میاں اللہ تو دیکھ رہا ہے

0
917
All kind of website designing
میاں اللہ تو دیکھ رہا ہے!
محمد یاسین جہازی
رابطہ: 9871552408
صحابہ کی محفل جمی ہوئی ہے۔ حضور پر نور محمد عربی ﷺ کی موجودگی اس محفل کی رونق و برکت میں دوبالگی پیدا کر رہی ہے۔ اسی دوران ایک شخص شریک محفل ہوتے ہیں۔ کپڑے انتہائی صاف ستھرے ہیں، بال بہت کالے ہیں۔ محفل میں موجود ہر شخص کے لیے اجنبی ہے ، کیوں کہ وہ وہاں کا رہنے والا نہیں ہے اور کہیں سے سفر کرکے آیا ہے، لیکن سفر کے اثرات اس پر بالکل بھی ظاہر نہیں ہورہے ہیں۔ وہ بلا تکلف اس مجلس میں شریک ہوجاتا ہے اور نبی اکرم ﷺ کے مبارک گھٹنہ سے اپنا گھٹنا ملا کر بیٹھ جاتا ہے ، اتنا ہی نہیں؛ بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں کو نبی اکرم ﷺ کے مبارک رانوں پر رکھ دیتا ہے اور پھر نبی اکرم ﷺ سے کئی سوالات کرتے ہیں ۔ پہلا سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
یا محمد اخبرنی عن الاسلام۔
ائے محمد مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ جواب دیتے ہیں کہ
الاسلام ان تشھد ان لا الٰہ الا اللہ و ان محمد رسول اللہ، و تقیم الصلاۃ و توتی الزکوٰۃ، و تحج البیت ان استطاع الیہ سبیلا۔
یہ جواب سن کر اجنبی کہتا ہے کہ صدقتَ ۔ آپ نے بالکل صحیح جواب دیا۔ حاضرین مجلس کو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسا سائل ہے کہ خود ہی پوچھ رہا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کر رہا ہے۔ پھر وہ اجنبی دوسرا سوال کرتا ہے کہ
اخبرنی عن الایمان ۔
مجھے ایمان کے متعلق بتائیے۔ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
کہ ان تومن باللہ و ملائکتہ، و کتبہ و رسلہ ، والیوم الآخر، و تومن بالقدر خیرہ و شرہ۔
اجنبی جواب سن کر تصدیق کرتا ہے اور پھر سوال کرتا ہے کہ
فاخبرنی عن الاحسان۔
مجھے یہ بھی بتایا جائے کہ احسان کیا ہے؟ نبی اکرم ﷺ جواب دیتے ہیں کہ
ان تعبداللہ کانک تراہ، و ان لم تکن تراہ، فانہ یراک
کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ سکتے، تو خدا تو تم کو دیکھ ہی رہا ہے۔ اجنبی نے پھر سوال کیا کہ
اخبرنی عن الساعۃ
کہ مجھے قیامت کے متعلق بتائیں، تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس کے بارے میں مجھے آپ سے زیادہ معلومات نہیں ہیں ، اس پر اجنبی نے سوال کیا، تو اچھا پھر کم از کم علامت ہی بتادیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ
ان تلد الامۃ ربتہا، و ان تریٰ الحفاۃ العراۃ العالۃرعاء الشاء یتطاولون فی البنیان ۔
یعنی اس کی ایک علامت یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالک اور آقا کو جنے گی ۔ ایک اور علامت یہ ہے کہ جن کے پاوں میں جوتا تک نہیں، جن کو تن ڈھکنے کے لیے کپڑا میسر نہیں ، جو بکریاں چراکر گذارا کرتے ہیں، وہ لوگ بھی بڑی بڑی عمارتیں بناکر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔
اس حدیث کے راوی حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اجنبی شخص چلا گیا، تو تھوڑی دیر کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ یا عمر ا تدری من السائل؟ حضرت عمرنے جواب دیا کہ اللہ و رسولہ اعلم، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل تھے جو تمھیں دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔
اس حدیث پاک میں پانچ سوالات و جوابات ہیں۔ (۱) اسلام کیا ہے۔ (۲) ایمان کیا ہے۔(۳) احسان کیا ہے۔ (۴) قیامت کب آئے گی۔ (۵) قیامت کی علامتیں کیا ہیں۔
حدیث کے ان پانچوں جزئیات کی تشریح اس مختصر تحریر میں ناممکن ہے ، اس لیے آج کی معروضات میں تمام جزئیات کو چھوڑ کر صرف ایک جزئیہ: احسان کے متعلق مختصراعرض کیا جائے گا۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم ﷺ سے تیسرا سوال یہ کیا تھا کہ اخبرنی عن الاحسان مجھے بتائیے کہ احسان کیا ہے ؟ اس پر نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا کہ ان تعبدا للہ کانک تراہ و ان لم تکن تراہ فانہ یراک کہ خدائے متعال کی عبادت و بندگی اس طرح کرو ، گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمھیں دیکھ ہی رہا ہے۔
ہمارے محاورے میں احسان کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو کہا جاتا ہے ، لیکن حدیث شریف اور قرآن پاک میں وارد یہ لفظ کسی اور معنی اور ایک خاص اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ
بلیٰ من اسلم اجھہ للہ وھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے کہ
و من احسن دینا ممن اسلم وجھہ للہ وھو محسن
اس کی وضاحت ایک مثال سے اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ایک ملازم اپنے مالک کے آفس میں کام کرتا ہے ۔ جب مالک سامنے ہوتا ہے تو اس ملازم کے کام کرنے کا انداز اور طرز عمل اس سے مختلف ہوتا ہے جب کہ مالک اس کے سامنے نہیں ہوتا۔ ملازم اپنے باوس کی موجودگی میں جس دھیان ، محنت اور خوب صورتی سے کام کرتا ہے ، وہ مالک کی عدم موجودگی میں نہیں کرتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح احسان کا مطلب یہ ہے کہ بندہ جب خدا تعالیٰ کی عبادت و بندگی بجالائے تو اس تصور و دھیان کے ساتھ بجالائے کہ خدائے بزرگ و برتر حاضر و ناظر ہے اور ہماری ہر حرکت وسکون اس کی نگاہ میں ہے ۔ وہ ہم کوہر لحظہ دیکھ رہا ہے۔ جب اس تصور کے ساتھ کوئی عبادت کی جائے گی تو آپ کے اندر ایک عجیب کیفیت اور خاص شان پیدا ہوگی جو اس صورت میں پیدا نہیں ہوسکتی ، جب اس تصور سے خالی ہوکر کوئی عبادت انجام دی جائے۔
مثال کے طور پر ہم حج کریں، روزہ رکھیں، زکوٰۃ دیں، تو ان تمام اعمال کو انجام دہی کے وقت ہمارا ذہن اس تصور سے خالی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے سامنے اللہ موجود ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ تصور قائم نہ کرسکیں تو یہ حقیقت تو مسلم ہے کہ اللہ تو ہم کودیکھ ہی رہا ہے۔۔ اسی طرح ہم نماز پڑھتے ہیں۔نماز خالص عبادت ہے۔ نماز پڑھنے کی حقیقی لذت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب کہ ہم احسان کی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ادھر نماز کی نیت باندھی اور ادھر دنیا کے تمام تفکرات سامنے آگئے ۔ دن بھر کی جو باتیں ہمیں کسی وقت یاد نہیں آتیں، وہ نماز کی نیت باندھتے ہی ذہنوں میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ ہماری زبانیں تو نماز کے اذکار میں مصروف رہتی ہیں، لیکن ہمارا ذہن و دماغ بالکل بھی نماز میں حاضر نہیں رہتا۔اس کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز کی فرضیت تو ساقط ہوجاتی ہے، لیکن نماز کی جو برکات و انوار ہیں، وہ ہمیں حاصل نہیں ہوتے۔ نماز کے فوائد کے حوالے سے قرآن کا اعلان ہے کہ
ان الصلاۃ تنھیٰ عن الفحشاء والمنکر والبغی (
نماز بے حیائی ، منکرات، ظلم و جبر اور گناہوں سے روک دیتی ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہم زندگی بھر نماز پڑھتے ہیں، اس کے باوجود بھی ہماری نماز کسی برائی کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی۔ آخر وجہ کیا ہے ۔ وجہ یہی ہے کہ ہم نماز کو احسان کی کیفیت کے ساتھ ادا نہیں کرتے ۔ جس دن ہم نماز کو احسان کی کیفیت کے ساتھ ادا کرنے لگیں ، اسی دن ہماری نماز بالیقین تمام گناہوں سے ہمیں روک دے گی۔
اس موقع پر ہم عذر کرتے ہیں کہ اجی کیا کریں ہم کتنی بھی کرشش کریں ، پھر بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم نماز کو تفکرات سے آزاد ہوکر ادا کرسکیں۔ خدا جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم نماز میں نہیں ہوتے، تو کوئی چیز یاد کرنے کی کوشش کے باوجود یاد نہیں آتی اور جوں ہی نماز کی نیت باندھتے ہیں، تو زندگی کی تمام بھولی بسری یادوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اور ہمارا ذہن نماز سے نکل کر زمین و آسمان کی سیر کرنے لگتا ہے ۔
یہ ناچیز بھی اس مصیبت میں گرفتار تھااور اس سے نجات پانے کے لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے خلیفہ و مجاز حضرت مولانا شاہ ابرارالحق نور اللہ مرقدہ کو ایک خط لکھا اور اس کا علاج پوچھا، ان کی طرف سے جو جواب آیا، وہ جواب پیش کیا جارہا ہے تاکہ آپ بھی اسے اختیار کرکے اس مصیبت سے نجات پاسکتے ہیں۔ جواب یہ تھا کہ جب ہم نماز کی نیت باندھ لیں، تو تکبیر تحریمہ کے بعد جو اذکار اور قرآن کی آیتیں پڑھتے ہیں، ان چیزوں کے متعلق سوچنا شروع کردیں۔ اور جس مرحلہ سے گذریں، اس سے آگے کی پڑھنے والی چیزوں کے بارے میں سوچنا شروع کردیں۔ مثال کے طور پر نیت باندھنے کے بعد جس وقت ہم ثنا پڑھیں، تو اس وقت یہ سوچیں کہ آگے ہمیں سورہ فاتحہ پڑھنی ہے۔ جب سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کردیں،تو اس وقت یہ سوچنا شروع کریں کہ اس کے بعد ہمیں کون سی سورۃ کی تلاوت کرنی ہے۔ سورۃ تلاوت کرتے ہوئے رکوع کے بارے میں، رکوع میں سجدہ کے متعلق ، اسی طرح ہر اگلے رکن کے بارے میں سوچنا شروع کریں۔ اس طریقے سے آپ کا ذہن نماز کے ارکان میں گردش کرتا رہے گا اور باہر کے تفکرات شامل نہیں ہوسکیں گے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اچھی طرح وضو نہ کرنے کے سبب نماز میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور انسان کے ذہن کو بھٹکا دیتا ہے ، اس لیے خشو ع و خضوع اور تمام لایعنی فکروں سے آزاد نماز پڑھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اچھی طرح سے وضو کریں اور انتہائی توجہ اور کامل اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش کریں اور ذہن بھٹکنے کی صورت میں درج بالا ترکیب پر عمل کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here