کورونا سے زیادہ تباہ کن ہوسکتا ہے برڈ فلو!

0
532
All kind of website designing

حکیم نازش احتشام اعظمی

ابھی ہمارا ملک کورونا کی تباہ کاری سے نبرد آزما ہی تھا کہ اب موذی برڈ فلو( طیوری زکام ) نے ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول برپا کردیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک اتر پردیش سمیت کیرلا، راجستھان، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش

حکیم نازش احتشام اعظمی

، ہریانہ اور گجرات میں برڈ فلو (Bird Flue) کی تصدیق ہوچکی ہے۔ گزشتہ 9 جنوری سنیچر کے روزدہلی کے ہست سال ولیج کے ڈی ڈی اے پارک میں16پرندوں کی حادثاتی موت کی خبر ملی ہے ،جب کہ اس سے ایک دن قبل دہلی کے ہی میور وہارفیز1-میں تقریباًسو کووں کے مردہ پائے جانے کی خبر میڈیاکی سرخیوں میں تھی۔ بہرحال مردہ چڑیوں کے نمونوں کی جانچ کے لیے لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔ اب تک ملک کے اندرنو ریاستوں میںبرڈ فلو کی تصدیق ہوچکی ہے۔ نئی ریاست اتر پردیش ہے ، جہاں کانپور کے چڑیا گھر میں مردہ پرندوں کے نمونے لکھنؤ تک ہلچل مچا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی اور مہاراشٹر میں برڈ فلو کی تصدیق ہوگئی ہے۔ اس سے قبل مدھیہ پردیش ، راجستھان ، گجرات ، ہماچل پردیش ، ہریانہ اور کیرالہ میں برڈ فلو کے کیسز سامنے آچکے ہیں۔
حکومت ہند کے بیان میںکہا گیا ہے کہ ابھی تک ایوین انفلوئینزا (اے آئی) سے محفوظ رہی ریاستوں سے بھی پرندوں کی حادثاتی موت سے متعلق محتاط رہنے اور فوراً اس کی اطلاع دینے کی گزارش کی گئی ہے، تاکہ کم سے کم وقت میں ضروری اقدامات کئے جاسکیں۔ متاثرہ ریاستوں میں کیرلا، ہریانہ، ہماچل پردیش کا دورہ کرنے کے لیے مرکزی ٹیموں کی تشکیل کی گئی ہے، جو حالات پر نظر رکھتے ہوئے وبا سے متعلق ضروری جانچ کریں گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چکن اور انڈوں کے استعمال کے لیے اعتماد پیدا کرنے سے متعلق محکمہ لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری کے سکریٹری کا مکتوب وزارت صحت کو ارسال کر دیا گیا ہے‘۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت صحت سے اس وبا کے موضوع پرمناسب تبادلہ خیال کے بعد بیان جاری کرنے کی گزارش کی گئی ہے، تاکہ افواہوں کو لگام دےکر لوگوں کے درمیان انڈوں اور چکن کے استعمال کے تئیں اعتماد بحال کیا جاسکے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برڈ فلو متاثرہ چڑیوں سے انسانی جسم داخل ہوسکتا ہے، کیا فلو کے دور میں چکن اور دیگر چڑیوں کے گوشت کھانے سے کوئی فرد برڈ فلو کا شکار ہوسکتا ہے؟
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ برڈ فلو(Bird Flue)طیوری زکام در اصل ہے کیا، اس کی کتنی قسمیں ہیں اور یہ فلو سب سے پہلے کب وجود میں آیا تھا ؟
اس بابت سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کی طرح پرندوں اور دیگر جانداروں میں بھی فلو لگنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ برڈ فلو کا پہلا کیس 1997میں ہانگ کانگ میں ایک شخص میں پایا گیا تھا۔بہر حال سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انسان متاثرہ پرندوں سے رابطے میں آنے کے بعد ہی برڈ فلو کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس کی عام علامات میں کھانسی، بخار، گلے میں خراش اور فلو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ البتہ برڈ فلو (Bird Flue)طیوری زکام دیگر فلو کے مقابلے میں اس لیے زیادہ تشویشناک ہے کہ یہ جسم کے کسی ایک حصہ یا عضو کو بھی ناکارہ بنا سکتا ہے، ویت نام کے سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ وائرس جسم کے کسی بھی حصے کو متاثر کرسکتا ہے۔دنیا بھر میں تحقیق کار شدید تشویش کا شکار ہیں کیونکہ ویت نام میں برڈ فلو کے کیس کی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں پر انکشاف ہوا تھا کہ انسانوں میں یہ وائرس صرف پھیپھڑوں کو ہی نہیں بلکہ تمام اعضاء کو متاثر کرسکتا ہے۔
اب تک کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ دنیا میں برڈ فلو کی پندرہ اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سے ایچ فائیو اور ایچ سیون نامی اقسام جان لیوا ہو سکتی ہیں۔اس فلو (Flue) کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کے وائرس بھی گزرتے حالات اور موسم کے خلاف اپنی عادت و ہیئت بدلتے رہتے ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے نامرادکورونا نے ابھی ایک سال کے اندر ہی نئے اسٹریجن میں نمودار ہے اور پہلے سے بھی زیادہ مہلک اور سرعت کے ساتھ انسانوں کو اپنا شکار بنا تا ہے۔ کورونا کی تباہ کاری سے قدرے اطمینان اس لیے بھی ملاہے کہ محض ایک برس کی مدت میں ہی اس کا ویکسین تیار کرلیا گیا ہے اور ہمارے ملک میں بھی آنے والے 16 جنوری سے وسیع پیمانے پر اس کی ٹیکہ کاری کی تیاری آخری مرحلے میں ہے۔ کل ہی پیر کے دن یہ خبر آئی ہے کہ پنے کے سیرم انسٹی ٹیوٹ سے کوویڈ19-ویکسین کی پہلی کھیپ وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے لیے روانہ کی جاچکی ہے۔امید ہے کہ آئندہ بھی اس وبا پر سائنسدانوں کی ریسرچ جاری رہے گی اور آج سے بھی زیادہ حوصلہ افزا نتائج سامنے آئیں گے۔ تاہم عالمی ادارۂ صحت سمیت آکسفورڈ کے ماہرین صحت نے پہلے سے ہی متنبہ کررکھا ہے کہ کورونا بہت آسانی سے رختِ سفر باندھنے والا نہیں ہے اورنہ وہ جلد بازی میں دنیا چھوڑ نے کو راضی ہے۔کوویڈ19-سے لڑنے والا کووی شیلڈ اور کو ویکسین کس قدر کا میاب ثابت ہوگا سائنسدانوں اور ماہرین صحت کے درمیان اس معاملے میںبھی اتفاق رائے نہیں ہے۔ بہر حال اس موضوع پر باضابطہ گفتگو آئندہ مکمل مضمون میں کی جائے گی ۔فی الحال ہم اپنے نفس موضوع یعنی تازہ تر وارد ہونےوالی آفت برڈ فلو (Bird Flue) کی طرف لوٹتے ہیں۔قارئین! اپنی شدت کے لحاظ سے برڈ فلو اگرچہ بہت زیادہ تشویشناک نہیں ہے۔ مگر جب بھی یہ وبا قیامت برپا شروع کرے گی تو جان لیجیے یہ کورونا سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوگی ،اس لیے کہ ابھی تک اس کی ویکسین تیار کرنے میں دنیائے صحت(Health World) ناکام و نامراد ہے۔
جب پہلے پہل اس وبا کا محض ایک معاملہ1997میں ہانک کانگ میں سامنے آیا تھا ،اس وقت اس کو امیدوں کے مطابق سنجیدگی سے نہیں لیا گیااور نہ آج اس پر ہماری حکومتیں اور صحت کے ادارے سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ وبا کورونا، خسرہ، تپ دق، ہیضہ(Cholera) یا اس جیسے دوسرے تباہ کن طاعون کی طرح انسانی جانوں کے پیچھے نہیں پڑی ہے۔برڈ فلو کے متعلق جو اعدادو شمار بہم ہیں اس کے مطابق 1997سے اب تک برڈ فلو سے کل 169 افراد متاثر ہوئے جن میں سے تیرہ فروری 2006تک 91افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ ویت نام میں 93متاثر ہونے والے افراد میں سے 42ہلاک ہوئے، انڈونیشیا میں 25متاثرین میں سے 18 افراد ہلاک ہوگئے، تھائی لینڈ میں 22میں سے 14ہلاک، چین میں 12میں سے آٹھ ہلاک، ترکی اور کمبوڈیا میں چار چار ہلاکتیں اور عراق میں ایک ہلاکت ہوئی ۔
اگر بہ نظرغائر دیکھیں توبرڈ فلو کے متاثرین اور اس سے ہلاک ہونے والوں کا تناسب کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔کورونا وائرس کے متاثرین میں کم و بیش 6 فیصد افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ برڈ فلو میں متاثر ہونے والے تقریباً 48 فیصد افراد لقمہ اجل بن گئے۔اسی سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر طیوری زکام نے انسانوں کے جسم میں اپنی آماجگاہ بنانی شروع کردی تو ہلاک ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں، بل کہ ملین میں ہوگی۔
9 جنوری 2005 کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے مختلف ممالک میں انسانوں میں برڈ فلو کے ایک سو چھیالیس کیسز کی نشاندہی کی تھی ۔ ان ممالک میں انڈونیشیا، ویت نام، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، چین اور ترکی شامل ہیں۔ برڈ فلو سے 76 اموات واقع ہوئی تھیں۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ ترکی میں اسی سال کے آغاز سے اس بیماری کے کئی واقعات سامنےآئے تھے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں برڈ فلو نسبتاً تیزی سے پھیل ر ہے تھے۔
باعث تشویش امر یہ ہے کہ اس وائرس کی ترکی میں پائی جانے والی قسم وہ تھی جو با آسانی انسانوں اور مرغیوں میں پھیل سکتی ہے۔
اگر عالمی ادارہ صحت نے ترکی میں رپورٹ کیے جانے والے تمام برڈ فلو کیسوں کی تصدیق کردی ہوتی تو یہ بات مزید تشویش کا باعث ہو جاتی کہ یہ بیماری انسانوں میں عام زکام کے وائرس سے گھل مل سکتی ہے اور یوں اس کے تیزی سے پھیلنے کے امکانات کہیں زیادہ بڑھ جائیں گے۔اور یہی وہ خدشہ ہے جس پر دنیا بھر کے ماہرین تشویش کا شکار ہیں۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر کسی انسان کو زکام کے دوران برڈ فلو وائرس متاثر کرجائے تو پھر برڈ فلو کا وائرس عام فلو کی طرح ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہونے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اور اگر ایسا ہوگیا تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ1918 میں پھیلنے والی وبا جس سےکروڑوں اموات واقع ہوئی تھیں، ممکنہ طور پر برڈ فلو ہی تھا۔سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق اگر یہ مرض انسانوں میں پھیلنے والی وبا کی شکل اختیار کرگیا تو اس سے دو ملین سے پچاس ملین افراد کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہے۔
برڈ فلو اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ متاثرہ پرندوں کے فضلے سے یہ وائرس باہر آجاتا ہے اور پھرفضلہ(بیٹ) سوکھنے کے بعد یہ وائرس ہوا میں شامل ہوکر سانس کے ذریعے انسانوں میں داخل ہوسکتا ہے۔بس اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر برڈ فلو کورونا کی طرح انسانوں میں پھیلنے لگا تو اس سے بچنا کس قدر مشکل ہوجائے گا۔یہ فلو اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہےکہ چونکہ پرندے اس وائرس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں اور ہم انسانوں کی طرح چرند وپرند کسی سرحد یا بارڈر سے گھرے ہو ئے ہیں ،اس لیے اسے کسی مخصوص علاقہ تک محدود رکھنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ حفاظتی انتظامات سے پولٹری پرندوں کو اس بیماری سے بچایا جاسکتا ہے، مثلاً جنگلی پرندوں کو اگر پولٹری فارم سے دور رکھا جائے تو مرغیوں میں یہ مرض منتقل نہیں ہوسکتا۔ساتھ ہی ماہرین کی یہ بھی ہدایت ہے کہ موسمی تغیرات کے باعث پرندوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے رجحان پر بھی نظر رکھی جانی چاہیے تاکہ بیماری پھیلنے کے امکانات واضح ہوسکیں۔
اب آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم مرغی کا گوشت کھا سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مرغی کا گوشت کھانا ہرطرح سے محفوظ ہے۔صرف ان افرادکے اس بیماری سے متاثر ہونےکا امکان ہے جو مرغی ذبح کرتے ہیں یا اس کا گوشت کاٹنے کا کام کرتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر گوشت کو ستر ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت پر پکایا جائے تو وہ ہر طرح سے محفوظ ہوجاتاہے۔ اسی طرح انڈوں کو بھی مکمل طور پر پکا کر کھانا چاہیے۔ماہرین کے مطابق اگر گوشت سے کسی قسم کا خطرہ ہے تو وہ صرف اسی صورت میں ہے کہ گوشت کو سکھا کر سونگھا جائے۔

E-mail : [email protected]

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here