طلبائے مدار س میں نئے امکانا ت کی تلاش۔

0
985
All kind of website designing

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی *

ڈیڑھ سال قبل 20ستمبر2016کودہلی میں یونیسکونے Preventing Violent Extermism through Education (تعلیم کے ذریعہ تشددکا خاتمہ )کے موضوع پر ایک کانفرنس کی تھی ۔اس کانفرنس میں دنیابھرکے مختلف میدانوں کے ماہرین نے تعلیم کے ذریعہ انسانی معاشرہ میں انتہاپسندانہ رجحانات کوروکنے اورتشددکے خاتمہ پر غوروخوض کیاگیا۔عالمی اسلامی تنظیم ،اسلامک ایجوکیشنل سائنٹیفک اینڈکلچرل آرگنائزیشن (ایسسکو)کے نمائندہ کے طورپر پروفیسرراشدشاز ڈائرکٹربرج کورس علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ نے کانفرنس کے موضوع کی مناسبت سے مدار س کے طلبہ کی صلاحیتوں اورامکانات کی نشاندہی کی اوربرج کورس کا تعارف کرایا۔پروفیسرشاز کی گفتگومیں اسلامی مدار س کے فارغین کومعاشرہ کے ایک فعال عنصرکی حیثیت سے متحرک کرنے اوراس کے لیے ان کوتربیت دینے کے امکانات پربھی روشنی ڈالی گئی۔
اس کانفرنس میں جس بات پرضمناً غوروفکرہوااب اس پرمختلف حوالوں سے بات آگے بڑھ چلی ہے اورفارغین مدارس عصری علوم کی طرف راغب ہورہے ہیں۔البتہ مدارس کی جدیدکاری کے حوالہ سے گفتگوابھی تک کوئی خاص اثرمرتب نہیں کرسکی ہے۔تقریباایک صدی سے مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم اورنظام تدریس پر نقدونظراورتجدیدکی بات کی جاتی رہی ہے ۔شبلی ،ابوالکلام آزاد،مولانامناظراحسن گیلانی اورمولانایوسف بنوری جیسے عباقرہ نے جوتجویزیں اصلاح نصاب کے لیے پیش کیں ان کومجموعی طورپر قبول نہیں کیاگیا۔اورمدار س کی بڑی تعدادزمانہ سے بے خبراپنی چال چلنے پر مصرہے۔
صحیح ہے کہ مدار س اسلامیہ کے نصاب ونظا م پر جتنی بھی تنقیدیں کی جائیں اورجن میں سے اکثردرست بھی ہیں،مگراس گئی گزری حالت میں بھی یہ مدار س ہی ملت کی دینی ومذہبی ضروریات پوری کرتے ہیں۔نمازوں کی امامت ومؤذنی سے لیکرمعاشرت ومناکحات وغیرہ میں بنیادی کرداروہی اداکرتے ہیں۔اورانفرادی واجتماعی مذہبی امورومعاملات میں بھی ان سے ہی فتوے پوچھے جاتے ہیں۔مدار س کے فارغین ہی ملی قیادت کا باراٹھائے ہوئے ہیں۔دینی تنظیموں اورملی اداروں کوقیادت ،رجال کاراورکارکنان کی صورت میں انہیں سے افرادملتے ہیں،اوراسی لیے فارغین مدار س کواضافی علوم کی تحصیل اورمعاصرتربیت کی ضرورت اوربڑھ جاتی ہے۔ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں چھوٹے بڑے اسلامی مدارس جہاں ملت کی بہت بڑی غیرمستطیع اکثریت کوخواندہ بناتے ہیں وہیں وہ ایک بہت بڑے تعلیمی نیٹ ورک اورملی رفاہی این جی اوکا کرداربھی اداکررہے ہیں۔جن میں یقیناکچھ کمیاں اورنقائص ہیں جنہیں اگردورکرلیاجائے تواس نیٹ ورک کی افادیت بہت بڑھ جائے گی ۔
فی الواقع یہ بات بھی صحیح ہے کہ مدار س میں اکثرطلبہ ناداراورغریب طبقات سے آتے ہیں۔اکثراِس پہلوکے منفی اثرات پر زیادہ زیادہ زوردیاجاتاہے مگراس حقیقت کوفراموش کردیاجاتاہے کہ ان طلبہ کی اکثریت زندگی میں آگے بڑھناچاہتی ہے اور اس لیے یہ بہت محنت کرتے ہیں۔چیلنج اورجواب چیلنج کے اصول کے مطابق اگران طلبہ کومواقع مل جاتے ہیں توبہت ایساہوتاہے کہ یہ شروع ہی سے جدیدتعلیمی نظام سے استفادہ کرنے والے طلبہ سے نہ صرف مقابلہ کرلیتے ہیں بلکہ بسااوقات ان سے آگے بھی بڑھ جاتے ہیں۔یہ بھی دیکھاگیاہے کہ مدار س کے طلبہ عموما دین وملت کے لیے زیادہ متفکرہوتے ہیں۔یہ اپنے تشخص کا زیادہ خیال رکھتے ہیں اورعالم اسلام کے بارے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں۔البتہ یہ حساسیت ان کوغیروں سے نفرت تک پہنچادیتی ہے جس کا مداواکرنے کی یقیناضرورت ہے۔
ایک بڑی منفی چیزجوحال ہی میں زیادہ ابھرکراوربڑی شدت سے سامنے آرہی ہے اورجس میں بظاہرکوئی کمی نہیں نظرآرہی ہے وہ ہے مسلکی حساسیت۔اکثرمدارس مختلف مسالک ،جماعتوں اورشخصیتوں کے اسیرہیں اوران کے لیے ان کے طلبہ میں شدیدتعصب ہوتاہے جوبسااوقات ان کودوسرے مسالک ،فرقوں اورگروپوں کی تکفیروتفسیق پر بآسانی آمادہ کردیتاہے۔اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عصری تعلیم وآگہی دینے کے ساتھ ہی ان کومسلکی ومشربی وسعت ورواداری اورفکری تحمل اورتسامح کی تربیت بھی دی جائے۔
مدار س کی نشوونمااوران میں رائج درس نظامی کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ جب اس سسٹم کا آغاز ہواتھاتواس میں معقولات (سیکولرعلوم آلیہ )کی کثرت تھی جن میں یونانی فلسفہ ،منطق ،عربی وفارسی ادبیات پر زیادہ زورہوتاتھا۔مرورزمانہ کے ساتھ فلسفہ ومنطق اورفارسی کی کتابوں میں کمی آتی گئی مگرصحیح با ت یہ ہے کہ آج فلسفہ ومنطق کی جوتعلیم دی جاتی ہے وہ فرسودہ ہوچکی اب اس کی جگہ رائج الوقت فلسفہ اورلاجک کی تعلیم دی جانی چاہیے۔اسی طرح معاش کا مسئلہ بھی ہرانسان کا بنیادی مسئلہ ہے ۔ہندوستان کا مسلم معاشرہ عمومانادارہے اورlover middle classسے تعلق رکھتاہے اوروہ پھر بھی مکاتب،مدارس ومساجداورائمہ ومؤذنین کی خدمت کرتاہے۔مگربالعموم ان حضرات کا معیارزندگی بہترنہیں ہے۔اوران کواکثرقدرکفاف پر گزارہ کرناپڑتاہے اورزیادہ ترلوگ کچھ مزیداوراکثراوقات غیرمناسب سرگرمیوں سے اضافی آمدن حاصل کرتے ہیں۔ماضی میں بعض مدارس اپنے طلبہ وفارغین کوکچھ دست کاریاں اورطب وغیرہ سکھاتے تھے مگرآج ان چیز وں کی افادیت دوچندہونے کے باوجوداکثرمدار س میں ان کا اہتمام نہیں ہوپاتاہے۔اس لیے فارغین مدار س کے لیے بہترین آپشن یہی ہے کہ ان کومین اسٹریم ایجوکیشن سے کسی نہ کسی طورپر وابستہ کیاجائے۔ہندوستان میں چھوٹے بڑے رجسٹرڈ مدارس کی تعدادتقریبا30000ہے جن سے ہرسال فارغ ہونے والے طلبہ ہزاروں میں ہوتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ ان کوکچھ ایسی مہارتیں اورskillsدی جائیں کہ جب وہ عملی زندگی میں جائیں تومعاشرہ کا فعال عنصربن سکیں۔ملت میں بہت سے لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سبھی مدار س کی سندوں کوانٹرمیڈیٹ کے مساوی مان کران کے فارغین کوB Aمیں داخلہ دیدیاجائے۔مگریہ مطالبہ معقولیت پر مبنی نہیں ہے۔اوراس کا تجربہ کامیاب ہونااس لیے مشکل ہے کہ انٹرمیڈیٹ تک سائنس ،ریاضی اوردوسرے علوم خاصی حد تک پڑھادیے جاتے ہیں جبکہ مدار س میں ان علوم کی ا بجدبھی نہیں پڑھائی جاتی ۔اسی طرح بعض مدارس میں جوانگریزی کی تعلیم دی جارہی ہے ا س کا معیاربالکل ابتدائی درجہ کا ہے۔لہذازیادہ مناسب ،مطابقِ حال اورحقیقت پسندانہ ایپروچ یہ ہے کہ مدرسہ اوریونیورسٹی کے درمیان ایک برج کی تعمیرکی جائے ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا برج کورس اس کی بہترین شکل ہے۔جس کی ابتدا2013میں ہوئی تھی اورجس کا اب پانچواں بیچ تکمیل کے مرحلہ کوپہنچاچاہتاہے۔تقریباً۷ مہینے کے اس کورس کویوں ڈیزائن کیاگیاہے کہ ابتدائی دوتین مہینوں تک انگریزی پڑھنے ،لکھنے اوربولنے پر صرف کیے جاتے ہیں،اس کے بعدانگریزی کے ساتھ ہی ریاضی ،جغرافیہ ،تاریخ،سیاسیات ،معاشیات اورکمپیوٹرایپلی کیشن وغیرہ ان کوسکھائے جاتے ہیں۔لائبریری ،سمارٹ کلاس روم،بہترین رہائش،عمدہ ڈسپلن کے ساتھ ہی مختلف متعلقہ موضوعات پر ماہرین کے توسیعی لیکچربھی کرائے جاتے ہیں۔پھران کوایک ماہ بی اے انٹرنس کی کوچنگ کرائی جاتی ہے ۔نیز انٹرفیتھ اورانٹرافیتھ پیریڈ کے ذریعہ طلبہ کی یہ تربیت بھی کی جاتی ہے کہ وہ مسلکی ومذہبی کشمکش سے کس طرح اوپر اٹھ سکتے ہیں اورمختلف مذاہب وافکارکی جنگل بنی اس دنیامیں وسیع المشربی کے ساتھ کس طرح آگے بڑھ سکتے اوراپنی صلاحیتوں سے ملک کے اچھے شہری اورملت کے اچھے خادم بن سکتے ہیں۔چنانچہ علی گڑھ کے برج کورس سے اب تک 300سے زایدطلبہ فارغ ہوکراب خودعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی اورملک کی دوسری یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اس کے متعددطلبہ لاء میں گئے ہیں جہاں نہال احمد،محمدعفان اورصباآفرین اے ایم یوکی لافیکلٹی کے ہونہارطالب علم ہیں۔دوطالب ہوٹل مینیجمنٹ میں گئے ہیں۔بہت سارے طلبہ شعبہ انگریزی میں بی اے اورایم اے میں ہیں۔متعددطلبہ پروفیشنل کورسوں میں گئے ہیں۔پہلے بیچ کے متعددطلبہ اب انگریزی سے ماسٹرزکررہے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کے نصاب میں جب بھی کسی تبدیلی کی بات اٹھتی ہے توفوراًایک بڑے حلقہ کی جانب سے کہاجاتاہے کہ مدار س کے نصاب ونظام میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں اس لیے کہ مدار س سے انجیئنیر،ڈاکٹراورسائنس داں پیداکرنے مقصودنہیں بلکہ عالم دین پیداکرنے مقصودہیں۔تاہم یہ دلیل جواکثردہرائی جاتی ہے ایک ادھوری سچائی ہے ،مدار س سے انجیئنر،ڈاکٹراورسائنس داں نہ پیداہوں مگرایسے عالم دین تولازماپیداہونے چاہییں جوعصرحاضر،اس کے مطالبات ،چیلنجوں،سوالوں اورتقاضوں کا ادراک رکھتے ہوں۔پہلی بات تویہ ہے کہ سوشل سائنزاورخودنیچرل سائنسزکی مبادیات کوجانے بغیرکسی مہذب معاشرہ میں جینے کا تصورنہیں کیاجاسکتاہے مگرہمارے مدارس اب تک مصرہیں کہ وہ ان کی مبادیات تک کواپنے کورس میں جگہ نہیں دیں گے ۔دوسرے آج نئی ٹیکنالوجی اورجدیدسائنس مذہبیات کے سامنے وہ مسائل پیداکررہی ہے جوماضی کے بزرگوں کے حاشیۂخیال میں بھی نہ آئے ہوں گے ۔مثلاًجرمنی میں Robotic Priest کے تجربہ نے یہ امکان پیداکردیاہے کہ مذہبی اوردینی عبادات اوررسموں کی ادایگی روبوٹ انجام دیں۔مسلمان معاشروں میں امام اورمؤذن روبوٹ بنیں۔جاپان میں مردوں کی آخری رسومات اداکرنے کے لیے روبوٹ کواستعمال کیاجارہاہے ۔گلوبلائزیشن کے اس بے مہاردورمیں وہ دن بھی دورنہیں جب مسلمان میتوں کی رسومات بھی روبوٹ انجام دیاکریں گے؟ان کا شرعی حکم کیاہوگا؟
اب روبوٹ صرف مشینی آلات تک محددونہیں رہ گئے ہیں کہ جن کی پروگرامنگ پوری طرح انسان کے ہاتھ میں ہواوروہ ریموٹ سے کنٹرول ہوتے ہوں۔سائنس داں ایسے تجربات کررہے ہیں کہ روبوٹ میں بھی انسان کے جیسے شعور،جذبات وعواطف پیداکردیے جائیں۔مستقبل کی دنیامیں انسان ان روبوٹوں کا سامناکریں گے جوانسانوں کی طرح ہی جیتے جاگتے اوراحساس وشعوررکھتے ہوں گے ۔یہ روبوٹ کیانفس انسانی کہلائیں گے ؟کیایہ شرعی احکام کے مکلف ہوں گے ؟کیاان کے بھی ہم انسانوں جیسے حقوق ہوں گے ؟مستقبل میں مذہبیات کے عالموں اِن اوراِن جیسے اوربہت سے سوالوں کا سامناکرناپڑے گااوریہ ایسی چیز ہے کہ جس کوپرانے فقہی متون اورریڈی میڈ فتاوی سے حل نہیں کیاجاسکے گا۔اسی طرح جینیٹک انجینرنگ نے ڈولی (کلوننگ سے پیداکی گئی بکری )سے جوسفرشروع کیاتھاوہ اب بہت آگے بڑھ گیاہے۔کلوننگ کے اس عمل سے اب انسان کاہم زادپیداکرنے کے لیے سائنس پرتول رہی ہے۔نیوروسائنس اب مصنوعی دماغ پیداکرنے کی طرف قدم بڑھارہی ہے اوراب وہ دن دورنہیں جب اپنے ڈھب اوراپنے مطلب کے انسان پیداکیے جاسکیں گے ۔تویہ وہ چیزیں ہیں جوانسان کے سامنے اورخاص ہماری روایتی فقہ کے سامنے زبردست چیلنج لے کرآرہی ہے ۔کیاہم اس چیلنج کوقبول کرنے کے لیے تیارہیں؟کیاہم اس کے لیے کچھ تیاری کررہے ہیں؟بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کریہ کہ کیاہم اس چیلنج کوجانتے بھی ہیں؟اس کی خطرناکی کاکوئی ادراک بھی ہمیں ہے؟
تعلیم کا مقصدانسان کی شخصیت کا ہمہ جہتی ارتقاء ہوتاہے۔جہاں وہ اس کے لیے معاشی امکانات کے راستے کھولتی ہے وہیں اس کواخلاقی وروحانی سطح پر بھی اونچااٹھاناچاہیے۔اس حوالہ سے معاصرسیکولرتعلیم وتربیت کوئی اچھاکردارادانہیں کررہی ہے۔وہ بالعموم اپنے طلبہ کوحیوان کاسب بناکرچھوڑدیتی ہے اورکلرک کی ذہنیت پیداکرتی ہے۔جبکہ دینی روایتی تعلیم مذہبی واخلاقیِ حس تودیتی ہے مگرمعاش وغیرہ کے میدان میں ان کوکوئی خاص امکان نہیں دے پاتی ہے۔اس لیے ضرورت اس با ت کی کہ روایتی اورعصری دونوں کے امتراج سے ایک نیانظام تعلیم ڈیولپ کیاجائے جواپنے فارغین کومعاشی مہارت بھی دے ،اخلاقی تربیت بھی دے سکے اوربنی نوع انسان کے تئین ایک ذمہ داری کا احساس بھی ان میں پیداکرسکے۔جب تک ہم ایساجامع نظام تعلیم وضع نہیں کرپاتے تب تک بہترین راستہ برج کورس کا ہے ۔جس کومزیدوسعت دی جانی چاہیے اوردوسری یونیورسٹیوں کواس سلسلہ میں پیش قدمی کرنی چاہیے ۔خوش آئندیہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی ورمولاناآزادقومی اردویونیورسٹی حیدرآبادنے بھی اب برج کورس شروع کردیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*رسرچ ایسوسی ایٹ مرکز برائے تعلیم وثقافت مسلمانان ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here