غوث سیوانی، نئی دہلی
[email protected]
گزشتہ دنوں راجدھانی دہلی کے قریب واقع ،یوپی کے شہر غازی آباد کے ایک کورٹ میں کچھ لوگ ایک لڑکے کو پیٹ رہے تھے۔ لڑکے کا قصوریہ تھا کہ وہ مسلمان تھا اور ایک ہندو لڑکی سے شادی کرنے کے لئے کورٹ آیا تھا۔ شادی دونوں کی مرضی سے ہونے جارہی تھی اور قانون کے مطابق ہورہی تھی۔ دونوں میں سے کسی نے بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی مگر یہاں موجودبھیڑ کویہ قبول نہیں تھا کہ ایک مسلمان لڑکا ،کسی ہندو لڑکی سے شادی کرے۔ یہ سب کچھ وزیراعظم کے آفس سے چند کیلو میٹر کے فاصلے پر ہورہا تھا۔ یہ واقعہ ایک مثال ہے اور یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ جب ملک کی راجدھانی کے آس پاس بھی قانون کا راج نہیں، بھیڑ کا قانون چلتا ہے تو ملک کے دور افتادہ علاقوں اور پسماندہ گاؤوں کی کیا حالت ہوگی۔ ویسے بھی ان دنوں ہندوستان میں ملک کا قانون نہیں چل رہا ہے بلکہ بھیڑ کا قانون چل رہا ہے۔ کہیں بھی یہ بھیڑکسی کو بھی گوکشی کے الزام میں قتل کرسکتی ہے، بچہ چور اور ڈائن کہہ کر مارسکتی ہے اور حکومت، پولس وانتظامیہ خاموش تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس ملک میں ایسی لاقانونیت کبھی نہیں رہی اور بھیڑ ،اتنی خطرناک اور خونخوار ماضی میں کبھی نہیں دکھائی پڑی تھی۔ویسے قانون کو ہاتھ میں لینے کا کام صرف خونی بھیڑ نہیں کر رہی ہے بلکہ حکومتیں بھی کر رہی ہیں۔ ادھر کچھ دن سے لگاتار خبریں آرہی تھیں کہ یوپی پولس سماج دشمن عناصر کا انکاؤنٹر کر رہی ہے اور یہاں کے غنڈے مقامی پولس کے خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں ،اب حال ہی میں یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا ہے اور کورٹ ان تمام انکاؤنٹرس کی خبر لینے میں مصروف ہے جو حکومت کے دعووں کے مطابق فرضی نہیں، حقیقی ہیں۔ ویسے اس خبر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یوپی میں غنڈوں کے لاکھ انکاؤنٹر ہوئے ہوں مگر ریاست میں غنڈہ گردی بڑھ گئی ہے ۔ یوگی راج میں اترپردیش، غنڈوں کی محفوظ پناہ گاہ بنتا جارہا ہے۔ دوسری ریاستوں کے غنڈے اب اپنی ریاست کی پولس سے بچنے کے لئے یوپی کا رخ کر رہے ہیں ۔ یہی نہیں، یوپی میں ان دنوں غنڈوں میں علاقے تقسیم ہورہے ہیں اور جس طرح کبھی ممبئی میں مختلف گینگ اپنے علاقے بانٹ لیا کرتے تھے، اسی طرح یوپی میں بھی ہورہا ہے۔ یوپی میں جرائم پیشہ عناصر، بی جے پی کی ممبر شپ بھی لے رہے ہیں اور بعض تو اہم عہدے بھی حاصل کرچکے ہیں۔اس کی کئی مثالیں حالیہ ایام میں سامنے آئی ہیں۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ حالیہ ایام میں اترپردیش میں جرائم بڑھ گئے ہیں اور لاء اینڈ آرڈر بالکل ختم ہوچکا ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں مگر ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کے حالات کو کنٹرول کرنے میں پوری طرح ناکام رہے ہیں۔ وہ یوپی کو بھی ایک مٹھ کی طرح ہی چلا رہے ہیں۔
گائے محفوظ،انسان غیرمحفوظ
اس وقت ملک کی بیشتر ریاستوں میں بھاجپا کی حکومت ہے اور لاقانونیت، اس کی شناخت بن چکی ہے ، جس کی ایک شکل’’موب لنچنگ‘‘یعنی بھیڑ کے ذریعے تشدد اور قتل ہے۔ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کے دلوں سے قانون کا خوف نکل چکا ہے اور وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں مگر پہلے ایسا کبھی کبھی ہوتا تھا اور اب یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ آئے دن معصوم لوگوں کو بھیڑ کے زریعے پیٹنے کے واقعات ہورہے ہیں مگر اس قسم کے واقعات میں عموماً شکار مسلمان ہی ہوتا ہے۔حال ہی کی بات ہے کہ راجستھان کے الور میں اکبرخان کو گائے اسمگلنگ کے الزام میں قتل کردیا گیا اور اس کے بھائی اسلم نے بھاگ کر جان بچائی۔اس سے پہلے بھی یہاں کئی لوگوں کو خونی گورکھشکوں کی بھیڑ موت کے گھات اتار چکی ہے۔ماضی قریب کی بات ہے کہ اترپردیش کے ضلع ہاپوڑ میں گوکشی کے شک میں د و مسلمانوں کو بھیڑ نے، نہ صرف بری طرح پیٹا، بلکہ موت کے بعدایک شخص کی لاش کو گھسیٹ کر درندگی کی انتہا بھی کردی۔یہ واقعہ گزشتہ18 جون کا ہے۔ ضلع کے پلکھوا علاقے میں دو افراد پر بھیڑ نے محض اس لئے حملہ کردیا کہ اسے شک تھا کہ وہ اپنے ساتھ دو گائیں اور ایک بچھیا ذبح کرنے کے مقصد سے لے جارہے ہیں۔دونوں میں سے ایک شخص کی موت ہوگئی، جب کہ دوسرے شخص کو زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا۔حد تو یہ ہے کہ پولس کے موقع واردات پر پہنچنے کے بعد بھی زود کوب کا سلسلہ جاری رہا ،جس کی تصدیق کچھ ویڈیو اور تصویروں سے ہوتی ہے جو اب سوشل میڈیا پر پھیل چکی ہیں۔
:بچہ چوری کی افواہیں : گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے دھولے ضلع میں، بچہ چوری کی افواہ کی شک کی بنیاد پر ہزاروں کی بھیڑ نے پانچ افراد کو قتل کردیا۔ یہ پانچوں افراد ایک خانہ بدوش قبیلے سے تھے جو گھوم گھوم کر بھیک مانگتے ہیں۔ یہ سب سوشل میڈیا پر پھیلی افواہوں کا شکارہوگئے۔پولیس کی تحقیقات سے ظاہر ہے کہ ایک مشتعل بھیڑ، ہفتہ وار مارکیٹ میں، بچے چوروں کی تلاش کر رہی تھی۔ اسی بیچ انہوں نے بچے سے بات کرنے والے ایک شخص کو دیکھا۔بھیڑ نے اس شخص سے بہت سے سوالات پوچھے اور اطمینان بخش جواب نہ دینے پراسے مارڈالا۔اس دوران، پولیس نے ان کو بچانے کی کوشش بھی کی تھی، لیکن بھیڑ کے آگے، اس کی ایک نہ چلی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس واقعے کے دوران دھولے کے رین پاڈا میں 5000 افراد کی بھیڑ جمع ہو گئی تھی، لیکن تمام لوگ گونگے ہوکر تماشا دیکھتے رہے۔مبینہ طور پر بھیڑ نے پانچ افراد کو کوپہلے گھیر لیا اوران کو ایک کمرے میں بند کر دیا اور پھر مارا۔ا س بارے میں جانکاری ملنے کے بعد، مقامی پولیس نے انہیں ،گرام پنچایت کے دفتر میں بند کردیا تاکہ بھیڑ سے انھیں بچایا جاسکے مگر اسی بیچ ،زیادہ سے زیادہ گاؤں والے جمع ہوگئے اور انہیں دروازہ توڑکر باہر نکال کر مارڈالا۔خبروں کے مطابق بھیڑ نے، پولیس اہلکاروں پر بھی حملہ کیا،جس میں تین پولیس والے زخمی ہو گئے۔ یہ پورا معاملہ ایک بچے کی گمشدگی کی خبر کے ساتھ شروع ہوا تھا،تاہم، پولیس نے بعد میں وضاحت کی کہ گاؤں سے کوئی بچہ چوری نہیں ہوا تھا۔
خونخوار بھیڑ کی شکار ریاستیں
سوشل میڈیا پر بچہ چوری کی افواہوں نے 20 مئی سے اب تک قریب 14 لوگوں کی جان لے لی ہے۔ان افواہوں پر لوگوں نے بھروسہ کر، بھیڑ کی شکل اختیار کرلی اور کئی لوگوں پر حملہ کر انہیں پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔پولیس نے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے، ایسے میسج اور ویڈیوز پر یقین نہ کرنے کے لئے کہا ہے مگر اب تک اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں پڑ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں میں کچھ معصوم لوگوں پر شک کرنے اور انھیں ہراساں کرنے کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔میڈیا کی خبروں کے مطابق گزشتہ کچھ دنوں میں موب لنچنگ کے واقعات مغربی بنگال، آسام، تریپورہ، آندھرا پردیش، تلنگانہ، مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور اڑیسہ سے سامنے آئے ہیں۔ آسام کے ضلع کربی آنگ لانگ میں پچھلے دنوں لوگوں نے چور سمجھ کر دو افراد کا قتل کردیا۔ اسی طرح جھارکھنڈ کے گڈا ضلع میں مویشی چور کے شک میں، دو افراد کو مار ڈالا گیا۔ مغربی بنگال کے مالدہ ضلع میں، بچہ چور ہونے کے شک میں ایک شخص کو پییٹ پییٹ کر مارا گیا۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع میں پیش آیا، جہاں لٹیرا سمجھ کر ، دو افراد کو مار ڈالا گیا۔ موب لنچنگ کا ایک تازہ واقعہ تریپورہ سے سامنے آیا ہے۔یہاں گزشتہ28 جون کومحض شک کی بنیاد پر دو لوگوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔پہلے واقعہ میں ایک شخص کا قتل ہوا اور کچھ لوگ زخمی ہوئے، جبکہ دوسرے واقعے میں ریاستی حکومت کی طرف سے سروس پر رکھے گئے سماجی کارکن سوکانتا چکرورتی کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔سوکانتا کو تریپورہ حکومت نے اس کام پر لگا رکھا تھا کہ وہ لوگوں کو سوشل میڈیا کی افواہوں کو لے کربیدار کریں مگر وہ خود انھیں افواہوں کا شکار ہوگئے۔اس سماجی کارکن کو جس طرح سے قتل کیا گیا، اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ دور دراز میں آباد، لوگوں کو افواہوں کے بارے میں بیدار کرنا کتنا مشکل کام ہے۔
سپریم کورٹ کی مداخلت
سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں ایک درخواسست پرسماعت کرتے ہوئے بھیڑ کے ذریعے تشددکو روکنے کی ذمہ داری حکومت کے کندھے پر ڈال دی تھی۔چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس ایم خان اور جسٹس ایس وائی چندرچوڑ نے سخت الفاظ میں کہا کہ کوئی شخص اپنے ہاتھوں میں قانون نہیں لے سکتا۔بینچ نے کہا کہ قانون و امن، ریاست کا معاملہ ہے اور اس کے لئے، ہر ریاستی حکومت ذمہ دار ہوگی۔ سماعت کے دوران، بینچ نے کہا کہ گائے کے تحفظ کے نام پر تشدد کے واقعات اصل میں بھیڑ کی طرف سے تشدد کے معاملات ہیں اور یہ جرم ہے۔ غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 6 ستمبر کو تمام ریاستوں کوحکم دیا تھا کہ گائے کی حفاظت کے نام پر تشدد کو روکنے کے لئے سخت کارروائی کی جائے۔اس کے لئے ، سینئر پولیس افسران کو ہر ایک ضلع میں تعینات کیا جانا چاہئے اور ان عناصر کے خلاف فوری طور پر کاروائی ہونی چاہیئے، جو اپنا قانون چلاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ، سپریم کورٹ نے راجستھان، ہریانہ اور اتر پردیش کی حکومتوں سے اس سلسلے میں جواب بھی مانگا ہے۔ بھیڑ کی تشدد کے خلاف بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پوتے تشار گاندھی نے کورٹ میں درخواست دی ہے۔
’’جنگل راج ‘‘کا محاورہ جو حقیقت بن گیا
کوکشی کے نام پر بھیڑ کے ذریعے قتل پر اظہار رائے کرتے ہوئے آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے بی جے پی پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے، اقتدار میں آنے کے بعد سے، مسلمانوں اور دلتوں کے لئے کوئی ،وقار اور احترام نہیں بچاہے۔ اسد الدین اویسی نے کہا کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے، مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف نفرت اور فرقہ پرستی کا زہر پھیلا ہے۔جبکہ سماجی کارکن جان دیال کا کہنا ہے کہ ملک کے کئی حصوں سے، اسی طرح کی ہلاکتوں کی خبریں آرہی ہیں جن سے ظاہر ہے کہ سماج کو تقسیم کرنے کے لئے کوئی بڑی سیاسی سازش رچی جا رہی ہے۔
’’جنگل راج‘‘ایک محاروہ ہے مگربھارت میں یہ حقیقت کا روپ لے چکا ہے۔ پولس نہ انتظامیہ،حکومت نہ عدالت، یہاں تو بھیڑ ہی فیصلہ کرنے لگی ہے اور سزا بھی دینے لگی ہے۔ پہلے سوشل میڈیا پرجھوٹی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور بھیڑ جمع ہوکر کسی بھی بے گناہ کو پیٹ پیٹ کر مارڈالتی ہے۔ جب یوپی کے دادری میں اخلاق کو گوکشی کی جھوٹی افواہ پر قتل کیا گیا تھا تب مرکزی حکومت خاموش رہی کیونکہ نشانے پر مسلمان تھے اور اس سے بی جے پی کو سیاسی فائدہ مل رہا تھا مگر اب جھوٹی افواہوں اور’’ بھیڑ کے انصاف ‘‘نشانے پر پورا ہندوستان ہے اور تمام لوگ ہیں۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اب تک درجنوں افراد بھیڑ کا شکار ہوچکے ہیں مگرحکومت نہیں جاگی ہے، جب کہ سپریم کورٹ نے اس کی نیند میں خلل بھی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔بہرحال یہ کمزور قانون اورنظام کی علامت ہے کہ مجرموں کوقانون کا کوئی خوف نہیں رہا۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں