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس مرض نے بڑوں اور عمر رسیدہ لوگوں کے ساتھ بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے۔بچوں میں بلڈ کینسر، ہڈیوں کا کینسر،آنکھوں اور گردوں کے کینسر کے معاملے دن بہ دن بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
اب یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ کینسر کیوں ہوتا ہے اور اس محفوظ رہنے کے ہمیں اپنی زندگی کیسے گزارنی چاہئے۔کینسر سیل کی غیر معمولی نشوونما کی بیماری ہے۔ عام طور پر ہمارے جسم کے خلیات ایک کنٹرولنگ سسٹم کے تحت بڑھتے اور تقسیم ہوتے ہیں۔ جب عام خلیے خراب ہو جاتے ہیں یا خلیے پرانے ہو جاتے ہیں تو وہ مر جاتے ہیں اور ان کی جگہ صحت مند خلیے لے لیتے ہیں۔ کینسر میں سیل کی نشوونما کو کنٹرول کرنے والے سگنل ٹھیک سے کام نہیں کرتے۔لہذا اس کی جگہ کینسر کے خلیات جسم میں گھر بنالیتے اوربڑھتے رہتے ہیں اور بڑھتے رہتے ہیں اور چونکہ ہمارے جسم کا امیونٹی سسٹم پہلے ختم ہوچکا ہوتا ہے،اس طرح کینسر آسانی سے ہمارے جسم میں پھلنے پھولنے لگتے ہیں۔ہیلتھ سائنس کے مطابق ہمارے جسم کے ہر خلیے پر جینز کی حکمرانی ہوتی ہے جو خلیوں کو کام کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں، کب بڑھنا ہے اور کب تقسیم ہونا ہے۔مگر جب یہی جینز اپنا فطری عمل ترک کردیتے ہیں تو کینسر جسم کے اندر اپنے خلیے بنانا شروع کردیتاہے۔دھیان رہے کہ جینیاتی تبدیلیاں یا تغیرات ہی (خلیہ میں تبدیلیاں یا ہیرا پھیری) سیل کے معمول کے کام میں مداخلت کرنے لگتے اور جسم کا خود کار نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ زیادہ تر معاملوں میں جینز کے قدرتی عمل میں تبدیلی بے ساختہ ہوتی ہے، وہ بھی جب خلیے مختلف حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہماری اپنی غلطیوں خاص کر قدرتی اور فطری کھان پان کے بجائے مغربی کلچر کا غلام بن کر بازاری کھانوں پر انحصار کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بالغوں میں ہونے والے کینسر کے برعکس، بچوں میں کینسر طرز زندگی میں تبدیلی یا ماحول کی وجہ سے نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ بچوں میں کینسر کے زیادہ ترمعاملے جین میں تبدیلی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔جو ماں باپ کے ذریعہ نونہالوں منتقل ہوتا ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ساطر ز زندگی ہے جس کے نتیجے میں ہم کینسر سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔اس سلسلے میں ماہرین کی رائے ہے کہ طرزِ زندگی میں سادگی اختیار کی جائے، مرغن غذاؤں کے زیادہ استعمال سے گریزکیا جائے، روزانہ ورزش کے ساتھ ہر طرح کا نشہ خصوصاً پان، چھالیہ، تمباکو اور گٹکے وغیرہ سے پرہیز ہی انسانوں کو اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھ سکتی۔
اس سلسلے میں خطرناک اور مایوس کن بات یہ ہے کہ کینسر ابھی بھی دنیا بھر کے ڈاکٹرز، اماہرین اور اسکالرز کے لئے ایک چلینج بنا ہوا ہے۔ لہذا اوپر کی سطروں میں جو باتیں بطور مشورہ عرض کی گئی ہیں، اس پر عمل کرنا ہی اس سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔
[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں