ممتاز دانشور محقق صحافی پروفیسر ریاض الرحمٰن شیروانی کا انتقال

0
1477

علی گڑھ ،نیا سویرا لائیو: ، معروف دانشور، ممتاز مصنف، مبصراور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ? عربی کے سابق استاد پروفیسر ریاض الرحمٰن شیروانی کا آج انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر تقریباً 96 سال تھی۔ پروفیسر ریاض الرحمان شیروانی کے پسماندگان میں ایک بیٹے ڈاکٹر مدیح الرحمان شیروانی صہیب اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔پروفیسر شیروانی کے انتقال پر وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان کا انتقال اے ایم یو برادری کے لئے ایک بڑا علمی خسارہ ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ انھوں نے غمزدہ کنبہ سے تعزیت کی اور ہمدری کا اظہار کیا۔ پروفیسر شیروانی ایک متحمل اور بردبار شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے اے ایم یو کے علاوہ کشمیر یونیورسٹی میں بھی تدریسی فرائض انجام دئے۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف، رسالہ ’فکر نو‘ کے مدیر اور کانفرنس گزٹ کے سابق مدیر تھے۔ وہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اعزازی جنرل سکریٹری رہے تھے۔ پروفیسر شیروانی کا تعلق ایک معروف علمی خانوادہ سے تھا۔ان کی آپ بیتی ”دھوپ چھاو¿ں“ اور 1949 سے لے کر 2015 تک اردو کے مختلف اخباروں میں شائع ہوئے مضامین کا مجموعہ ”مسائل و مباحث“ 2018 میں منظر عام پر آئے تھے۔ آپ بیتی میں انھوں نے اپنی طالب علمی کے دور (1941-49) کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ پروفیسر ریاض الرحمٰن شیروانی نے 1947 میں اے ایم یو سے ایم اے کیا۔ وہ جنگ آزادی کے واقعات اور تقسیم ہند کے عینی شاہد تھے۔ انھوں نے اورینٹل کالج، لاہور سے بھی اے ایم (عربی) کیا، جس کا پس منظر یہ ہے کہ اگست 1947 میں جب وہ اپنی بیمار بہن کا کسولی (شملہ) کے ایک اسپتال میں علاج کررہے تھے۔ تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا اور انھیں اسپتال سے زبردستی نکال کر کالکا بھیج دیا گیا۔ وہ نو دن تک ایک پناہ گزین کیمپ میں رہے۔ پھر انھیں لاہور جانے والی ایک ٹرین میں بیٹھادیا گیا۔ لاہور میں ان کی بہن کا انتقال ہوگیا۔ لاہور میں وہ تقریباً دو سال تک پھنسے رہے اور آخرکار انھوں نے اورینٹل کالج، لاہور سے عربی میں اے ایم کیا۔ بڑی جدوجہد کے بعد وہ ہندوستان واپس آپائے۔ ان کے والد عبید الرحمٰن شیروانی اترپردیش قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ پروفیسر ریاض الرحمٰن شیروانی متحدہ قومیت کے تصور کے علمبردار تھے اور ان کا ماننا تھا کہ مذہب اور وطن کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہے۔وہ مولانا ابو الکلام آزاد اور مہاتما گاندھی سے بہت متاثر تھے۔ علی گڑھ میں ان کے آبائی مکان ”حبیب منزل“ میں بابائے قوم مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، رفیع احمد قدوائی، لیاقت علی خاں جیسے لوگوں کا آنا جانا تھا۔ ان کے دادا حبیب الرحمٰن خاں شیروانی کو مولانا ابوالکلام آزاد نے احمد نگر جیل سے خط لکھے تھے، جو ’غبارِ خاطر‘ میں شامل ہیں۔ پروفیسر ریاض الرحمٰن شیروانی علی گڑھ کے دو اردو اخباروں ”نیا ہندوستان“ اور ”جمہور“سے وابستہ رہے، جن کا مقصد عام مسلمانوں کو تنگ نظری و عصبیت سے دور رکھنا اور ان کے اندر سے نفسیاتی علاحدگی کے احساس کو ختم کرنا تھا۔ انھوں نے اہم شخصیات کے انتقال پر کم از کم تیس سوانحی خاکے بھی لکھے، جن میں مولانا ابو الکلام آزاد، مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، رفیع احمد قدوائی، اچاریہ نریندر دیو، کے جی مَشرووالا (گاندھی جی کے اخبار ہریجن کے ایڈیٹر)، شیاما پرساد مکھرجی (ہندو مہاسبھا لیڈر) اور آصف علی وغیرہ شامل ہیں۔ پروفیسر شیروانی کے انتقال کی خبر سے علی گڑھ کی علمی و ادبی برادری میں صف ماتم بچھ گئی اور مختلف شعبوں کے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد حبیب منزل پہونچی اور انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here