ڈاکٹر اسلم جاوید
گزشتہ دوچارروز سے مسلم دانشوروں کے ساتھ کانگریس کے صدر راہل گاندھی کی ملاقات بحث و تکرار کا موضوع بنی ہوئی ہے ،بی جے پی ایک معاصر روزنامہ کی غیر مصدقہ خبر پر آگ بگولہ ہے اور اس نے مسلم دانشوروں کی ملاقات کو بہانہ بناکر 2019 کیلئے سیاسی ماحول بنانے میں سرگرم ہوگئی ہے۔حالاں کہ کانگریس نے بی جے پی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے قومی صدر راہل گاندھی کی مسلم دانشوروں کے ساتھ اس ملاقات کا مقصد سماج کی حقیقی صورت حال جاننا تھا۔ جبکہ بی جے پی نے کانگریس پر حملہ بول دیا ہے اور مسلسل یہ مطالبہ کررہی ہے کہ وہ بتائے کہ کیا صحیح معنی میں کانگریس پارٹی مسلمانوں کی سیاسی جماعت ہے۔بی جے پی نے راہل گاندھی سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کو بتائیں کہ انہوں نے کانگریس کو ایک’’مسلم پارٹی‘‘ کیوں کہاحالاں کہ یہ ایک سفید جھوٹ ہے،کانگریس کبھی بھی خود کو مسلمانوں کی پارٹی کہہ ہی نہیں سکتی ،ورنہ ساری دنیا اسے تھوکنا شروع کردے گی۔اس ایک بے بنیاد افواہ کو ایشو بناکر بی جے پی الزام لگارہی ہے کہ کانگریس ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہے اور اگر 2019 تک کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی ہوتی ہے تو کانگریس اس کیلئے ذمہ دار ہوں گی۔ سینئر بی جے پی رہنما سیتارمن نے پارٹی ہیڈکوارٹر میں صحافیوں کو بتایا کہ اخبار میں کہا گیا ہے کہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے مسلم دانشوروں سے بات چیت میں کہا ہے کہ کانگریس پارٹی مسلمپارٹی ہے۔ سیتارمن نے مزید کہا کہ ہم کانگریس کے صدر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آیا وہ یہ باور کرتے ہیں کہ یقیناکانگریس ایک مسلم سیاسی جماعت ہے؟
اس میں شبہ نہیں ہے کہ بی جے پی ابتداء سے ہی اکثریتی طبقہ کے درمیان یہ پروپیگنڈہ پھیلاتی رہی ہے کہ کانگریس پارٹی ہندوؤں کی مخالف سیاسی جماعت ہے ۔اسی ایشوکو اکثریتی طبقہ کے درمیان عام کرکے بی جے پی نے سیاست میں اپنے لئے مضبوط محاذ تیار کیا ہے اور اسی کے نتیجے میں 2014کے عام انتخابات میں وزیر اعظم کو ناقابل تسخیر کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔کانگریس پارٹی پر مسلمان کا لیبل لگائے رکھنا ہی بی جے پی کی سیاسی زمین ہموار رکھنے کا اہم راستہ ہے ،لہذا بی جے پی کو جیسے ہی راہل گاندھی کے حوالے سے یہ خبر لگی کہ انہوں نے مسلم دانشوروں کے سامنے یہ بات کہی ہے کانگریس پارٹی غریبوں اور کمزور طبقات کی نمائندہ جماعت ہے ،لہذا ملک کا جوبھی طبقہ غریب اور کمزور ہے کانگریس پارٹی اس کے ساتھ ہوگی۔اگر راہل گاندھی کے اس بیان کو حقیقی پیرائے میں دیکھا جائے تو دور دور تک اس بات کا ثبوت نہیں ملتاکہ انہوں نے کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی کہاہے۔مگر جن عناصر کو بی جے پی کے مفاد میں کام کرناہے انہوں نے منظم طریقے اس بیان کو غلط رخ دے کر برادران وطن کے درمیان بی جے پی کی شبیہہ کو اور بہتر انداز مین پیش کرنے کا موقع فراہم کردیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ بدھ کے روز راہل گاندھی نے کئی مسلم دانشوروں سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ کانگریس شروع سے ہی کمزوروں غریبوں اور نہتے عوام کی پارٹی رہی ہے۔بس اسی بات کو بنیاد کر معاصر اخبار نے یہ لکھ دیا کہ راہل گاندھی نے کہا ہے کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے، حالاں کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں سے کانگریس پارٹی اپنے اوپر لگے ہوئے ’مسلم پرستی‘ کے الزام کو دھونے کی کوشش میں جی جان سے لگی ہوئی ہے تاکہ وہ بھی بی جے پی کی طرح ہندوتوا کے سمندر میں غوطے لگاسکے۔ کانگریس پارٹی کا خیال ہے کہ بی جے پی نے اسے مسلمانوں کی پارٹی قرار دے کر ہندوؤں سے دور کردیا ہے اور یہی اس کی پے درپے شکستوں کا بنیادی سبب ہے۔اس سیاسی کشتی کو سمجھنے کیلئے ایک صحافی بیان کرتے ہیں کہ آپ کو ذرا پیچھے کی طرف جاناہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں کانگریس کی سابق صدر سونیاگاندھی نے’ انڈیا ٹوڈے‘کے ایک پروگرام کے دوران ممبئی میں کہاتھا کہ’’ بی جے پی نے کانگریس کی شبیہ ایک مسلم پارٹی کے طورپر پیش کی ہے جس سے پارٹی کو چناؤ میں نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ حالانکہ ہماری پارٹی میں ہندوؤں کی اکثریت ہے ،لیکن اس کے باوجود ہم پر مسلم نواز ہونے کا الزام لگایاجاتا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہاتھاکہ’’ کانگریس لیڈران اور وہ خود بھی مندروں میں جاتی رہی ہیں، لیکن بی جے پی نے کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی بتایا اور وہ اسے ثابت کرنے میں بھی کامیاب رہی۔‘‘ انہوں نے کہاکہ ’’ہم مندروں میں جاتے رہے ہیں۔ راجیو گاندھی کے ساتھ گھومنے کے دوران میں اس علاقے کے بڑے مندروں میں ضرور جاتی تھی، لیکن ہم نے کبھی اس کا پروپیگنڈہ نہیں کیا۔ ‘‘حالانکہ سونیاگاندھی نے یہ نہیں بتایا کہ بی جے پی کن بنیادوں پر کانگریس کو ’مسلم پرست‘ قرار دیتی ہے اور اس نے مسلمانوں کے لئے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے جس سے اس کے اوپر ’مسلم پرستی‘ کا لیبل لگایاجاتا ہے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو کانگریس نے مسلمانوں کے لئے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کبھی کچھ اور نہیں کیاہے۔ بی جے پی اور فسطائی قوتوں کا خوف دلاکر کانگریس پارٹی ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ اپنے قبضے میں رکھتی رہی ہے ،البتہ مسلمانوں کو دینے کے نام پرہمیشہ کانگریس کی جھولی خالی رہی ہے۔مسلمانوں کے نام پر کانگریس اپنے جتھے میں مٹھی بھر سفید پوش مسلم لیڈروں کو شامل رکھ کر یہ باور کراتی رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کی ترقی اور فلاح کیلئے سنجیدہ اور سرگرم عمل ہے۔جبکہ سچائی یہ ہے کہ کانگریس کا یہ مسلم ٹولہ ان وی وی آئی پی افراد پر مشتمل ہے جنہیں عام مسلمانوں کی ذات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔کانگریس کے ملک گیر سطح پر کتنے مسلم لیڈر ان ہیں ان کو انگلیوں پر شمار کیا جاسکتاہے اوروہ بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے زمینی سطح پر محنت کرکے ،مسلم سماج کے دبے کچلے اور حاشیہ پر ڈالے جاچکے لوگوں کیلئے جدوجہد کرکے لیڈری کاسرٹیفکیٹ حاصل نہیں کیا ہے ،بلکہ انہیں یہ سیاست وراثت میں ملی ہے ،وہ سبھی چاندی کے چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے ،لہذا مسلم عوام سے ان کابراہ راست کوئی واسطہ ہو ایسا سوچنا بھی تصور سے پرے ہے۔کانگریس اگر مسلمانوں کی ہمدرد جماعت ہوتی تو وہ راست طور پر مسلم عوام کے ربط میں ہوتی، ان کے مسائل کو ازخود سنتی اورپارٹی ’’شو بوائز‘‘ کے طور پر جن مسلم لیڈروں کو اپنے ساتھ رکھ کر مسلم تشٹی کرن کا الزام ڈھورہی ہے اور جس کی وجہ سے بی جے پی کو میدان ہموار کرنے کا موقع فراہم ہورہا ہے اس سے بھی نجات مل سکتی تھی۔مگر اس کیلئے کانگریس پارٹی کو مٹھی بھر نام نہاد مسلم لیڈروں کے حصار سے باہر نکل کر براہ راست مسلم عوام سے کھل کر بات کرنی ہوگی ،بند کمرے میں چندے جاہ پرست مسلم سفید پوشوں کو بلاکر میٹنگیں کرلینے اور واہ واہی لوٹ لینے سے اسے کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے ۔اور نہ اس قسم کی شعبدہ بازیوں سے وہ اپنے اوپر لگائے گئے مسلم تشٹی کرن کے الزام کا داغ دھونے میں کامیاب ہوپائے گی۔اب وقت آ گیاہے کانگریس پارٹی اس حصار سے باہر نکل کر مسلمانوں کے تمام طبقات جیسے تعلیم یافتہ طبقہ،تجارت پیشہ طبقہ اور ڈاکٹر،وکیل اور انجینئر جیسے شعبوں سے وابستہ طبقات اور ان کی تنظیموں کو ساتھ میں لائے۔اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس پارٹی بہلانے پھسلانے کی پالیسی ترک کرکے ایمانداری کیساتھ کمزوروں کی مدد کیلئے اپنی کمر کس چکی ہے۔مجھے یاد ہے 2009کے عام انتخابات میں سونیا گاندھی نے کانگریس کے انتخابی منشور وعدہ کیا تھا کہ اگر کانگریس دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو وہ اقلیتوں کیلئے ایک سینٹر ل یونانی یونیورسٹی قائم کرے گی۔ مگر اقتدار پالینے کے بعد اپنے اس انتخابی منشور کاکانگریس نے کیا حشر کیا اس کا جواب کانگریس پارٹی،اس کے ذمہ داران سونیا گاندھی ،راہل گاندھی اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ ہی بہتر طریقے سے دے سکتے ہیں۔
قول و عمل کے اس تضاد نے ہی مسلمانوں کے اعتماد کو مجروح کیا اور وہ کانگریس سے دور ہوتے چلے گئے۔یعنی مسلمانوں کیلئے پارٹی نے راست طور پر تو کیا کچھ بھی نہیں مگر تشٹی کا کرن کا الزام اپنے سرپر ڈلوانے میں کامیاب ہوگئی ،جس کا براہ راست فائدہ بی جے پی اٹھا رہی ہے۔ راہل گاندھی نے کہاکہ ملک کے مسلمان سب سے زیادہ کمزور ہیں ،ہماری پارٹی کمزوروں کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے۔اس کوشش کے ذریعہ کانگریس 2019 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کی تمام تر کوششیں کررہی ہے۔ اْنھیں ایک بار پھر مسلم برادری پر بھروسہ ہے۔ پہلی بار اْنہوں نے مسلم دانشوروں سے سیاسی موضوعات پر تبادلہ خیال کیاہے اور اْنھیں اپنی قیامگاہ 12 تغلق لین پر تقریباً 2 گھنٹے کے تبادلہ خیال کے لئے مدعو کیا تھا۔مگر یہاں بھی انہوں ٹھوکر کھائی مسلمانوں کا درد سمجھنے کیلئے براہ راست مسلمانوں کے سامنے جانے کے بجائے انہوں نے بندکمرے کی سیاست میں ہی کامیابی تصور کرلی۔اس موقع پر راہل گاندھی نے کہاکہ مَیں اور میری والدہ مسلمانوں کو اْن کے حقوق دینے کے لئے تیار ہیں اور اِس بات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔مگر یہ وہ ڈھکوسلہ ہے جو مشاہدہ کی شکل ملک کامسلمان آزادی کے بعد سے ہی کانگریس کی طرف سے دیکھتا آرہا ہے۔رندیپ سرجے والا اب کچھ بھی کہیں کہ اخبار نے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کیلئے اس قسم کی بے بنیاد خبر چلائی تھی ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے سنگھ کے ایک اخبار کے ذریعہ ہی یہ جھوٹی خبر چلواکراکثریتی طبقہ کو اپنی جانب مائل رکھنے کا راستہ نکال لیا۔اے کاش سنگھ کے فریب کو کانگریس اور راہل گاندھی سمجھ پائیں اور وی وی آئی پی کلچر سے باہر نکل کر براہ راست مسلمانوں اور تمام د بے کچلے طبقات دلتوں کمزوروں کو اپنے ساتھ لانے کی ایماندارانہ پالیسی اختیار کریں۔ تب ہی بی جے پی کی راہ روکنے میں راہل کامیاب ہوسکیں گے،ورنہ انہیں افسوس کے علاوہ کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
09891759909
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں