ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
لاک ڈاؤن کے نتیجے میں عوام جس بھکمری کا شکار ہیں اس کے تدارک کے لیے اصحابِ خیر کا جذبۂ انفاق ماشاء اللہ جوش میں ہے، _ وہ بڑے پیمانے پر کھانا پکاکر بھی تقسیم کررہے ہیں اور راشن کِٹس تیار کرکے بھی مستحقین تک پہنچا رہے ہیں، _ ان کی یہ جدّوجہد بڑی قابلِ مبارک باد اور لائقِ تحسین ہے _ اس پر وہ ان شاء اللہ بھرپور اجر کے مستحق ہوں گے، _ اس موقع پر ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دہانی مقصود ہے کہ کہیں وہ نظر سے اوجھل نہ ہوجائے ،وہ ہے ان لوگوں کی طرف دستِ تعاون بڑھانا جو اپنی ضرورت مندی کا اظہار اپنی زبان سے نہیں کرسکتے ، جن کی سفید پوشی ان کے منھ پر تالے ڈال دیتی ہے ، جو فاقوں پر فاقے تو کرسکتے ہیں ، لیکن اپنے فقر کی بھنک اپنے قریبی لوگوں کو بھی لگنے دینا گوارا نہیں کرتے۔
قرآن مجید میں دو مقامات پر اہل ایمان کے کچھ اوصاف بیان کیے گئے ہیں _ ان میں سے ایک وصف یہ ہے :
وَالَّذِينَ فِی اَموَالِہم حَقٌّ مَّعلُومٌ لِّلسَّآئِلِ وَالمحروم
’’اور جن کے مالوں میں ایک حق مقرر ہے ، سائل (مانگنے والے) کا بھی اور محروم کا بھی‘‘
یہ سورۂ المعارج کی آیات 24 _ 25 ہیں _ یہی مضمون ایک لفظ (معلوم) کی کمی کے ساتھ سورۂ الذاريات :19 میں بھی آیا ہے _
ان آیات میں دو الفاظ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں : ایک ‘حق اور دوسرا ‘محروم۔ _ حق کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان جب اپنی کمائی میں سے کسی کو کچھ دیتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ وہ اس پر احسان کر رہے ہیں ، بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات مستحضر رہتی ہے کہ ان کے مال میں یہ ان کا حق ہے، _ اس طرح انہیں دے کر وہ ان کے حق سے سبک دوش ہو رہے ہیں، _ ان آیات میں ‘محروم کا لفظ ‘سائل (مانگنے والا) کے مقابلے میں آیا ہے ، جس سے اس کے معنیٰ متعیّن ہوتے ہیں _ اس کا مطلب ہے وہ شخص جو ضرورت مند ہونے کے باوجود مانگنے کی ہمّت نہ کرسکے اور ہاتھ نہ پھیلائے۔
سماج میں ہمارے ارد گرد بہت سے سفید پوش ہوسکتے ہیں : ہمارے رشتے دار ، ہمارے دوست احباب ، ہمارے دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین ، محلوں میں پھیری لگاکر روزمرّہ کے سامان بیچنے والے ، ٹھیلے لگانے والے اور خوانچہ فروش ، وغیرہ _ ہم اپنے دماغ پر تھوڑا سا زور دیں تو ایسے متعدد سفید پوشوں کی تصویریں ہمارے سامنے آجائیں گی ،_ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ان کی غیرت اور خود داری کو مجروح نہ ہونے دیں اور اس موقع پر ان کا اس طرح تعاون کریں کہ انہیں شرمندگی کا ذرا بھی احساس نہ ہو ، ہم عام صدقات و خیرات کے علاوہ زکوٰۃ سے بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں _ دینے والی کی نیت ہونی چاہیے کہ وہ زکوٰۃ ادا کررہا ہے _ جس کو زکوٰۃ کی رقم دی جارہی ہے، اس کا جاننا ضروری نہیں کہ اس کو دی جانے والی رقم زکوٰۃ ہے۔
شریعت میں انفاق کے معاملے میں پوشیدگی کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے ۔ روزِ قیامت جو لوگ عرش الٰہی کے سایے میں ہوں گے ، اُس وقت جب عرشِ الٰہی کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا، ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا جو اس طرح خرچ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہونے پائے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے _ ( بخاری :660 ، مسلم:1031)
موجودہ بحران میں بہت سے لوگ دل کھول کر اپنا مال لُٹا رہے ہیں ، وہ بڑی بڑی رقموں کا اعلان کر رہے ہیں _ انھوں نے بڑے بڑے لنگر کھول رکھے ہیں ، جن کے ذریعے بلا تفریق مذہب و ملّت انسانوں کی بھوک مٹا رہے ہیں _ ایسے میں وہ لوگ بارگاہِ الٰہی میں خصوصی اجر کے مستحق ہوں گے جو نام و نمود سے بے پروا ہوکر بہت خاموشی سے سماج کے ایسے سفید پوشوں کی مدد کررہے ہیں جن کی خودداری انہیں ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتی اور جن پر عموماً اصحابِ خیر کی نظر نہیں پڑتی۔ _
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں