محمد علم اللہ ، دہلی
جماعت اسلامی ہند کے ترجمان اخبار ہفت روزہ دعوت کے پہلے شمارہ کا اجرا مولانا سیدجلال الدین عمری،ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں، انجینئر سعادت اللہ حسینی (امیر جماعت جماعت اسلامی ہند)اور انجینئرمحمد سلیم صاحبان کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اجراکی یہ تقریب26 اکتوبر2019 کوانتہائی تزک و احتشام کے ساتھ جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر میں جو کہ ابوالفضل انکلیونئی دہلی (دعوت نگر)میں واقع ہے انجام پائی۔
سہ روزہ دعوت کو بند کئے جانے کے بعد پائی جانے والی بے چینیوں اورتجسس کے درمیان جماعت اسلامی ہندکے ارباب حل و عقد کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ہفتہ وار اخبار کی شکل میں جب ’دعوت‘ایک بارپھرمنظرعام پر آئے گاتو اخبار ہذا کے مزاج و معیار اور تحریکی نظریے کی ترویج و ترقی کا خاص خیال رکھاجائے گا،لیکن پہلا شمارہ دیکھ کرخوش امیدی نا امیدی میں بدل گئی اورمایوسی ہاتھ آگئی۔ ذمہ داران کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ یہ بالکل نیا اخبار ہوگا اور پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں اسے شائع کیا جائے گا لیکن جس شمارہ کا اجراء عمل میں آیا، اس کی پیشانی پر درج تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعوت کی چالیسویں جلد کا 36 واں شمارہ ہے۔ اخبارِہذاکل 24 صفحات پر مشتمل ہے،جس کی قیمت پندرہ روپئے مقرر کی گئی ہے۔ ذہن نشیں رہے کہ سہ روزہ ’دعوت‘ 7اگست2019کو’مرحوم اخبار‘ قرارپایا تھا اوروہ67ویں جلدکا70واں شمارہ تھا۔
ہفت روزہ ’دعوت‘کے پہلے شمارہ کے سر سری جائزے سے ہی اندازہ ہو تا ہے کہ یہ نو آموز اور نا تجربہ کار افراد/ٹیم کے ذریعے تیار کردہ کوئی میگزین ہے جس میں اخبار والی خصوصیات موجود نہیں۔ پہلے صفحہ پر جو تصویرشائع ہوئی ہے اس میں 6 رنگی’گے ازم‘ کو درشانے والے رنگوں کا استعمال کچھ اس طرح کیا گیا ہے کہ جس سے پہلی فرصت میں محسوس ہوتا ہے کہ شاید’گے‘ یا ہم’جنس پرستی‘ سے متعلق کوئی بہت اہم اسٹوری شامل اشاعت کی گئی ہوگی لیکن ان رنگوں میں درج سرخی کو دیکھتے ہی یہ پتہ چلتاہے کہ یہ کہانی تو بابری مسجد کی ہے!۔ صفحہ اول کی اہم اسٹوری جسے انتہائی نمایاں کر کے شائع کیا گیا ہے، اس کی دوسری سرخی میں ہی غلطی درآئی ہے۔ خاص بات چیت کو’ایکس کلوزیو‘ بات چیت لکھا گیا ہے جو’ایکسکلیو سیو ہے۔ حالانکہ انگریزی میں اس کو درست لکھا گیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس نے خودنمائی کے بغیر قیادت کافریضہ انجام دیاہے، لیکن پہلے ہی صفحے پر امیر جماعت اسلامی ہند کے پیغام کو بہت نمایاں کرکے شائع کیا گیا ہے جبکہ بزرگ عالم دین، ندوۃ العلماء کے ناظم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کے پیغام کو آخری صفحے پرجگہ دی گئی ہے، جس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ حسب مراتب کا خیال رکھنا بھی ضروری نہیں سمجھاگیا۔یہ بکھراؤ اور بے ترتیبی پورے اخبار میں موجودہے۔ پہلے صفحہ کی اسٹوری کو جو کہ دوسرے اور تیسرے صفحہ تک پھیلی ہوئی ہے، اس کا بقیہ حصہ’اہم ترین‘کے نام سے بہت نمایاں ا ور باضابطہ کالم بنا کر صفحہ نمبر9 پراس انداز میں شائع کیا گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہ کوئی نیا مضمون ہے۔ صحافت کا ادنیٰ طالب علم بھی اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ مضمون کے بقیہ حصہ کو طاق صفحے پر شائع نہیں کیا جاتا اور یہ بھی کہ کسی بھی ٹیبلائڈ اخبار کے صفحہ نمبر9 کی کافی اہمیت ہوتی ہے اسی وجہ سے اس پر کوئی اہم اسٹوری ہی شائع کی جاتی ہے۔ اس صفحہ پر بلیک اینڈ وائٹ اے کے ایم لیدر کیمیکل اور ایشین اوپٹکس ملٹی برانڈ شو روم کا اشتہار بھی شائع کیا گیا ہے۔ اس سے ٹھیک اوپر’اخبار دعوت کا تاریخی سفر‘ کے عنوان سے ڈاکٹر انعام الرحمان رفیقی، کانپور کا ایک چھوٹا سا ناقص مضمون ہے جو دعوت کی تاریخ کو اجاگر کرنے میں ناکام ہے۔حالانکہ ڈاکٹر انعام الرحمان صاحب نے سہ روزہ دعوت پر ہی پی ایچ ڈی کی ہے، وہ چاہتے تو اس مضمون کو اور بہتر بنا سکتے تھے۔ممکن ہے کہ یہ مضمون ناتجرنہ کار ادارتی ٹیم کی بھینٹ چڑھ گیا ہو۔کیونکہ مضمون نہ علمی ہے اور نہ فکری اور نہ اس میں اعداد و شمار کا ہی کوئی ایسا مواد ہے کہ اسے معلوماتی کہاجاسکے۔
صفحہ نمبر 4پر ابو عمر حیدرآباد کا عمدہ مضمون ’ہماری معاشی و فلاحی ترجیحات‘ کے عنوان سے شائع کیاگیاہے،جوتازہ ترین صورتحال کو درشانے والا ہے۔ اسی صفحے پر پرواز رحمانی سابق ایڈیٹر سہ روزہ دعوت کا کالم’خبر و نظر‘ بھی ہے جو سہ روزہ اخبار میں پہلے صفحے پر ہوا کرتا تھا۔سہ روزہ دعوت کے اہم کالموں میں اسے شمار کیا جاتا تھا اور یہ بہت پڑھا جانے والا کالم تھا۔اس کی مقبولیت کی وجہ سے ہی ’خبرو نظر‘نام سے منتخب کالم کا مجموعہ مرکزی مکتبہ نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔
صفحہ نمبر 5 میں معروف باڈی بلڈر محتشم علی خان کی کہانی شائع کی گئی ہے، اسے نمائندہ دعوت کی خصوصی تحریر کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔ حالانکہ انٹرنیٹ پرایک کلک میں محتشم علی خان کی اس سے ملتی جلتی سیکڑوں کہانیاں دستیاب ہیں۔ اس کو شائع کرنے کی کوئی خاص وجہ(ان کی جیت وغیرہ کی کوئی مناسبت) نظر نہیں آتی۔اس مضمون کی سرخی میں ’عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے۔۔۔‘ لکھا گیا ہے، ایسا لگتا ہے سرخی جمانے والا شخص شعر کے فکری پس منظر سے واقف ہی نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے اشعار کی ایسی بدترین توجیح اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔اسی صفحہ پر صحت کیننگ کمپنی کا ایک اشتہار بھی موجود ہے۔پیڈ نیوز کی متعدد شکلیں ہیں ممکن ہے کہ یہ اشتہار اس کہانی سے منسلک ہو۔یعنی آپ میری کہانی شائع کریں تو ایک اشتہار بھی آپ کو ملے گا۔
صفحہ نمبر 6 میں حیدرآباد جی آئی او کی سٹی کانفرنس کی تفصیلات شائع کی گئی ہیں۔صفحہ نمبر 7کو تعلیم و روزگار کیلئے مختص کیا گیا ہے۔سید تنویر احمدکی تحریر’اسکول کے ٹائم ٹیبل میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت‘ اور ڈاکٹر کاظم ملک کامضمون’آرٹس کے شعبے میں کیرئر کے مواقع‘ معلوماتی ہیں۔ صفحہ نمبر 8 کو’عالم ریختہ‘کے عنوان سے مخصوص کیا گیا ہے جس میں کلام اقبال کی عصری معنویت کے نام سے مکمل صفحہ پر مضمون کوجگہ دی گئی ہے جبکہ ندا فاضلی کی ایک غزل اور مرزا غالب کے لطیفے بھی شائع کئے گئے ہیں، جسے بھرتی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔اخبار میں اگر کسی شخصیت سے متعلق مضمون شائع ہو تو اس کی کوئی مناسبت بھی ہونی چاہئے۔ مثلاً یوم پیدائش، یوم وفات وغیرہ۔ورنہ رسائل و جرائد میں تو اس قسم کے مضامین چھپتے ہی رہتے ہیں۔
صفحہ نمبر 9 پر’حکومت پر تنقید‘کے عنوان سے مکمل صفحہ پر محیط ایک مضمون ہے۔اس میں زبان و بیان کی غلطیاں زیادہ ہیں۔ادارتی عملہ کو یہ مضمون ضرور دیکھنا چاہیے تھا۔ صفحہ نمبر 11 اداریہ کیلئے مخصوص ہے جس میں اداریہ کے ساتھ ساتھ محی الدین غازی، مدیر ماہنامہ زندگی نو کا ایک مضمون’سیاسی گلیاروں سے زیادہ سماجی میدانوں کی اہمیت ہے‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔ مضمون کے ساتھ جو تصوچھاپی گئی ہے وہ حسب حال نہیں ہے۔
اداریہ اخبار کی روح اور جان کہلاتی ہے۔اس سے نہ صرف اس اخبار کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ اس سے ادارہ کی فکر، موقف اور پالیسی بھی سامنے آتی ہے ہفت روزہ دعوت کا پہلا اداریہ اس لحاظ سے کام یاب نہیں کہا جائے گا کہ ہفت روزہ دعوت کا پہلا اداریہ ہی پھسپھسا ہے۔
صفحہ نمبر 12 میں ملک و ملت کے تحت’الوک متل کے بیان کو سمجھیں‘کے عنوان سے سید تنویز احمد اور ’قبلہ درست کیجئے حالات کی پیش بندی‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین کا مضمون شائع کیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر 13 کو’دعوت میل‘ کے تحت مکتوبات کیلئے وقف کیاگیا ہے۔ محمد حامد امیر حلقہ تلنگانہ او ر ضیاء الدین نیر نائب صدر کل ہند مجلس تعمیر ملت کے پیغامات کو نمایاں انداز میں شائع کیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر 14 میں ’کارواں‘ کے تحت جماعت اسلامی ہند کی سر گرمیوں کو خبر کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، اس میں ادارتی سہو کا بھی احساس ہوتا ہے،کیوں کہ اس کے تحت جو خبریں منتخب کی گئی ہیں،ان کی ایڈیٹنگ درست اندازمیں نہیں کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض خبروں سے علاقائی عصبیت کی بو آتی ہے جو کم از کم جماعت اسلامی کا شیوہ نہیں ہے۔مثلا ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ’مشترکہ تہذیب جنوبی ہند میں فروغ پائی، شمال میں نہیں‘یہ ایس آئی او کے زیر اہتمام ہسٹری کانفرنس کی رپورٹنگ کا حصہ ہے۔ ایس آئی او کی جانب سے اس قسم کی علاقائی عصبیت یا تنگ نظری سمجھ سے بالا تر ہے۔ ابھی تو اخبار نے اپنا سفر شروع کیا ہے اسے پورے ملک کی ترجمانی کرنی ہے۔یہی حال رہا تو آگے کیا ہوگا کہنا مشکل ہے۔ اس طرح کے خیالات کی حوصلہ شکنی اس لئے بھی ضروری ہے کہ ادھر چند سالوں میں جماعت کے اندرعلاقائی برتری اور عظمت کوفروغ دینے کا رجحان کئی انداز سے عام ہورہاہے۔جماعتی فکر اور اس سے فکری وابستگی رکھنے والوں کے لیے بہر حال یہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔
صفحہ نمبر 15 میں دین و دانش کے تحت عبد العزیز کا مضمون ’حق و انصاف کے علمبردار بنیں‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ صفحہ نمبر 16 معیشت و تجارت کیلئے مخصوص ہے۔ اس کے تحت ریاض فردوس کا مضمون ’اسلام میں کارو بار کی حیثیت‘ کے عنوان سے مکمل صفحہ پر پھیلا ہوا ہے۔رو برو کے تحت’کشمیر پر خوف کا اجارہ، خاموشی داستان درد کا عنوان بن گئی‘ کے عنوان سے ملک معتصم خان سکریٹری جماعت اسلامی ہندکا ملکی و ملی مسائل کے حوالہ سے انٹرویو شائع ہواہے، محمد مجیب الاعلیٰ نے یہ انٹرویو لیا ہے۔ متفرقات کے تحت سلمان عبد الصمد کا مضمون ’پشکر اونٹ بانی میں الجھی زندگیاں‘شائع کیا گیا ہے، یہ مضمون کم از کم دو سال پرانا ہے جو پہلے ہی پاکستان کی معروف ویب سائٹ ”ہماری ویب ڈاٹ کام“ میں 2 جولائی 2017 کو شائع ہو چکا ہے۔ اس مضمون کوکئی سال قبل ’چرخہ فیچرس‘ نے بھی اپنے یہاں سے جاری کیا تھا۔ مضمون میں اس کے کسی بھی ماخذ کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے اور نہ کسی طرح کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی صفحے پر طنز و مزاح کے تحت’ابھیجیت بنرجی: ایک نوبل انعام یافتہ غدار وطن جمن چٹرجی اور للن بجرنگی کے درمیان مکالمہ‘ جسے معروف کالم نگار ڈاکٹر سلیم خاں نے رقم کیا ہے،موجودہے۔یہ مضمون 17 اکتوبر 2019 کو’بصیرت آن لائن‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ اس مضمون کے ساتھ بھی کوئی حوالہ یا ماخذ درج نہیں ہے اور نہ جس ادارے نے اس سے پہلے اس مضمو ن کو شائع کیا ہے،اس کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر 19 پر احوال عالم کے تحت’شام کے مستقبل پر علاحدگی پسند تنظیموں اور ترکی کے مابین تصادم‘کے عنوان سے مضمون شامل اشاعت ہے جس کی اگلی قسط باقی ہے۔
حلقہ خواتین کے عنوان سے صفحہ نمبر 20 کومعنون کیا گیا ہے۔اس میں سارے مضامین سرقہ شدہ ہیں۔ پہلا مضمون پاکستان کی صفیہ نسیم کا ہے جسے 5 ستمبر 2018 کو جسارت پاکستا ن نے اپنے بلاگ میں شائع کیاتھا۔ اسی صفحہ پر’آنکھو ں کی سوجن دور کیجیے‘،’گھریلو نسخے‘ اور د’ستر خوان: قیمہ بھرے بینگن‘کے عنوان سے تحریریں شامل ہیں جن میں لکھنے والوں کے نام ندارد ہیں۔
صفحہ نمبر 21 پر چلڈرن سرکل کے تحت شائع کیا گیا مواد بھی’پنج ند ڈاکٹ کام‘ اور دیگر ویب سائٹ سے اخذ کیا گیا ہے، لیکن کہیں حوالہ موجود نہیں ہے جو یقینا اخلاقیات کے منافی ہے۔’کوے کی چوہے کو نصیحت‘ پنج ند ڈاٹ کام پر موجود ہے۔ اسی طرح 13 اکتوبر 2019 کو مناہل احمد کی کہانی’نقلی بادشاہ‘کو پاکستان کے ”جسارت ڈاٹ کام“ نے شائع کیا ہے۔ ہفت روزہ دعوت نے یہ مضمون کہاں سے اُڑایا، حوالہ دینے کی زحمت نہیں کی گئی ہے۔ ایک اسلامی روایت کے حامل ادارے سے ایسی صحافتی بد دیانتی اور انٹلکچول پراپرٹی پر ڈاکہ زنی افسوس ناک ہے۔ اردو اخبارات میں سرقہ کی روایت عام ہے،لیکن سرقوں کے ذریعہ اگر ’دعوت‘تحریک اسلامی کی ترجمانی کا فرض ادا کرنے لگ جائے تو یہ یقینا تشویش کا باعث ہی نہیں بلکہ ذلت اور رسوائی کا بھی مقام ہے۔
صفحہ نمبر 22 پر رنگا رنگ کے عنوان سے’فرنیچر کے مختلف دیدہ زیب ڈیزائن‘ موضوع پر جو مضمو ن شائع کیا گیا ہے وہ پاکستان کے روزنامہ جنگ سے سرقہ کیا گیا ہے، اسے 11 اکتوبر، 2019کو روزنامہ جنگ نے شائع کیا ہے جو اس کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ اسی صفحے پر دوسرا فیچر’انڈو نیشیا کے دیہات کا تالاب زیر آب سیلفی بنانے کیلئے مقبول ہوگیا‘بھی پاکستان کے ”اردو پوائنٹ ڈاٹ کام“ سے چوری کرلیا گیاہے۔/18 اکتوبر 2019 کو شائع یہ مضمون مذکورہ ویب سائٹ پر بھی موجود ہے، جسے امین اکبر نے لکھا ہے۔، ہفت روزہ دعوت کی دیدہ دلیری اور اسلامی قدر دیکھئے کے اس نے مصنف کا نام ہی اڑا دیا اور اس مضمون کو ایسے شائع کیا جیسے یہ اس کی اپنی پراپرٹی ہو۔
آخری صفحہ یعنی 24 نمبر بھی سرقہ شدہ مضمون سے مزین ہے۔’آذربائیجان کی تاریخی مسجد‘’تازہ پیر کی کہانی؟‘کو جدہ کے معروف اخبار ”اردو نیوز“ نے 31 اگست، 2019 کو شائع کیا تھا۔، ہفت روزہ دعوت نے من و عن یہ مضمو ن وہاں سے اڑا لیا اور اس کا کوئی حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ 6 مہینہ کی انتھک محنت کے بعد جیسا کہ جماعت اسلامی کے ذمہ داران نے اجراء کے موقع پر بتایا اس قسم کا اخبار نکالا ہے تو ہر ہفتے کیسا اخبار نکلے گا، یہ سوچنے والی بات ہوگی۔ معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے درست لکھا ہے: ”سہ روزہ‘ سے ہفت روزہ کی تبدیلی کے دوران صرف رنگین طباعت اور تصاویر کا فرق نظر آیا۔ اس کا ادارتی پہلو اطمینان بخش نہیں ہے اور اس میں صحافتی مہارت کی کمی ہے۔24 صفحات پر مشتمل اخبار میں کسی ماہر مدیر کی عدم موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ سہ روزہ دعوت کے عملے میں کئی مشاق تجزیہ نگار شامل تھے لیکن اب یہ کام نئے عملے کے سپرد کیا گیا ہے۔ بہرحال دعوت کو زیادہ کارگر بنانے کیلئے ابھی بہت محنت درکار ہوگی اور اس کی معنویت برقرار رکھنے کیلئے کئی جتن کرنے ہوں گے‘۔
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ آخری صفحہ پر بالکل اخیر میں پرنٹر اور پبلشر کے طورپر محمد احمد کانام درج کردیاگیاہے، انھیں کا نام بطور ایڈیٹر بھی درج ہے۔ محمد احمد صاحب کی سماجی و ملی خدمات اپنی جگہ لیکن خود ان کے بقول آج تک انھوں نے کچھ لکھا ہی نہیں ہے تو ایسے شخص کو ایڈیٹر بنانا چہ معنی؟۔
کچھ لوگوں کو ممکن ہے میری اس تحریر پر اعتراض ہو اور وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے یہ محض تنقید برائے تنقید کیلئے لکھا ہے۔اس لئے یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں نے یہ تجزیہ جماعت سے قلبی لگاؤ کی وجہ سے کیا ہے تاکہ ذمہ داران متوجہ ہوں اوربہتری پر سنجیدہ ہوں۔ برسبیل تذکرہ یہ عرض کردوں کہ اس پرچہ کی اشاعت سے قبل 42 نکات پر مشتمل ایک تفصیلی خاکہ راقم الحروف نے اپنے ایک دوست کے ذریعے ذمہ داران جماعت کو ارسال کیا تھا، جسے میری اطلاع کے مطابق وہاں کی میٹنگ میں بھی پیش کیا گیا اور اسے جملہ ذمہ داران نے سراہا بھی تھا اور فائنل میٹنگ کے منٹنس میں ان نکات میں سے بیشتر حصے کو پاس بھی کیاتھا،لیکن ایسا لگتا ہے کہ اخبار تیار کرتے وقت ان نکات کو مد نظر رکھنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اگر اخبار نکالنے والے افراد ان نکات پر توجہ دیتے تو ایسی بھونڈی غلطیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔
جماعت اسلامی ہند کے لئے یہ بات عبرت کی ہے کہ اس جماعت کے قیام کے تقریبا ستر سال ہوچکے ہیں لیکن آج تک وہ کوئی ایسی ٹیم نہیں تیار کر سکی جو ایک ڈھنگ کا اخبار ہی نکال سکے۔ جماعت سے وابستہ بزرگوں نے فکری تبدیلی کے لیے بڑی بڑی انقلابی قربانیاں دی ہیں۔اسلامیان ہند کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ تحریک اسلامی کے برگ و بارمیں علامہ شبلی اور مولانا فراہی کی تیار کردہ ٹیم نے فکری عذا فراہم کی ہے۔تحریک اسلامی کے قیام کا پس منظر اور روشن تاریخ اس کی گواہ ہے۔ان بزرگوں کی فکری غذا سے ہی تحریک اسلامی اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے۔موجودہ ہفت روزہ دعوت جماعت اسلامی کے فکری بحران کا اعلانیہ کہا جاسکتاہے جہاں فکر کا کوئی بھی عنصر نہیں پایا جاتا بلکہ صرف صفحات سیاہ و سفید کردیے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے ارباب حل و عقد کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ ان سے کہاں چوک ہو رہی ہے۔
رابطہ نمبر : 9911701772
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں