’جئے شری رام‘ بی جے پی کا “آتنکی نعرہ

0
586
Bharatiya Janata Party leaders in West Bengal have exhorted people to take up arms against the state police
Bharatiya Janata Party leaders in West Bengal have exhorted people to take up arms against the state police...
All kind of website designing

’تشٹی کرن‘ کا پروپیگنڈہ اس کا دوسرا بڑا ہتھیار

عبدالعزیز

ہندستان کی چار پانچ ریاستوں میں مستقبل قریب میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، لیکن جس ریاست پر پورے ہندستان کی نظر ہے وہ مغربی بنگال  ہے۔ مغربی بنگال میں 2019ء سے پہلے بی جے پی کا کوئی خاص چرچا نہیں تھی۔ بی جے پی نے 2011ء سے بایاں محاذ حکومت کے جانے کے بعد ممتا بنرجی کی مدد اور توسط سے ریاست میں اپنی جگہ بنانا شروع کیا۔ بایاں محاذ کی لڑائی میں پس پردہ بی جے پی نے ممتا بنرجی یا ترنمول کانگریس کی غیر معمولی مدد کی تھی۔ آرایس ایس اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے۔ ممتا بنرجی ’این ڈی اے‘ میں میں شامل ہوئیں ۔ اٹل بہاری واجپئی کی سرکردگی میں جو حکومت بنی اس میں وہ وزیر ریلوے رہیں۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر مغربی بنگال میں الیکشن میں حصہ لیا۔ جب انھیں کامیابی بی جے پی کی طرف سے ملتی دکھائی نہیں دی تو انھوں نے 2011ء مسلمانوں کا ووٹ لینے کیلئے کانگریس کا رخ کیا اور ان کو کامیابی ملی۔ ترنمول کانگریس اور کانگریس کی ریاست میں ملی جلی حکومت بنی۔ ترنمول کے کئی افراد مرکزمیں منموہن سرکار کے وزیر بنائے گئے۔ کانگریس اور ترنمول کا اتحاد بہت دنوں تک قائم نہیں رہا۔ کانگریس کا اتحاد علاحدہ ہونے کے بعد ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی پھر بی جے پی سے قریب ہوگئی۔ 2016ء کے اسمبلی الیکشن میں ترنمول کانگریس کا مقابلہ کانگریس اور بایاں محاذ کے اتحاد سے تھا۔ بہت آسانی سے ممتا بنرجی اتحاد کو ہرانے میں کامیاب ہوئیں۔ 2014ء میں لوک سبھا کا الیکشن ہوا اس میں بھی ترنمول کانگریس کو بڑی کامیابی ملی۔ ایک یا دو جگہوں سے بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ بی جے پی کا ووٹ 7/8فیصد سے 17% ہوگیا تھا۔ 2016ء میں گھٹ کر پھر 10% ہوگیا، لیکن 2019ء میں بی جے پی کو لوک سبھا کے الیکشن میں غیر معمولی کامیابی ملی۔ اٹھارہ سیٹوں پر اس کی جیت ہوئی اور 40% ووٹ ملے۔ 26% ووٹ اور 4% ووٹ کانگریس کے بی جے پی کی طرف منتقل ہوگئے۔
2019ء کے بعد ہی سے بی جے پی نے مغربی بنگال پر مکمل قبضہ کرنے کیلئے کوششیں شروع کردیں اور ہر طرح کے جوڑ توڑ اور سیاسی حربہ استعمال کرنے لگی۔ جیسے جیسے 2021ء کا اسمبلی الیکشن قریب آتا گیا بی جے پی نے اپنا سارا زور مغربی بنگال کی طرف جھونک دیا۔ امیت شاہ اور نریندر مودی کے بار بار ریاست کے دورے ہونے لگے۔ بی جے پی کے دوسرے مرکزی لیڈران بھی وقتاً فوقتاً مغربی بنگال کا دورہ کرنے لگے۔ بی جے پی کے مقامی لیڈروں کا حوصلہ بلند سے بلند تر ہوتا ہوگیا۔ اس وقت بی جے پی اور ترنمول کانگریس میں کانٹے کی ٹکر نظر آرہی ہے۔ بی جے پی کو یقین سا ہوگیا ہے کہ ترنمول کانگریس کو بنگال سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ دس سال پہلے جو صورت حال بایاں محاذ اور ترنمول کانگریس میں جنگ آزمائی تھی وہی جنگ آزمائی اس وقت ترنمول کانگریس اور بی جے پی میں ہے۔ بی جے پی پورے طور پر چاہ رہی ہے کہ مغربی بنگال میں پولرائزیشن ہوجائے۔ ہندو مسلمان کی تقسیم ہوجائے تاکہ ہندوؤں کی اکثریت بی جے پی کو ووٹ دینے پر مجبور ہو اوربی جے پی اقتدارکی کرسی تک پہنچ سکے۔ اس کیلئے ’جئے شری رام‘ جیسا نعرہ جو ہندی بیلٹ میں ہندو بھائی ایک دوسرے کو سلامی کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے، کہا جاتا ہے کہ وہاں بھی ’جئے شری رام‘ کے بجائے ایک ہندو سے جب دوسرا ہندو ملتا ہے تو ’جئے سیارام، نمسکار، نمستے اور دیگر سلامی کے طور طریقے استعمال کرتے ہیں۔ بنگال میں ’جئے شری رام‘ کا نعرہ ضرورت سے کہیں زیادہ استعمال ہونے لگا ہے۔
شمالی چوبیس پرگنہ مغربی بنگال کا ایک ضلع ہے، اس کے ایک علاقے کے دورے پر وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی گئی تھیں۔ وہاں کچھ لوگوں نے جن کا تعلق آر ایس ایس اور بی جے پی سے تھا ممتا بنرجی کو دیکھتے ہی طعنہ زنی اور طنزیہ انداز سے کہا تاکہ ممتا آپے سے باہر ہوجائیں ، طعنہ زنی کرنے والوں کو مقصد پورا ہوا۔ ممتا بنرجی اپنے گاڑی سے اترکر نعرے بازی کرنے والوں پر برس پڑیں اورپولس کو ہدایت دینے لگیں کہ ایسے لوگوں کو گرفتار کرو۔ اس واقعہ کے بعد ہی سے فرقہ پرستوں میں ’جئے شری رام‘ کا نعرہ “Hot Cake” (ہوٹ کیک) بن گیا۔
دوسرا بڑا واقعہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی 125ویں سالگرہ کی تقریب میں رونما ہواجس میں وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم دونوں شریک تھے۔ یہ تقریب23جنوری کو ’’دیش پریم دیوس‘‘ کے عنوان سے منعقد کی گئی تھی۔ مرکزی وزارتِ ثقافت نے دو پروگرام نیشنل لائبریری اور وکٹوریہ میموریل میں منعقد کیا تھا۔ وکٹوریہ میموریل کی تقریب میں جب ممتا بنرجی کو تقریر کی دعوت دی گئی تو سامعین میں جو لوگ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے کچھ لوگوں نے زور زور سے ’جئے شری رام‘ اور مودی، مودی کے نعرے بلند کئے۔ ممتا بنرجی اسٹیج پر ضرور گئیں ، غصے سے بھری ہوئی تھیں ، انھوں نے کہاکہ ’’یہ ایک سرکاری پروگرام ہے، یہ کسی سیاسی پارٹی کا جلسہ نہیں ہے۔ بے محل موقع پر ایسے نعروں کا مطلب میں سمجھ گئی، احتجاجاً میں تقریر نہیں کروں گی‘‘۔ ممتا بنرجی ’جئے ہند‘ اور ’جئے بنگلہ‘کہتے ہوئے اسٹیج سے اتر گئیں۔ مودی جی کی تقریر کی جب باری آئی تو حسب عادت انھوں نے غیرموزوں نعرے پر کچھ بھی نہیں کہا۔ اس سے لوگوں نے اندازہ کیا کہ ممتا کو Irritate اور Taunting (پریشان کرنے اوربرہم کرنے کیلئے)کیا گیاہے۔ دوسرے واقعے کے بعد اس نعرے کا استعمال بی جے پی کے لوگ کثرت سے کرنے لگے۔
گزشتہ روز(21فروری) بی جے پی کے معروف صحافی سپن داس گپتا کا ایک مضمون “How chant of Jai Shri Ram became a subaltern war cry in Bengal” (کیسے جئے شری رام کا نعرہ بنگال میں جنگی نعرہ بنا) کے عنوان سے ’دی ٹائمز آف انڈیا‘میں شائع ہوا۔ انھوںنے لکھا ہے کہ ’’جئے شری رام کا نعرہ اجودھیا مندر تحریک کے موقع پر مقبول ہوا۔اور یہ ہندو قومیت کی علامت بن گیا۔ مغربی بنگال ’انقلاب، زندہ آباد‘ یا ’وندے ماترم‘ کے نعرے مانوس تھا۔ ’جئے شری رام‘ جیسے نعروں کو ہندی بیلٹ کا نعرہ تسلیم کیا جاتا تھا اور بنگالی ثقافت میں اسے لائق تحسین نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن 2019ء میں لوک سبھا کی 42سیٹوںمیں 18 سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ اور 40% ووٹوں کا حصول مغربی بنگال میں بھی ہندوتو کی سیاست تیزتر ہوئی۔ بنکم چندر چٹرجی کے ’وندے ماترم‘ اور ’بھارت ماتا‘ کے تصور سے ’جئے شری رام‘ کا نعرہ جڑ سا گیا۔ پہلے بنگال میں رام نومی کے موقع پر اس کا استعمال ہوتا تھا۔ ممتا بنرجی نے جیسے جیسے اس نعرے سے خفا ہونے لگیں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کی مقبولیت اس قدر ہوگئی کہ جس طرح برطانیہ کے راج میں انگریزوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے ’وندے ماترم‘ کا نعرہ لگایا جاتا تھا اسی طرح ممتا بنرجی سے نجات حاصل کرنے کیلئے یہ نعرہ بلند ہونے لگا۔ جیسے برطانیہ کے راج میں ’وندے ماترم‘کا نعرہ سن کر انگریز آپے سے باہر ہوجاتے تھے اسی طرح ممتا بنرجی بھی ’جئے شری رام‘ کا نعرہ سن کر آپے سے باہر ہوجاتی ہیں‘‘۔
آخر میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’اس انتخابی جنگ میں مذکورہ نعرہ فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔ سپن داس گپتا راجیہ سبھا میں بی جے پی کے ممبر ہیں۔ ممتا بنرجی کے خلاف لکھنے اور بولنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ دلیپ گھوش صدر بی جے پی مغربی بنگال کے بعد وزیر اعلیٰ کے امیدواروں میں ان کا بھی نام آتا ہے۔ موصوف شاید پُر امید ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ممتا کو چڑھانے کیلئے جئے شری رام کے نعرے کو معقول اور مقبول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دلیپ گھوش نے انگریزی ہفت وار ’دی ویک‘ (14فروری کے شمارہ )کے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’وہ ممتا کی حکومت کو مغربی بنگال سے ہٹا کر دم لیں گے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ ’’میں ممتا کی زبان میں بولتا ہوں تاکہ ممتا سمجھ سکیں‘‘۔ دلیپ گھوش اپنے بیانات اور چال چلن کے لحاظ سے یوگی آدتیہ ناتھ سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ جو منہ میں آتا ہے وہ بکتے رہتے ہیں۔ جئے شری رام کے نعرے کے بارے میں اتنا زیادہ تعریف و تحسین کرتے ہیں کہ ’انڈیا ٹوڈے‘ کے حالیہ سالانہ کنکلیو کے موقع پر انھوں نے کاکولی گھوش دستیدار ایم پی کی ایک بات پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ ’’درگا کی کوئی حیثیت نہیں ہے، رام کی حیثیت تو بھگوان رام پرشوتم کی ہے‘‘۔ ترنمول ایم پی کاکولی گھوش دستیدار نے ان کو بنگال کے پس منظر میں درگا کی اہمیت پر کچھ ایسی روشنی ڈالی کہ دلیپ گھوش کی بولتی بند ہوگئی۔ دلیپ گھوش یوگی کی طرح اپنی بدزبانی، بدکلامی اور بدگوئی میں شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بنگال کو بچانا بیحد ضروری ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے ذریعے امیت شاہ اور نریندر مودی بنگال کو اتر پردیش بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بنگال کو بچانا ضروری ہے۔
بنگال میں ’جئے شری رام‘ کے بعد جو سب سے بڑا سیاسی ہتھیار بی جے پی کا ہے وہ ہے مسلم نوازی کا۔ حالانکہ یہ بالکل بے بنیاد ہے۔ ممتا بنرجی نے مسلمانوں کیلئے کوئی بنیادی یا ٹھوس کام زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ کیا نہیں ہے۔ اس وقت مسلمان ممتا بنرجی سے نالاں بھی ہیں اور ناخوش بھی ہیں لیکن ان کی مجبوری اور کمزوری ہے کہ وہ بی جے پی کو ہرانے کیلئے کسی متبادل کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ بی جے پی سے ٹکر بنگال میں اگر کوئی لے سکتا ہے تو وہ ممتا بنرجی ہیں یا ترنمول کانگریس ہے۔ اس لئے مسلمان بادلِ نخواستہ ممتابنرجی کی ہی حمایت کریں گے۔ ممتا بنرجی اگر تو تو میں میں کی سیاست نہ اپنائیں اور دہلی میں جس طرح اروند کجریوال نے تو تو میں میں کے بجائے اپنے کاموں کی بنیاد پر زیادہ زور دیا اور تو تو میں میں سے بچتے رہے اسی طرح اگر ممتا بنرجی بھی کریں تو ’جئے شری رام‘ جیسے بے معنی نعروں سے بی جے پی مغربی بنگال میں اقتدار کی کرسی تک نہیں پہنچ سکتی۔ بنگال کیلئے بی جے پی نے سوائے فساد اور فتنہ کے کوئی کام نہیں کیا ۔ بدقسمتی سے ممتا بنرجی کجریوال کی انتخابی پالیسی اپنانے سے قاصر ہیں، حالانکہ ان کے مشیر کار پرشانت کشور ہیں جو کجریوال کے بھی مشیر خاص تھے۔ راقم نے پرشانت کشور سے ایک ملاقات میں ممتا بنرجی اور ترنمول کے لیڈروں کی تو تو میں میں اور غلط بیانات کی نشاندہی کی تھی۔ پرشانت کشور نے جواب میں کہاکہ وہ اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں مگر اتنی بڑی پارٹی میں کنٹرول کرنا آسان نہیں۔ ابھی جو حالات ہیں اس میں دو بڑے امکانات ہیں ۔ ایک امکان ہے کہ ممتا بنرجی کو آسانی سے اکثریت انتخاب میں حاصل ہوجائے گی۔ دوسرا امکان مخلوط حکومت کا بھی ہے جو بنگال کیلئے زیادہ موزوں ہے۔ جہاں تک بی جے پی کا معاملہ ہے ابھی تک وہ اپنے سطحی نعروں کے سہارے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کا خواب دیکھ رہی ہے جو شاید ہی ممکن ہو۔
E-mail: [email protected]

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here