آسام حراستی کیمپ میں ہوئے27  افراد کی موت اور این آر سی کے خلاف احتجاجی مارچ 

0
1700
All kind of website designing

این آر سی کا کھیل

مونگیر:جس شخص نے اپنی پوری جوانی آسام میں در اندازوں کو نکالنے کی مہم میں صرف کر دی اور آخر میں وہی شخص نا امید ہوکر کہے کہ ہم نے ایک پاگل پن میں زندگی تباہ کر دی تو اسے آپ کیا کہیں گے ۔ یہ شخص ہے میرنال تعلقدار۔ جو آسام کے جانے ما نے صحافی ہیں۔ این آر سی پر ان کی تحریر کردہ کتاب ’’ پوسٹ کالونیل آسام‘‘ کا اجرا چیف جسٹس رنجن گگوئی نے ابھی حال میں ہی کیا ہے۔ ان کی دوسری کتاب ’’این آر سی کا کھیل‘‘چند دنوں بعد منظر عام پر آنے والی ہے۔ وہ این آر سی معاملات میں مرکزی حکومت کو صلاح دینے والی کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ آل آسام اسٹوڈنٹ یونین سے جڑے رہے ہیں۔ 
انہوںنے کہا کہ میری اور مجھ جیسے ہزاروں لوگو ں کی جوانی آسام میں درندازوں کو نکالنے کی تحریک کے دوران قربان ہو گئی۔ ہم میں جوش تھا لیکن ہوش نہیں تھا۔ ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم جن کو آسام سے باہر نکالنے کےلئے تحریک چلا رہے ہیں ان کی شناخت کس طرح کی جائے گی اور انہیں باہر نکالنے کا عمل کیا ہوگا۔ 1979میں ہماری تحریک شروع ہوئی اور 1985 ہم برسراقتدار آ گئے۔ پرفل مہنت اس وقت ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ہاسٹل سے سیدھے وزیر اعلیٰ رہائش گاہ پہنچے تھے۔ پانچ سال کیسے گزر گیا ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔ راجیو گاندھی نے صحیح کیا کہ ہمیں انتظام لڑا کر اقتدار میں بٹھایا۔ آئندہ سال ہم انتخاب ہار گئے لیکن اس کے بعد کے انتخاب میں پھر سے برسراقتدار آئے۔ دوسرے پانچ برسوں میں بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ بنگلہ دیشیوں کی شناخت کیسے کی جائے۔ لوگ ہم سے اور ہم اپنے آپ سے نا امید تھے لیکن درندازوں کے خلاف مہم جاری تھی ۔ کافی عرصہ بعد ہم کو یہ طریقہ بتایا گیا کہ مرکزی حکومت میں ہوم سکریٹری رہ چکے گوپال کرشن پلئی کے سبھی آسامیوں کی شہریت جانچ کرائو اور اپنی شہریت بھی جانچ کرائو اور جو باہر رہ جائیں وہ باہری ہیں۔ چور کو پکڑنے کےلئے کلاس روم میں تمام بچوں کی تلاشی والا آئڈیا ہمیں بہت پسند آیا۔ لیکن اس وقت نہیں معلوم تھا کہ سوا تین کروڑ لوگ کاغذات کے لئے پریشان ہو کر ادھر ادھر بھاگئیں گے تو کیا ہوگا۔ بعد میں چیف جسٹس رنجن گگوئی نے قانونی مدد کی اور خود اس میں دلچسپی لی۔ اس میں آسام کے ایک شخص پردیپ بھوئیاں جو ایک اسکول کے پرنسپل ہیں ان کا اہم رول رہا۔ انہوں نے ہی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی اور 60لاکھ روپیہ صرف کیا۔ بعد میں انہی کی عرض پر سپریم کورٹ نے حکم نامہ جاری کیا اور این آر سی وجود میں آیا۔
 این آر سی کے وجود میں آتے ہی ہم یہ سوچنے لگے کہ یہ ہم نے کیا کر ڈالا۔ خود ہمارے گھر کے لوگوں کے نام غلط ہو گئے۔ سوچئے یہ کیسی صورتحال تھی کہ جو لوگ دراندازوں کو باہر نکالنے کےلئے تحرک چلا رہے تھے خود ان کے اہل خانہ کے نام این آر سی کے فہرست میں شامل نہیں تھے۔ بہر حال یہ غلطیاں بعد میں دور ہوئیں۔ 42ہزار ملازمین چار برسوں تک کروڑوں کاغذات کو جمع کرتے رہے اور اس کی تصدیق چلتی رہی۔ آسام جیسے پاگل ہو گیا تھا۔ ایک ایک کاغذ کی تصدیق کے لئے دوسری ریاستوں کا چکر لگانا پڑتا تھا۔ جسے کسی کے دادا 1971 کے قبل بہار یا راجستھان کے کسی اسکول میں پڑھے تھے تو اسے دادا کا اسکول سرٹیفکیٹ لینے کے لئے کئی بار انہیں جانا پڑا۔ لاکھوں روپیہ خرچ کیا۔ سیکڑوں لوگوں نے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ کئی لوگ دفتری چکر میں حرکت قلب بند ہونے سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ ہم نے اپنے لوگوں کو کتنی تکلیف دی اور آخر میں کیا ہوا۔ پہلے 40لاکھ لوگ این آر سی سے باہر ہو گئے۔ اب 19لاکھ سے زائد لوگ این آر سی سے باہر ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ آخر میں پانچ یا تین لاکھ  لوگ رہ جائیں گے تو ہم ان کا کیا کریں۔ ہم لوگوں نے یہ سب پہلے نہیں سوچا تھا۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہ مسئلہ اس قدر انسانی پہلوئوں سے جڑا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اتنے لوگوں کو نہ تو واپس بنگلہ دیش بھیج سکیں گے اور نہ ہی انہیں برہم پتر ندی میں غرق کر سکیں گے اور نہ ہی جیل میں رکھ سکیں گے تو آخر میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ ورک پرمٹ دیا جائے اور این آر سی سے پیچھا چھڑا لیا جائے گا۔ مرکزی حکومت دوسری ریاستوں میں بھی این آر سی نافذ کرنے کی بات کر رہی ہے لیکن اسے آسام کا تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ 
دوسری جانب مظفرپور پور میں آسام کے حراستی کیمپوں میں ، NRC کی حتمی فہرست سے قبل 25 افراد کی موت ہوگئی ، اس کے بعد دلال چندر پال اور پھلو داس کی موت ہوئی۔ ان خیالات کا اظہار سی پی ایم ایل مظفرپور کی جانب سے،آسام حراستی کیمپ میں ہوئے 27اموات اور این آرسی نافذ کیےجانے کےخلاف نکالے گئے احتجاجی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے سی پی ایم ایل مظفرپور کے ٹاؤن سیکریٹری سورج کمار سنگھ نے کیا سورج کمار نے کہا کہ – دلال پال اور پھلو داس کے اہل خانہ نے ان کی لاشوں کو لینے سے انکار کردیا ، یہ کہتے ہوئے کہ – اگر وہ بنگلہ دیشی تھے تو ، ان کے اہل خانہ کو بنگلہ دیش میں ڈھونڈیں ، اور لاش بنگلہ دیش بھیجیں۔ اگر نہیں تو ، غور کریں کہ وہ ہندوستان کے شہری تھے جنہیں حکومت نے حراستی کیمپ میں ہلاک کیا تھا۔
 انہوں نے کہا کہ امیت شاہ اب پورے ملک میں NRC کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، جس میں سب کو کاغذات کے ذریعہ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ 1951 میں ان کےآبا ؤ اجداد اس ملک کے رائے دہندگان تھے جب کہ حقیت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بی پی ایل کی فہرست ، ووٹر لسٹ ، کی فہرست میں غریبوں کو شامل نہیں کیاجاتاہے ۔ وہ 1951 کے اپنے آباؤ اجداد کے کاغذات کہاں سے لائیں گے؟ سورج کمار سنگھ نے کہا کہ اگر وہ نہیں لاتے ہیں تو انھیں حراستی کیمپ میں ڈال دیا جائے گا۔ مودی شاہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کو ملک سے بے دخل کردیا جائے گا ، لیکن اگر آپ ہندو ہیں یا غیر مسلم ، تو ہم آپ کو شہریت کے قانون میں ترمیم کرکے مہاجر مانیں گے۔ ملک کے شہریوں کو خطرہ ہے کہ وہ یا تو حراستی کیمپ میں مارے جائیں گے ، یا شہریوں کی بجائے مہاجر بنائے جائیں گے۔ اس موقع پر سی پی آئی ایم مظفرپور ضلعی کمیٹی کے رکن پروفیسر اروند کمار ڈے نے وزیر داخلہ امت شاہ کے این آرسی سے متعلق دیئے گئے بیان کو دستورہند میں دیئےگئے مساوات کے بنیادی حق کےمنافی قراردیتے ہوئےکہا کہ ملک کےوزیرداخلہ کی طرف سےاس طرح کا بیان نا مناسب ہے۔ انہوں نےکہا کہ مذہبی شناخت کی بنیاد پرکسی بھی طرح کی تفریق دستورہند کی دفعہ 14-15کےمنافی اورمسلمہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ وزیر داخلہ کے بیان سے یہ صاف ظاہرہوتا ہےکے ڈیٹنشن کیمپوں میں صرف مسلمان بند کئے جائیں گے۔ 
اگر ایسا ہوا تو اس سےعالمی سطح پرہندوستان کی زبردست بدنامی ہوگی اورملک کے دشمنوں کو ہندوستان کورسوا کرنےکا مضبوط حربہ مل جائے گا۔اروند کمار نے کہاکہ وزیر داخلہ کے بیان سے یہ پیغام جارہا ہے کہ وہ ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنارہے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں باہمی منافرت، دوری اور مسلم اقلیت کے تئیں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوگا۔ احتجاجی مارچ سی پی آئی ایم ایل کے ضلعی دفتر واقع ہری سبھا چوک سے نکالا گیا اور کلیانی چوک،موتی چھیل،تلک میدان روڈ، جواہر لال روڈ،ہوتے ہوئے فلک شگاف نعروں، ڈٹینشن کیمپ میں ہوئے موت کے ذمہ دار مودی شاہ جواب دو،این آرسی کا کالا قانو ملک پرتھوپنا بند کرو،جیسے نعروں کے ساتھ پھر پارٹی دفتر پہنچ کر اختتام ہوا،اس موقع پر انصاف منچ بہار کے ریاستی نائب صدر آفتاب عالم، فہدزماں، اکبر اعظم صدیقی، اعجاز احمد، سی پی آئی ایم ایل کے لیڈران، سترودھن سہنی، منوج یادو،پرشو رام پاٹھک،ہوریل رائے،سروج،راہل کمار سنگھ، دیپک کمار سنگھ،اعظم، امتیاز ،شکل ٹھاکر وغیرہ بھی خصوصی طور پر موجود تھے ۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here