احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی ، نئی دہلی ، انڈیا
آج معاشرہ میں اکثر یہ شکایت سن کو ملتی رہتی ہے کہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے دوسروں سے قرض لے لیتے ہیں اور وقت پر یعنی وعدے کے مطابق واپس نہیں کرتے۔ اس کی بجائے قرض واپس مانگنے سے کے ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں۔اپنی ضروریات پوری کرتےرہتے ہیں اورقرض دینےوالے کی نہ یہ کہ ضرورت کا خیال نہیں کرتے،بلکہ ان کودوہری اذیت میں مبتلا کرتے ہیں، یہ موجودہ وقت میں معاشرہ کی ایک عام بیماری بن چکی ہے، جس کی شناعت پر عموماً کسی بھی نظر نہیں جاتی۔ حالاں کہ یہ عمل شریعت اسلام کی نظر میں بھی
مذموم ہے،آخرت میں خسارے کابھی باعث ہے اوردنیا میں اس سےبےبرکتی اور ہیجان اس کامقدر بن جاتی ہے۔ ایسا شخص قرض دہندہ کی نظر میں خودکو کمتر تصور کرتارہتاہے، جب تک اس سے نجات حاصل نہ کرلے اور کبھی کبھی تو قرض اور لین دین کی وجہ سے برسوں پرانے تعلقات تک خراب ہوجاتے ہیں۔اور آدمی اپنی نظریں چھپاتا اور قرض دہندہ کے خوف سے راستے تبدیل کرتاپھرتاہے، یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے ، بلکہ کھلی ہوئی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ شب و روز ہم سب ہی کرتے ہیں۔اللہ تعالی ہر شخص کو قرض کے بوجھ کی اس کی ذلت اوراس کی سنگینی سے محفوظ ومامون رکھے فرمائے ۔
قرض لے کر ادانہ کرنا کتنا سنگین ہے ۔آپ اس کا انداز اس بات سے لگاسکتے ہیں ، مناقب کی کتب میں ہے کہ: جہاد فی سبیل اللہ کتنا مقدس عمل ہے کہ شہید کا خون زمین پر گرنے سے پہلے عنداللہ مقبول اور اس کی روح جنت میں پہنچ جاتی ہے۔مگر کوئی شخص جو دوسرے کا قرض لیےے ہوئے ہو اورمیدان کارزار میں شہید ہوجائے تو بھی اس کی روح کو جنت میں جگہ نہیں ملتی، بلکہ قرض اداہونے تک جنت کے دروازے پر محبوس رہتی ہے ۔اسے جنت میں داخل نہیں ہونے دیاجاتا ۔ایک حدیث میں ہے:’’ عن سعد بن الاطول أن أخاہ مات وترک ثلاث مأ ۃدرھم۔وترک عیالا قال:فأردت أن أنفقھا علی عیالہ۔قال:فقال النبیﷺ”إن أخاک محبوس بدینہ۔فاذھب۔فاقض دینہ۔فذھبت فقضیت عنہ ‘‘۔وفیہ عبدالملک ابوجعفر ذکرہ ابن حبان فی’’الثقات‘‘وباقی رجال الإسناد علی شرط الشیخین۔وصحح اسنادہ البوصیری۔فی ”الزوائد۔ورقۃ ١٥٦۔أخرجہ البیہقی (جلد ١٠۔ص ١٤٣)۔اورمسند احمد کی روایت میں ہے:’’قال ر سول اللہ ﷺ۔:رأیت صاحبکم محبوسا علی باب الجنۃ“(احمد۔جلد۔٤۔ص۔١٣٦۔ابن۔ماجہ۔رقم الحدیث۔٢٤٣٣۔ابن سعد ج۔٧۔ص۔٥٧)۔
قرض لینے کاجواز یقینا ہے اور انسان کو ضرورتیں بھی پیش آتی ہیں۔جوبسااوقات ناگزیرہوتی ہیں۔اور انسان اپنی اورگھروالوں کی معاشی یامعالجاتی مجبوری میں تلملا اٹھتاہے۔اورقرض نہ لینے کی صورت میں افراد خانہ کی جان تک پہ بن آتی ہے۔۔اسی لیےشریعت نے ایسے ضرورت مندوں کو گھریلو یاکاروباری ضرورت میں سودی قرض تک لینے کی اجازت دی ہے۔اگر قرض حسن نہ مل سکے۔’’یجوزللمحتاج الاستقراض بالربح‘‘۔’’وقدفصل لکم ما حرم علیکم إلا مااضطررتم إلیہ‘‘۔ (سورۃ انعام۔١١٩۔) سے مستنبط بہت مشہوراصول ہے۔۔
اورقرض خواہ اگر قلاش اور مزید مفلس ہوجائے تو اس کے ساتھ ہمدردی کرنے اورفارغ البال ہونے تک اسے مہلت دیے جانے جیسی اخلاقی رواداری کی بھی تعلیم اسلام نے دی ہے۔’’وإکان ذوعسرۃفنظرۃ إلی میسرۃ۔ وأن تصدقوا خیرلکم إن کنتم تعلمون‘‘(سورہ بقرہ۔١٨٠) (اوراگرکوئی تنگی والا ہوتو اسے آسانی میسرہونے تک مہلت دو اوراسے صدقہ کرکے چھوڑہی دو تمہارے لیے اس سےبہتر بات اورکیاہوگی۔اگر تمہیں علم ہو)۔
مگربات اس وقت سنگینی کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔جب قرض داردینے میں ٹال مٹول سے کام لیتاہے یا دینانہیں چاہتا اور قرض دہندہ کو اذیت دیتاہے۔اور اگر اسی درمیان انتقال کرگیا تو اس کابوجھ یاتو اپنے مفلس ورثہ پر چھوڑ جاتاہے ،جوذلت بھی اٹھاتے ہیں اورپریشان بھی ہوتے ہیں ۔ یا پھر اپنےاوپربندہ کاحق کا لے کر دنیاسے جاتاہے۔جسے روزقیامت کمائی ہوئی نیکیوں سے۔ایک مفلس کی طرح چکاناہوگا جہاں خود ایک ایک نیکی کاانسان محتاج ہوگا۔
اورقرض چاہے شخصی ہو یاکسی ادارے اور بینک کا ہو ادائیگی کے حکم میں سب برابرہے اورحقوق العباد کے زمرے میں ہے ۔اللہ تعالی ہر مسلمان کو اپنے دین کی حقوق واخلاق پر مبنی تعلیمات کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں