گروگرام میں غریبوں کے مسیحا بنے مفتی سلیم بنارسی

0
1014
All kind of website designing

جمعیۃ علما کے بینر تلے 16 ہزار500 لوگوں تک پہنچایا راشن

نئی دہلی ۲۶ اپریل : کہتے ہیں ناکہ جو کام حسن اخلاق سے ہوسکتا ہے وہ کام بڑی سے بڑی طاقت یا دنیوی تدبیروں سے بھی ممکن نہیں ہے۔ بڑوں نے بجاکہا ہے کہ تلواروں سے زمینیں جیتی جاسکتی ہیں ، جبکہ حسن اخلاق اور انسانیت کی خدمت کا نیک جذبہ دلوں پر حکم رانی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ کورونا جیسی قدرتی آفت کے درمیان جب کسی بھی قسم کی تیاری کے بغیر مرکزی حکومت نے ملک گیر سطح پر مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا تو ہزاروں نہیں ، بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پردیسی مزدوروں، دیہاڑی کامگاروں اور غیر مستقل سیکٹر میں محنت مزدوری کرنے والے محنت کشوں کے لیےاپنی زندگی بچائے رکھنے کا مسئلہ پہاڑ بن کھڑا ہوگیا۔ایک طرف کورونا سے متاثرلوگ اسپتالوں میں منتقل ہورہے تھے تو دوسری طرف ایک وقت کی روٹی کے لئےیہ مزدور طبقہ چھ چھ گھنٹے تک لائنوں میں تڑپتا اور کراہتا نظر آیا۔ عالمی سطح پر میڈیا نے یہ بات پہنچادی کہ ہندوستان میں جگہ جگہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنسے ہوئے لوگوں کی دادرسی کے لیے عوامی جماعتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں حکومتوں سے زیادہ سرگرم رہی ہیں۔دہلی این سی آر میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اس میں شبہہ نہیں کہ برادران وطن کے زیر انتظام سرگرم کئی غیر سرکاری تنظیمیں بھی بھوکوں کو کھلانے اور ضرورت مندوں کی فریاد رسی میں سرگرم رہی ہیں۔ مگر اجمالی طور پر دیکھیں تو جمعیۃ علمائے ہند کے رفاہی کام ، راشن اور ضرورت کی لازمی چیزوں کی تقسیم کے فیلڈمیں اس خالص رفاہی تنظیم نے ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دہلی کے متصل شہر گروگرام میں برادران وطن کے دلوں میںمسلمانوں کے خلاف بوئے گئے نفرت کے بیج ہمیشہ کے لئے کونپل بننے کے قابل بھی نہیں رہ سکے اور جمعیتی رضاکاروں کی قربانیوں نے زہر بھرے دلوںکو اسلام اور مسلمانوں کے تئیں محبت کی مٹھاس سے بھردیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ گروگرام ہندو مسلم اتحاد کی نئی مثال بن کرسامنے آیا ہے اور یہ سب جمعیت علماکے زیر اہتما مفتی سلیم بنارسی کی مخلصانہ رہنمائی و نمائندگی کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔
بتاتے ہیں کہ گوڑ گاؤں یعنی اب کا گروگرام پچھلے پانچ سالوں سے فرقہ وارانہ منافرت کے لیے جاناجاتا ہے، جہاں مسلمانوں کے ساتھ نصف درجن بار ماب لنچنگ ہوچکی ہے۔ لیکن کرونا وائرس نے اس گوڑگاؤں کو متحد کردیا ہے۔اطلاعات کے مطابق جمعیۃ علما کے ناظم عمومی مولانا محمود مدنی کی ایما پر جمعیۃ علماء گروگرام کے صدر مفتی سلیم بنارسی نے بلا تفریق مذہب و فرق ،خالص انسانیت کی بنیاد پرلوگوں کی خدمت جاری رکھی ہے۔جب وہ جے پورہائی وے پر دہلی جانے والے لوگوں کے لیے کھانا لے کر کھڑے تھے، تو اسی وقت دہلی کے ٹی وی چینلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے زہر گھولے جارہے تھے، لیکن دہلی جانے والے پانچ ہزار نفوس جن کو انھوں نے کھانا بانٹا، وہ ہندو بھی تھے، مسلمان بھی، سکھ اوردلت بھی۔یہ حقیقت ہے کہ جانوں کا مذہب نہیں ہوتا اور پیٹ کا کوئی دھرم نہیں، کیوں کہ انسانیت ہی کچھ لوگوں کا سب سے بڑا دھر م ہوتا ہے اور ایسے ہی لوگ ملک کو جوڑتے ہیں مفتی سلیم بنارسی، انہیں لوگوں میں سے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ گوڑگاؤں میٹروسٹی ہے، پورے ملک کے غریب غرباء، مزدور یہاں رہتے ہیں۔ان کی ضرورتیں ہیں، لاک ڈاؤن میں ان کی ضرورتیں کون پوری کرے گا۔ ممکن ہے کہ مفتی سلیم بنارسی کی محنت سبھوں کے لیے کافی نہ ہو، لیکن سبھوں کو جوڑنے میں کامیاب ضرور نظر آتی ہے۔مفتی صاحب کہتے ہیں کہ پورے شہر میں ضرورت مند لوگوں کو ایک ایک مہینہ کا راشن پہنچانے کا کام جاری ہے، اب تک سولہ ہزار پانچ سو لوگوں کو راشن دیا جا چکا ہے۔
اور ۲۲۔ اپریل کو کمشنر آفس سے سات سو جُھگی والوں کی فہرست ملی جس کو23 اپریل کو پورا کردیا گیا۔ موقع پر جب جمعیۃ عُلماء گُرو گرام کی ٹیم پہنچی تو وہاں تقریباً بیس ہزار لوگوں کی آبادی تھی اور سارے ہی ضرورت مندتھے۔فوری طور پر کمشنر آف پولیس“ محمد عقیل“ سے ملاقات کرکے حقیقت حال سے انہیں باخبر کیا گیا۔ اور الحمد للّٰہ جمعیۃ گُرو گرام کی فکر پر ایم سی جی گُرو گرام کی طرف سے۲۳ اپریل ہی کو بیس ہزار لوگوں کے درمیان راشن کا انتظام کرا دیا گیا۔اور جمعیۃ علماء گُرو گرام اپنے راشن تقسیمی پروگرام میں اکثر کسی قومی ذمہ دار (وِدھایک، پارشد) کو شامل کرتی ہے۔ فی الحال رمضان کِٹس کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ ان شاء اللہ جب تک ضرورت ہے ایسے ہی چلتا رہے گا۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here