ڈاکٹر فیاض احمد (علیگ)
[email protected]
(تیسری اور آخری قسط)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً اس کے ذمہ دار اکثر و بیشتر ڈاکٹر ہیں لیکن کچھ حد تک مریض بھی اس کے ذمہ دار ہیں اس لئے کہ کچھ لوگ خود میڈیکل اسٹور سے دوائیں (جن میں اینٹی بایوٹک بھی شامل ہوتی ہے )لیکر کھا لیتے ہیں وہیں دوسری طرف اکثر مریض سستے علاج کے چکر میں ایسے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں جو صرف ایک دن کی یا چار خوراک دوائیں دیتے ہیں، جس میں اینٹی بایوٹکس بھی شامل ہوتی ہیں۔ اب اگر ایک دن کی دوا سے مریض کو کچھ افاقہ ہو گیا ( لیکن مرض ختم نہیں ہوا) تو وہ دوبارہ دوا لینے نہیں آتااس لئے کہ ڈاکٹر نے اسے بتایا ہی نہیں کہ یہ دوا کتنے دن کھانی ہے ۔مزید ستم یہ کہ اس ایک دن کی دوا میں اکثر و بیشتر کوئی نہ کوئی اسٹیرائڈ(Steroids) بھی شامل ہوتی ہے ۔دونوں ہی صورتیں مریض کی صحت کے لئے خطرناک ہوتی ہیں۔اس لئے کہ ایک دن یا چار خوراک اینٹی بایوٹک یا اسٹیرائیڈکھانے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا۔ ایسا کرنا مریض کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔ مزید برآں،ایسا کرنے سے ایک طرف تو اینٹی بایوٹک کا Résistance بڑھتا جاتا ہے دوسری طرف غیر ضروری طور سے دئے گئے اسٹیرائڈ زکے ضمنی اثرات بھی جسم پر مرتب ہوتے ہیں، جس کا فوری طور پر پتہ نہیں چلتا۔ بیشتر غیر مستند ڈاکٹروں کو تو اینٹی بایوٹکس کی صحیح مقدار خوراک اور اسٹیرائڈ ز کے استعمال کا
طریقہ ہی نہیں پتہ ہوتا ہے جبکہ کچھ مستند ڈاکٹر (سب نہیں) دانستہ طور پراس طرح کی غلط پریکٹس کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہے یہ ہے کہ آج کل کامیاب پریکٹس کا انحصار ڈاکٹر کی تشخیص اور صلاحیت پر نہیں ہے بلکہ اس بات پر ہے کہ ڈاکٹر یہ سمجھ لے کہ مریض ڈاکٹر سے کیا چاہتا ہے؟ ۔اس کو اس بات سے بالکل مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ مریض کے حق میں کیا بہتر ہے؟ اور طبی نقطہ نظر سے اسے کیا کرنا چاہئے؟ بلکہ وہ صرف وہی کرتا ہے جو مریض اس سے چاہتا ہے ۔مریض صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ کم پیسوں میں جلدی صحت یاب ہو کر اپنی روزمرہ کی مصروفیات کو انجام دے سکے ۔ اس لئے اس کی مرضی کے مطابق ڈاکٹر دو چار خوراک دوائیں اسے دے دیتے ہیںاور مستقل ایسا کرنے سے ایک دن ایسا آتا ہے کہ کوئی بھی اینٹی بایوٹک کارگر نہیں رہ جاتی ۔نتیجتاً معمولی بیماری بھی موت کا سبب بن جاتی ہے۔
دوسری طرف نرسنگ ہومز اور ہاسپٹل کا معاملہ ہے جہاں مریض گائوں دیہات اور جھوپڑ پٹی کے ڈاکٹروں سے ہو کر پہنچتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اتنی اینٹی بایوٹکس اور اسٹیرائڈ زکھا چکا ہوتا ہے کہ اب کسی بھی ایک اینٹی بایوٹک اور متعینہ مقدار کی دیگردوائوںکے اثرات رونما ہونے میں کافی وقت لگ سکتا ہے جو مریض کے پاس نہیں ہے اس لئے کچھ نرسنگ ہومز اور ہاسپٹل (سب نہیں) کے کچھ ڈاکٹر اسے دو دو تین تین اینٹی بایوٹکس کے ساتھ ہی دیگر ادویہ بھی اوور ڈوز دینا شروع کرتے ہیں تاکہ مریض جلدی ٹھیک ہو جائے اور ان کی ساکھ بنی رہے۔ان ڈاکٹروں کا یہ رویہ بھی پیشہ ورانہ بد دیانتی اورمریض کے ساتھ نا انصافی ہے لیکن کچھ ڈاکٹر اپنا نام اور اپنی ساکھ بچانے کے لئے دانستہ طور پرایسا کرتے ہیں ۔اس طریقہ علاج سے مریض کو فوری آرام تو ضرور ملتا ہے لیکن طویل مدت (Long Term) کے لحاظ سے نقصان ہوتا ہے۔ مزید برآں اوورڈوز(Over Dose)دوائوں اور غیر ضروری اینٹی بایوٹکس کے نتیجہ میں ان کے ضمنی اثرات کے علاوہ بسا اوقات جگر اور گردے تک خراب ہو جاتے ہیں ۔میڈیکل سائنس کی تحقیقات کے مطابق درد کی دوائوں (NSAIDS) جیسے Ibuprofen،Naproxen وغیرہ ، قروح معدہ (Ulcer) میں استعمال ہونے والی مختلف PPIs (Proton Pump Inhibitors) ادویہ اور اینٹی بایوٹکس جیسے Penicillin، Sulfonamides، Cephalosporins وغیرہ کا غیر ضروری طور باربار استعمال یا مقدار خوراک سے زیادہ استعمال حتی کہ Herbal Supplements کا بھی ،ضرورت سے زیادہ یاغیر ضروری استعمال گردوں کے مزمن امراض (Chronic Kidney Diseases) کا سبب بن سکتا ہے ۔ اسی طرح ڈاکٹر کے نسخہ کے بغیربکنے والی بعض دوائوں( On The Counter (OTC) Products) جیسے Ibuprofen،Naproxen، Aspirin وغیرہ اور اینٹی بایوٹکس و اینٹی فنگلز (Antifungals) کاکثرت استعمال جگر کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
آج کل بیشتر امراض غیر فطری طرز زندگی،قوانین قدرت سے انحراف اور مذہب سے دوری کانتیجہ ہیں۔اسلام نے زندگی کے تمام گوشوں کے ساتھ ہی صحت و مرض سے متعلق بھی مکمل رہنمائی کی ہے۔کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اصول بھی بتائے ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنی صحت کی حفاظت کے ساتھ ہی بہت سے متعدی و غیر متعدی امراض سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ذاتی حفظان صحت(Personal Hygiene ) اور صاف صفائی پر خاص دھیان دیں۔
کھانے پینے میں اعتدال رکھیں۔
روزآنہ ہلکی پھلکی ورزش یا چہل قدمی ضرورکریں ۔
اگر بیمار پڑ جائیں اور علاج کی ضرورت ہو تو خود علاجی (Self-Medication) کے بجائے کسی مستند اور ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں اور مکمل جانچ کے بعد ہی دوا لیں ۔
کوئی بھی آپریشن یا Surgical Procedure کرانے سے پہلے اس میدان کے دیگر ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ ضرور کریں۔
ڈاکٹروں کو چاہئے کہ معاہدہ بقراطیہ پر سختی سے عمل کرنے کے ساتھ ہی اس پیشہ کی عظمت کو برقرا رکھیں اور مریضوں کے علاج کے تئیں ایماندار رہیں۔
مسلم ڈاکٹروں کو چاہئے کہ معاہدہ بقراطیہ کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کو بھی پیش نظر رکھیں ۔اس لئے کہ جب آپ کے دل میں خدا کا خوف ہی نہیں ہوگا تو صرف معاہدہ بقراطیہ آپ کو غلط پریکٹس سے نہیں روک سکے گا ۔
ڈاکٹر حضرات روزآنہ سونے سے قبل ایک بار اپنا احتساب ضرور کریں کہ آج انہوں نے کسی مریض کے ساتھ کسی طرح کی پیشہ
ورانہ بد دیانتی تو نہیں کی ہے ۔
رفاہی تنظیموں اور جماعتوں کو چاہئے کہ غریب بستیوں اور آبادیوں میںرفاہی مطب اور ہاسپٹل کا قیام کریں ،جہاں غریب مریضوںکو سستااور مناسب علاج مل سکے۔ ڈاکٹروں کو بھی چاہئے کہ ایسے رفاہی مطب اور ہاسپٹل میں ،کم ازکم ہفتہ میں ایک دن یا کچھ گھنٹے (بلا شرط و بلا معاوضہ)غریب مریضوں کی خدمت کے لئے ضرور دیں ۔
کچھ مستند ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جو جانے انجانے میں محض پیسوں کے لالچ میں مریض کو ایسے انجکشن اور دوائیں دیتے ہیں ،جو مریض کی صحت کے لیے نقصان دہ تو ہو،لیکن فوری طور پر محسوس نہ ہواور وہ ان کی دوائوں کا ایساعادی ہو جائے کہ بار بار انہیں کے پاس آنے پر مجبور ہو، اور کسی دوسرے ڈاکٹر کی دوا اسے فائدہ ہی نہ کرے ۔ اس مقصد کے لئے یہ لوگ غیر ضروری طور پر Steroids ، Anabolic Steroids اوردو دو تین تین اینٹی بایوٹکس کے ساتھ ہی دیگر دواؤں کا بھی(زیادہ ڈوز)Overdoseاستعمال کرتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹروں کو نہ تو معاہدہ بقراطیہ کا پاس ہوتا ہے، نہ ہی قرآن وحدیث کی تعلیمات کا لحاظ ہو تا ہے ۔بڑی حیرت اس وقت ہوتی ہے جب کچھ مسلم ڈاکٹر (سب نہیں)جو نماز روزہ کرتے ہوئے ،باقاعدہ اسلامی وضع قطع میں بیٹھ کر اس طرح کی گھٹیا پریکٹس کرتے ہیں۔کرسی پر بیٹھ کر دن بھر دھوکہ اور فراڈ کرتے ہیں ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں