حکیم نازش احتشام اعظمی
جب کبھی ہم سماج اورمذاہب میں پائی جانے والی حد بندیوں پر غورکرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مذہب نے اپنے ماننے والوں کو کسی بھی موڑ پرجس معاشرے میں وہ رہا ہے، اس سے کٹ کرسماجی حدبندی قائم کرکے اپنے ارد گرد حصار قائم کرنے کی تلقین نہیں کرتا ،بلکہ یہ تو ہمارے ان صاحبانِ جبہ ودستار کی کارستانی ہے ،جنہوں نے ملت کے سادہ لوح عوام کو سماج کے درمیان رہتے ہوئے خود کو مخصوص پنجڑے میں قید کرلینے کی تبلیغ شروع کررکھی ہے۔’مذہب پسند‘ کی اصطلاح نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان اس طرح پہنچایاکہ آج ملت کے سادہ لوح عوام اپنے خود ساختہ سماجی سرحد سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔یہ طبقہ شدت کے ساتھ اس بات کی تبلیغ کررہا ہے کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی حدودسے باہر نکل کرمعاصر سماج میں زندگی گز ارنا اور عصری علوم حاصل کرنا مسلمانوں کے دین وایمان کیلئے خطرناک ہیں، اگر ان تمام طبقات کا ایک عمومی جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں فلسفہ و سائنس کو لے کر متنوع قسم کے فکری دھارے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان مذہب پسندوں میں سب سے نمایاں دھرا وہ ہے جو اپنے علمی منہج کو غزالی سے منسوب کر کے ’تہافت الفلاسفہ‘ میں مشغول ہیں۔لہذا وہ عصری فلسفہ اور غیر دینی تعلیم جیسے سائنس ،تکنالوجی،معاشیات اور جیالوجی وغیرہ کو حاصل کرنے کو بھی جائز خیال نہیں کرتے ۔حالاں کہ مذکورہ بالا جدید علوم اور عصری تکنالوجی کی تعلیم سے مذہب اسلام کیسے متاثر ہوسکتا ہے اس کا کوئی بھی واضح اور مؤثر جواب ان کے پاس موجود نہیں ہے۔اس کے بر عکس حقیقت حال یہ ہے کہ مذکورہ بالا جدید علوم کا تعلق راست طور پر کسی بھی مذہب سے متصادم نہیں ہے۔
اس طبقے سے اختلاف کے ساتھ بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ طبقہ کچھ مخصوص نفسیاتی مجبوریوں اور عارضہ نرگسیت کے باعث تہذیبی مباحث کا تجزیہ کسی عالمگیر انسانی تناظر میں کرنے کی قوت ہی نہیں رکھتا ،لہٰذا مجبورِ محض ہوتے ہوئے حلق کے ایک حصے سے تو ’سرمایہ دارانہ تہذیب‘ کی مئے فرنگ کے لبریز جام اپنے اندر انڈیلتا رہتا ہے اور اسی حلق کے دوسرے حصے سے تیزی سے تنقیدیں بھی کرتا ہے ۔اب اس دوہرے رویے کا مطلب کیا ہے اس کا مطلبسماج کے اس طبقہ کو بتانا چاہئے جنہوں نے دین کی اعلی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی دانشگاہوں میں بھی حصول علم کیلئے غواصی کی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کا دوہرا رویہ کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں ،اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ ان کے یہاں علوم یا اشیا کی حلت وحرمت کاسلسلہ دنیوی منفعت کے ساتھ سفرکرتا ہے ،مگر انہیں یہ بات قطعی طورپر فراموش نہیں کر نی چا ہئے کہ جدید دور میں تہذیبی سرحدیں تیزی سے انہدام پذیر ہیںاور تنگ نظر ہواپرست ملی قائدین کی غلط تبلیغ از خود بے معنی ہوتی جا رہی ہے اور کم از کم اتنی دھندلا چکی ہیں کہ مشرق و مغرب کی تہذیبی دوئی ایک ایسا قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے جوآنے والے دور میں بس تاریخِ فکر کی کتابوں میں ہی ڈھونڈنے سے مل سکے گا۔ہمارے پاس تجربیاتی علوم ہیں جیسے فزکس،جیالوجی،زراعت وغیرہ۔ایک نیم تجربیاتی علوم ہیں جیسے ریاضی ہے۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ ریاضی ملکہ ٔ علوم کی حیثیت رکھتا ہے۔مذہب اسلام نے بھی معیشت اور ریاضی کی تعلیم کی جانب توجہ دلائی ہے۔مثلاً ’’علم فرائض ‘‘یعنی تقسیم وراثت کیلئے حاصل کی جانے تعلیم کو آدھا علم کہا گیا ہے۔اور یہ یقینی بات ہے کہ تقسیم وراثت کاعلم ریاضی جانے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔اس سے ثابت ہوگیا کہ علوم ریاضی یا مہندسی خلاف اسلام نہیں ہے۔یہی طبقہ دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ دلچسپ اور تخریبِ ذہن و فکر کی ہلاکت خیزیوں میں سب سے آگے ہے۔ اس کی وجہ اس کی تجاہل عارفانہ میں ڈوبی وہ رجعت پسندی ہے جو فلسفے کو تفکر ، تجسس، جستجو، تحقیق، خرد افروزی، ندرتِ فکر وغیرہ جیسے انسانی خواص سے علیحدہ کر کے اس کو مذہب کا روایتی حریف گردانتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس طبقے کے نزدیک سوال کا ذہن میں پیدا ہونا فلسفہ کی علت نہیں، بلکہ فلسفیانہ ذہن کی تربیت’بے جا‘ سوال اٹھانے کے مرض کی علت ہے۔ ہماری رائے میں علتوں کا یہ الٹ پھیر اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقے کے نزدیک فلسفہ چونکہ سوال اٹھانے اور عمومی طور پر اٹل سمجھے جانے والے مفروضوں پر تشکیک و تحقیق کی دعوت ہے، لہٰذا وہ ایک ایسے ذہن کو تیار کرتا ہے جو اپنے طرف پھینکی جانے والی اٹل مذہبی اور صرف مذہب کی بنیاد پر سماجی تعبیرات کو فکر پر حاکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔یہ طبقہ اپنی فکری سطحیت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ ہماری سائنسی ترقی کا ماضی دنیا کی تاریخ کا روشن ترین عہد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قدیم مسلمان سائنس دان (بوعلی سینا،البیرونی، فارابی، الزہراوی، الخوارزمی) وغیرہ ہی جدید سائنس کے بانی ہیں۔ سائنس کا اسلوب، سائنسی عمل اور نقطہ نگاہ سائنس کی رو سے عالمی اور انسانی مسائل کا حل کرنا اور اطلاقی سائنس میں میکانیکی ، تیکنیکی اور قدرتی وسائل کا استعمال یہ سب کچھ ان ہی کا عطیہ ہے اوراگر سائنسی تحقیقات ،تعلیم اوران کے کارناموں سے ان کے600 سالہ دور کو یورپی سرمایہ داروں اور ملوکیت نے دنیا کی نگاہوں سے بوجھل رکھا۔ اگر حقیقت میں مسلمان سائنس دانوں کے ہر کارنامے پر باری باری روشنی ڈالی جائے تو کئی سو کتابیں بھر جائیں اور ان کے کارنامے گنوائے نہیں جاسکتے ۔یہی وہ عظیم کارنامے ہیں جن کی بدولت ہمیں اس بات کا حقیقی احساس ہوتا ہے کہ جدید سائنس کس قدر مسلمانوں کی احسان مند ہے۔ آج کی سائنس مسلمانوں کی جس قدر احسان مند ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی وہ در حقیقت ہمارے اسلاف کے کارناموں پر ہی کھڑی ہے اور ہمارے اسلاف کے ہی کارناموں کے طفیل یہ سائنس آج اس عظیم مقام تک پہنچی ہے۔ذرا غور کیجئے ! کہ جب مذہب اسلام کو یا خودانہیں جنہوں نے سائنسی تحقیقات اور مطالعے کی رکھی ان مسلم سائنسدانوں کا کوئی ایمانی خسارہ نہیں ہواتو آج اس تعلیم کو حاصل کرنے والا مسلمان طالب علم اپنے ایمان کو کیونکر گنوا دیگا۔یاد رکھئے! کہ کو ئی بھی عصری علم کسی کو ملحد نہیں بناتا ،بلکہ یہ خباثت ان کے اندر عصری دانشگاہوں کے اندرپائے جانے ماحول اور بے راہ روی والے کھلے ماحول کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں۔اگر عصری دانش گاہوں کا متعلم اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی اپنے دینی شعار کو بچائے رکھتا ہے تو وہ اپنے مذہب کی دعوت و تبلیغ کیلئے دوسروں سے کہیں زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔اس بات سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کرسکتا کہ علم وعقل کسی کی میراث نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ شان و شوکت،عزت و عظمت کا تاج اسی کے سر پر سجتا ہے جو علم و عقل کی پذیرائی کرتے ہیں اورعلم و عقل کو مثبت انداز میں بروئے کارلاتے ہیں۔آج کی دنیا جوکہ (گلوبل ولیج بن چکی ہے) میں اہل مغرب بالخصوص یورپ کا شہرہ ہے۔ علم و عقل نے اہل مغرب کو کامیابی کی جس شاہراہ پر گامزن کیا وہ منزل پانے کے باوجود اہل مغرب ’’کچھ اور کرنے، کچھ نیا کرنے‘‘ کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں۔
اقوام عالم میں ہر سطح پر آج مغرب کی اجارہ داری نظرآتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ علم و عقل کا جس بہترین انداز سے استعمال اہل مغرب نے کیا شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے مقابلے میں مشرق آج بھی پسماندہ ہے، چند ایک معاملات کو چھوڑ کر تمام معاملات میں مشرق آج بھی مغرب کا محتاج ہے۔ یورپ کی نشاۃٔ ثانیہ کے طلوع ہونیوالے پرجلال آفتاب کے غروب نہ ہونے کی بنیاد بھی اہل یورپ کا علم و عقل سے مسلسل استفادہ کرنا ہے۔جبکہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ایک جانب ترقی یافتہ قومیں کرہ ارض کو پوری طرح مفتوح کرکے سیاروں کی طرف بڑھ رہی ہیں دوسری جانب ہم اس بحث میں مبتلا ہیں کہ علم و عقل کی واقعتاً کوئی قدر و قیمت ہے یا نہیں؟ اگر صورت حال یہی رہی تو ملت اسلامیہ کیلئے ذلت وخواری سے نجات حاصل کرنے کی کوئی راہ ہموار ہوسکے گی ،یہ کہنا مشکل ہے۔
09891651477
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں