حج کی فضیلتوں کا بیان

0
1838
All kind of website designing

 

قسط نمبر (۳)

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

حج کے بے شمار فضائل ہیں، ہم ا ن فضائل کو اختصار کے ساتھ یہاں درج کرتے ہیں، تاکہ ہیں حج کی قدر و قیمت معلوم ہوجائے اور پھر اس راستے میں جس قدر تکلیفیں اٹھانی پڑے اور جو کچھ بھی خرچ ہوجائے، وہ خوشی خوشی ہم برداشت کرسکیں اور دین و دنیا کے اس لازال فائدے کے سامنے یہ خرچ ہمارے لیے ہیچ ہوجائے اور اس کی خاطر جتنی بھی صعوبتیں ہم کو برداشت کرنی پڑے ،وہ سہل ہو ۔

عن ابی ھریرۃؓ قال قال رسول اللہ وﷺ الحج المبرور لیس لہ جزاء الا لاجنۃ (متفق علیہ )

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نیکی والے حج کا بدلہ جنت کے سو اکچھ نہیں ہے ۔

بعض علماء نے کہا کہ حج مبرور کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی معصیت نہ ہو۔ اسی واسطے اکثر حضرات اس کا ترجمہ حج مقبول سے کرتے ہیں کہ جب آداب و شرائط کی رعایت ہوگی، کوئی لغزش اس میں نہ ہوگی، تووہ حج ان شاء اللہ مقبول ہوگا ۔اوربعض کے نزدیک حج مبرور وہ ہے کہ جس کے بعد حاجی کی حالت پہلی حالت سے اچھی ہوجائے۔ اور بعض اہل علم کے نزدیک حج مبروروہ ہے ،جس میں لوگوں کو کھانا کھلائے، اچھی بات کہے، لوگوں کو سلام کرے۔ (جنت کی کنجی )

حضرت جابرؓ کی حدیث میں ہے کہ حج کی نیکی لوگوں کو کھانا کھلانا اور نرم گفتگو کرنا ہے۔ کثرت سے سلام کرنا حج کی مقبولیت کا باعث ہے۔ (طبرانی)

ایک حدیث میں ہے کہ جب حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نیکی والے حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، تو صحابہ کرا مؓ نے دریافت فرمایا: حضور ﷺ! نیکی والا حج کیا ہے؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا: کھاناکھلانا ااور کثرت سے سلام کرنا۔ (کنز) 

عن ابی ھریرۃؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ: من حجَّ للّٰہ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امُّہ۔ (متفق علیہ )

حضر ت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جوشخص اللہ کے لیے حج کرے، اس طرح کہ اس حج میں نہ رفث ہو یعنی فحش بات اور نہ فسق ہو یعنی حکم عدولی، تو وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے گویا آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہواہے۔

جب بچہ پیدا ہوتا ہے، وہ معصوم ہوتا ہے، اس پر کوئی گناہ، کوئی لغزش، کسی قسم کی کوئی داروگیر ،کچھ نہیں ہوتا۔یہی اثر ہے اس حج کا، جو اللہ کے واسطے کیا جائے ۔ علماء کے نزدیک اس قسم کی احادیث سے صغیرہ گناہ مراد ہواکرتے ہیں؛ مگر حج کے بارے میں جو روایات بکثرت وارد ہوئی ہیں، ان کی وجہ سے بعض علماء کی یہ تحقیق ہے کہ حج سے صغائر اور کبائر سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جیسا کی معصوم بچہ ہر قسم کے گناہوں سے پاک صاف رہتا ہے۔ اگر ان کے صرف صغائر معاف ہوں، تو پھر معصوم بچہ کی طرح وہ پاک نہ ہوگا اور حضور ﷺ کا ارشاد گرامی غلط ہوجائے گا ۔

اس حدیث میں تین مضمون بیان فرمائے ہیں :

اول: یہ کہ اللہ کے واسطے حج کیا جائے، یعنی اس میں کوئی دنیوی غرض شہرت ،ریا وغیرہ شامل نہ ہو ۔ بہت سے لوگ شہرت اور عزت کی وجہ سے حج کرتے ہیں ۔ اگر چہ اس طرح اس کا فرض ضرور ادا ہوجاتا ہے؛ لیکن حج کے ثواب سے محروم رہ جاتا ہے ؛لیکن اگر محض اللہ کی رضا کی نیت ہو، تو فرض ادا ہونے کے ساتھ ثواب سے بھی مالامال ہوجائے گا۔ حج کے ثواب پر غور کرو اور باطل نیت کو جگہ نہ دو۔ شہر ت اور عزت تو بغیر نیت کے حاصل ہوگی ،پھر نیت بگاڑ کر ثواب کو کیوں کھویا جائے اور اس قدر نقصان کیوں برداشت کیا جائے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے قریب میری امت کے امیر لوگ حج محض سیرو تفریح کے ارادے سے کریں گے۔ (گویا لندن اور پیرس کی تفریح نہ کی حجازکی تفریح کرلی )۔ اور میری امت کا متوسط طبقہ تجارت کی غرض سے حج کرے گا کہ تجارتی مال کچھ ادھر سے لے گئے، کچھ ادھر سے لے آئے ۔اور علماء ریا اور شہر ت کی وجہ سے حج کریں گے ۔( کہ فلاں مولانا نے پانچ حج کیے، دس حج کیے )۔ اور غربا بھیک مانگنے کی غرض سے جائیں گے ۔( کنز العمال )

علماء نے لکھا ہے کہ جو لوگ اجرت کے سا تھ حج بدل کرتے ہیں کہ اس حج سے کچھ دنیوی نفع حاصل ہوجائے، وہ اس میں داخل ہے کہ گویا حج کے ساتھ تجارت کررہا ہے ۔

دوسری حدیث میں آیا ہے کہ بادشاہ اور سلاطین تفریح کی نیت سے حج کریں گے اور غنی لوگ تجارت کی غرض سے اور علما شہرت کی غرض سے اور فقرا سوال کی غرض سے حج کریں گے۔ ( اتحاف )

ان دونوں حدیثوں میں کچھ تعارض نہیں۔ پہلی حدیث میں جو غنی بتائے گئے ہیں، ان سے اعلیٰ درجے کے غنی مراد ہیں، جن کو دوسری حدیث میں سلاطین سے تعبیر کیا ہے، وہ سلاطین سے کم درجہ مراد ہے، جس کو پہلی حدیث میں متوسط طبقہ سے تعبیر کیا ہے ۔ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عمرؓ صفا مروہ کے درمیان ایک مرتبہ تشریف فرماتھے، ایک جماعت آئی، جواونٹوں سے اتری اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا، صفامروہ کے درمیان سعی کی۔ حضرت عمرنےؓ ان سے دریافت کیا:تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے عرض کیا: عراق کے لوگ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہاں کیسے آنا ہوا؟ انھوں نے عرض کیا:حج کے لیے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کوئی اور غرض تو نہ تھی، مثلا اپنی میراث کا کسی سے مطالبہ ہو ،یا کسی قرض دار سے اپناروپیہ وصول کرنا ہو، یا کوئی اورتجارتی غرض ہو؟ انھوں نے عرض کیا : نہیں ،کوئی دوسری غرض نہ تھی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ازسر نو اعمال کرو، یعنی پہلے کے سارے گناہ تمھارے معاف ہوچکے ہیں۔ (فضائل حج )

دوسری چیز حدیث بالا میں یہ ہے کہ اس میں رفث، یعنی فحش بات نہ ہو۔ اس بارے میں قرآن کی آیت بھی ہے:

اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَارَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ الْلّٰہُ۔

حج (کا زمانہ) چندمہینے ہیں، جو( مشہور و ) معلوم ہیں (یعنی یکم شوال سے دس ذی الحجہ تک )، پس جو شخص ان ایام میں اپنے اوپر حج مقر رکرے، (حج کااحرام باندھے )، تو پھر نہ کوئی فحش بات جائز ہے اور نہ عدولی حکمی درست ہے، اور نہ کسی قسم کا جھگڑا زیباہے۔ ( بلکہ اس کو چاہیے کہ ہر وقت نیک کام میں لگا رہے ۔اور جو نیک کام کروگے، حق تعالیٰ شانہ اس کو جانتے ہیں۔

فحش بات دو طرح کی ہوتی ہیں: ایک وہ جو پہلے سے بھی ناجائز تھی، اس کا گناہ حج کی حالت میں کرنے سے زیادہ ہوجاتاہے۔ دوسر ے وہ جو پہلے جائز تھی، جیساکہ اپنی بیوی سے بے حجابی کی بات کرنا، حج میں وہ بھی جائز نہیں رہتی۔ علمانے لکھا ہے کہ یہ ایک ایسا جامع کلمہ ہے، جس میں ہر قسم کی لغو اور بیہودہ بات داخل ہے، حتی کہ بیوی کے سامنے صحبت کا ذکر کرنا بھی داخل ہے اور آنکھ اور ہاتھ سے اشارہ کرنا بھی، جس سے شہوت برانگیختہ ہو؛ یہ سب لم یرفث میں داخل ہے ۔

تیسری چیز جو اس حدیث میں ذکر کی گئی ہے، وہ فسوق ہے، یعنی حکم عدولی نہ ہونا ہے۔ اس کا بھی مذکورہ بالا آیت میں تذکرہ ہے۔ یہ بھی ایک جامع کلمہ ہے، جو اللہ جل شانہ کی ہر قسم کی نافرمانی کو شامل ہے ۔اس میں جھگڑا کرنا بھی داخل ہے ،یہ بھی حکم عدولی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ حج کی خوبی نرم کلام کرنا اور لوگوں کو کھاناکھلانا ہے، لہذا کسی سے سختی سے گفتگو کرنا نرم کلامی کے منافی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں پر بار بار اعتراض نہ کیا کرے ، بدوؤں سے سختی سے پیش نہ آئے اور ہر شخص کے ساتھ تواضع اور خوش خلقی سے پیش آئے۔ علماء نے لکھا ہے کہ خوش خلقی یہ نہیں کہ دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائے، بلکہ خوش خلقی یہ ہے کہ دوسرے کی اذیت کوبرداشت کرے ۔

عن ابی ھریرۃؓ قال: سئل رسول ﷺ ای عمل افضل؟ قال: الایمان باللّٰہ ورسولہ۔ قیل: ثم ماذا ؟ قال: الجہاد فی سبیل اللّٰہ۔ قیل: ثم ماذا؟ قال: حج مبرور۔ (متفق علیہ )

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول للہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بہتر عمل کون سا ہے؟ آپ نے ﷺ نے فرمایا :اللہ اور اس کے رسو ل پر ایمان لانا۔ عرض کیا گیا: پھر کون ؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عرض کیا گیا :پھر کون؟آپﷺ نے فرمایا: حج مبرور۔

عن ابی ھریرۃؓ عن النبیﷺ انہ قال الحج والعماروفد اللّٰہ ان دعوہ اجابھم، وان استغفروہ غُفرلہ۔ (راوہ ابن ماجہ)

حضرت ابو ہریرہؓ بنی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ فرمایا کہ حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں، اگر وہ دعاکریں، خدا ان کی دعاکو قبول کرے اور اگر وہ خدا سے مغفرت چاہیں، خدا اس کو بخش دے۔

عن ابی ھرہرۃؓ قال: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: وفد اللّٰہ ثلاث: الغازی، والحاج، والمعتمر۔ (راوہ النسائی والبیھقی فی شعب الایمان)

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ اللہ کے مہمان تین شخص ہیں :غازی، حاجی اور عمرہ کرنے کرنے والے۔

عن ابن عمرؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ :اذا لقیتَ الحاجَّ فسلم علیہ وصافحہ ومرہ ان یستغفر لہ قبل ان یدخل بیتہ فانہ مغفور لہ۔( رواہ احمد )

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تو کسی حج کرنے والے سے ملے، تو اس کو سلام کر اور اس سے مصافحہ کر اور ان سے کہو کہ مغفرت کی دعا کریں، اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں آئے کہ اس لیے کہ اس کی بخشش ہوچکی ہے۔ 

حضرت عمرؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ حاجی کی بھی اللہ کے یہاں سے مغفرت ہے اور حاجی ۲۰؍ ربیع الاول تک جس کے لیے دعائے مغفرت کرے، اس کی بھی مغفرت ہے۔ سلف کا معمول تھا کہ حجاج کی مشایعت بھی کرتے تھے اور ان کا استقبال بھی کرتے تھے اور ان سے دعا کی درخواست کرتے تھے۔ (اتحاف ) 

عن ابی ھریرۃؓ قال: قال رسول اللہﷺ: العمرۃ الیٰ العمرۃ کفارۃٌ لما بینھما والحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ۔ ( متفق علیہ )

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک ان دونوں کے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے اورحج مبررو کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔

بعض کا قول ہے کہ حج مقبول کا نام حج مبرور ہے ۔اوربعض علماء کہتے ہیں کہ جس میں ریا اور نمود نہ ہو وہ حج مبرور ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جس کے بعدگناہ نہ ہو ۔حسن بصری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حج کرنے کے بعد دنیا سے بے توجہی اور آخرت کی طرف رغبت پیدا ہوجائے ۔(معلم الحجاج)

عن ابن مسعودؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ: تابعوا بین الحج والعمرۃ فانھما ینفیان الفقر والذنوب کما ینفی الکیر خبث الحدیدوالذھب والفضۃولیس للحج المبرور ثواب الا الجنۃ۔ (رواہ الترمزی و النسائی ورواہ احمد وابن ماجہ عن عمر الی قولہ خبث الحدید)

حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حج اور عمرہ کو ملاؤ، اس لیے کہ وہ دونوں فقر اور گناہوں کو دور کرتے ہیں، جیسے بھٹی لوہے سونے اور چاندی کے میل کودور کرتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔(مشکوٰۃ)

اس سے قران کی فضیلت ظاہر ہوئی ۔

عن ابی ھریرۃؓ قال: قال رسول اللہﷺ: من خرج حاجا أو معتمرا أوغازیا ثم مات فی طریقہ، کتب اللّٰہ لہ اجر الغازی و الحاج والمعتمر۔(رواہ البیہقی فی شعب الایمان )

حضرت ابو ھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو حج یا عمرہ یا جہاد کے لیے نکلا، پھر راستے میں مرگیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے غازی، حاجی اور عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھے گا۔ (مشکوۃ)

یعنی عمل پورا نہ ہونے کے باوجود پورا ثوب ملے گا، جبکہ حج یا عمرہ یا جہاد کے لیے نکل پڑا۔ 

عن ابی ھریرۃؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ :من خرج حاجا فمات کتب لہ اجرالحاج الیٰ یوم القیامۃ، ومن خرج معتمرا فمات کتب لہ اجر المعتمر الٰی یوم القیامۃ، ومن خرج غازیا فمات کتب لہ اجر الغازی الیٰ یوم القیامۃ۔ (رواہ ابو یعلی من روایۃ ابن اسحٰق و بقیۃ رواتہ ثقات کذا فی الترغیب )

حضرت ابو ھریرہؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص حج کے لیے نکلا اور راستے میں انتقال ہوگیا، اس کے لیے قیامت تک حج کا ثواب لکھا جا ئے گا۔ ( اسی طرح ) جو شخص عمرہ کے لیے نکلا اور (راستے میں)انتقال کرگیا، اس کو قیامت تک عمرہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ اور جو شخص جہادکے لیے نکلا، پھر مرگیا، اس کے لیے قیامت تک مجاہد کا ثواب لکھا جائے گا ۔

ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لیے نکلے اور مر جائے، نہ اس کی عدالت میں پیشی ہے، نہ حساب کتاب۔ اس سے کہدیا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا ۔(ترغیب )

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا : جوشخص اپنے گھر سے حج یا عمرہ کے راستے سے نکلا اور راہ میں مرگیا، وہ شخص بغیر حساب کے جنت میں داخل کردیا جائے گا۔اللہ تعالی خانہ کعبہ کے طواف کرنے والوں پر فخر کرتا ہے۔ ( بیہقی، دارقطنی) 

ایک حدیث میں ہے کہ جواحرام کی حالت میں مرے گا، وہ حشر میں لبیک کہتاہوا اٹھے گا۔ ( کنز العمال)

ایک حدیث میں کہ ہے آدمی کے مرنے کی بہترین حالت یہ ہے کہ حج سے فراغت پر یا رمضان کے روزے رکھ کر مرے۔ (کنز)

عن بریدۃؓ قال: قال رسول اللہﷺ: النفقۃ فی الحج کالنفقۃ فی سبیل اللّٰہ بسبع ماءۃضعف۔ (رواہ احمد ولاطبرانی واسناداحمد حسن کذافی الترغیب )

حضرت بریدہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: حج میں مال خرچ کرنا جہاد میں مال خرچ کرنے سے سات سو حصے ثواب میں زیادہ ہے ۔ 

ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے ارشاد فرمایا کہ تیرے عمرہ کا ثواب تیرے خرچ کی بقدر ہے، یعنی جتنا زیادہ اس میں خرچ کیا جائے گا، اتنا ہی اس میں ثواب ملے گا ۔

ایک حدیث میں ہے کہ حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، جس کا ثواب سات سو درجہ زیادہ ہوتا ہے۔ (کنز) 

ایک حدیث میں آیا ہے کہ حج میں خرچ کرنا ایک درم چار کروڑ درم کے برابر ہے، یعنی ایک روپیہ چار کروڑ روپیے خرچ کرنے کے برابر ہے۔ اس کے بعد بھی مسلمان وہاں جاکر روپیے خرچ کرنے میں بخل اور کنجوسی کا خیال کرے تو کس قد رخسارے کی بات ہے۔ (فضائل حج )

عن جابرؓ رفعہ مااعمر حاج قط قیل لجابر: ماالامعار؟ قال: ما افتقر۔ ( رواہ الطبرانی فی الاوسط والبزار ورجالہ رجال الحصحیح کذا فی الترغیب ) 

حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حاجی کبھی فقیر نہیں ہوسکتا ۔

ایک حدیث میں ہے کہ حج کرو ،غنی بنوگے۔ سفر کرو، صحتیاب ہوگے۔ (کنز )

تبدیل آب و ہوا صحت کا سبب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ لگا تار حج و عمرہ فقر اور گناہوں کو ایسا دور کرتے ہیں، جیساآگ کی بھٹی لوہے کے میل کو دور کرتی ہے۔ (کنزالعمال)

ایک حدیث میں ہے کہ لگاتار حج و عمرہ برے خاتمہ سے بھی حفاظت کا سبب ہے اور فقر کو بھی روکتے ہیں۔ (کنز العمال)

لگا تارحج و عمرہ کا مطلب یہ ہے کہ حج اور عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھاجائے، جس کو اصطلاح میں قران کہتے ہیں۔یعنی قران برے خاتمے اور فقر سے روکتا ہے اور گناہوں کو دور کرتا ہے ۔

عن ابی موسیٰؓ رفعہ الی النبی ﷺ قال: الحاج یشفع فی اربع ماءۃ اھل بیت أو قال من اھل بیتہ، ویخرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ (رواہ البزاروفیہ راو لم یسم کذا فی الترغیب)

حضرت ابو موسیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حاجی اپنے خاندان کے چار سو آدمیوں کی شفاعت کرے گا اور حاجی اپنے گناہوں سے ایسا پا ک ہوجاتا ہے، گویاآج ہی اپنی ماں کی پیٹ سے پیدا ہوا ہے ۔

عن ابن عبا سؓ مرفوعا: من حج الیٰ مکۃ ماشیا حتی رجع کتب لہ بکل خطوۃ سبعماءۃ حسنۃ من حسنات الحرم، قیل: وما حسنا ت الحرم؟ قال: کل حسنۃ بماءۃ الف حسنۃ۔ (صححہ الحاکم کذا فی العینی قلت وفی المستدرک بلفظ من حج من مکۃ ماشیا حتی رجع الی مکۃ الحدیث و ھکذا فی الکنز)

حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے مکہ تک پیدل چل کرحج کیا، یہاں تک کہ وہ گھر لوٹ آیا، تو اس کے لیے حرم کی نیکیوں میں سے سات سو نیکیاں لکھی جائیں گی۔ کہا گیا: حرم کی نیکیاں کیا ہیں؟ فرمایا: ہر نیکی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے ۔(حاکم )

اس حساب سے سات سو نیکیاں سات کروڑ کے برابر ہوگئیں۔ اور ہر ہر قدم پر یہ ثواب ہے، تو سارے راستے کے ثواب کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے ۔اور یہی حدیث مستدرک میں اس طرح ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے مکہ سے پیدل چل کر حج کیا، یہاں تک کہ وہ مکہ لوٹ آیا ،تو اس کے لیے ہر قدم پر حرم کی نیکیوں میں سے سات سو نیکیاں لکھی جائیں گی۔ کسی نے عرض کیا: حرم کی نیکیاں کیا ہیں؟ فرمایا: ہر نیکی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے ۔

حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے بیماری کی حالت میں اپنی اولاد کے سامنے بیان کیا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جس نے مکہ معظمہ سے پیادہ پا حج کیا، اس کے ہر قدم پر سات سو نیکیاں للھی جاتی ہیں، یہاں تک کہ مکہ واپس آجائے اور ہر نیکی حرم کی نیکی کے برابر ہوتی ہے۔ ابن عباسؓ سے ان کی اولاد نے پوچھا: حرم کی نیکی کیا ہے؟ فرمایا: ہر نیکی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے ۔(ابن خزیمہ)

مطلب یہ ہے کہ حاجی اپنے مکان سے سواری پر جائے، لیکن مکہ پہنچ کر منیٰ اور عرفات پیدل جائے اور مکہ معظمہ بھی پیدل ہی آجائے تو اس کوہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں ملیں گی۔ اگر گھر سے پیدل حج نہ کرسکے، تو کم از کم مکہ سے منیٰ اور عرفات پیدل ہی جائے اور آئے۔ اور اس میں کوئی دشواری بھی نہیں۔ مکہ سے منیٰ صرف تین میل ہے اور منیٰ سے عرفات چھ میل ہے۔ آٹھویں ذی الحجہ کو تین میل اور نویں کو چھ میل طے کرنا کچھ مشکل نہیں ہے اور ثواب کی کچھ انتہا نہیں ۔

حضر ت آدم علیہ السلام نے ہندستان سے چالیس حج پید چل کر کیے ہیں۔(اتحاف )

اور ایک روایت میں ہے کہ ہزار حج پیدل چل کر کیے ہیں۔ (ترغیب )

حضرت مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما السلام پیدل حج کیا ہے ۔(درمنثور)

مغیرہ ابن حکیم سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے مکہ سے چل کر پچاس سے زیادہ حج کیے ہیں۔ اورابو العباس سے نقل کیاگیا ہے کہ انھوں نے ۸۰؍ اسی حج پیدل کیے ہیں۔ اور ابوعبداللہ مغربی نے ستانوے حج پیدل کیے ہیں ۔(اتحا ف)

ہے ریت عاشقوں کی تن من نثار کرنا 

رونا ستم اٹھانا دل سے نیاز کرنا

عن عائشۃؓ مرفوعا: ان الملائکۃ تصافح رکبان الحج وتعتنق المشاۃ ( اخرجہ البیہقی عنھا وضعفہ) 

حضرت عائشہؓ حضور ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ فرشتے ان حاجیوں سے جو سواری پر آتے ہیںِ ان سے مصافحہ کرتے ہیں اور جو پیدل چل کر آتے ہیں، ان سے معانقہ کرتے ہیں ،یعنی گلے ملتے ہیں ۔

اور ابن ماجہ میں ہے کہ ملائکہ ان حاجیوں سے مصافحہ کرتے ہیں جوسواری پر جاتے ہیں اور ان حاجیوں سے معانقہ کرتے ہیں، جو پیدل جاتے ہیں ۔

طبرانی میں ہے کہ سوار حاجی کے لیے ہر قدم پر جس کو وہ طے کرتا ہے، سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔

عن ابی ھریرۃؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ :اذا خرج الحاج حاجا بنفقۃ طیبۃ و وضع رجلہ فی الغرز فنادیٰ لبیک اللّٰھم لبیک ناداہ مناد من السماء لبیک و سعدیک زادک حلال وراحلتک حلال وحجک مبرور غیر مازور واذا خرج بالنفقۃ الخبیثۃ فوضع رجلہ فی الغرز فنادیٰ لبیک ناداہ مناد من السماء لا لبیک لاسعدیک زادک حرام ونفقتک حرام و حجک مازور غیر مبرور(رواہ الطبرانی فی الاوسط ورواہ الاصبھانی من حدیث اسلم مولیٰ عمر مرسلا مختصرا کذا فی الترغیب و فی الاتحاف بتخریج ابی ذر الھروی فی منسکہ عن ابی ھریرۃ بلفظ اٰخر زائداعلیہ و فی الکنز بمعناہ عن عمرو انس و غیرھما)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب حاجی حلال مال کے ساتھ حج کو نکلتاہے اور سواری پر سوار ہو کر کہتا ہے: لبیک اللھم لبیک ،تو فرشتہ بھی آسمان سے (اس کی تائید اور تقویت میں )لبیک و سعدیک کہتا ہے اور کہتا ہے: تیرا توشہ حلال، تیری سواری حلال اور تیرا حج مقبول ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں۔ اورجب حر ام مال کے ساتھ حج کو نکلتا ہے اور سوار ی پر سوار ہو کر لبیک کہتا ہے، تو ایک پکار نے والا آسمان سے پکار کر کہتا ہے: نہ تیرا لبیک ہے اور نہ تیر اسعدیک۔ تیر اتوشہ حرام، تیرا خرچہ حرام، تیرا حج کر نا گناہ ہے، نیکیوں والا حج نہیں ہے ،یعنی تیرا حج مردود ہے، مقبول نہیں ۔

ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص حرام مال سے حج کرے، پھر کہے: لبیک اللھم لبیک، تو اللہ بزرگ برتر فرماتا ہے :

لا لبیک لا سعدیک وحجک مردود علیک (رواہ الشیرازی ابو مطیع)

یعنی تیر ا نہ حج مقبول، نہ سعدیک مقبول، تیرا حج تیرے منہ پر ماراگیا۔ 

اس لیے اس سفر میں نہایت پاکیزہ اور غیر مشکوک مال ساتھ لینا چاہیے تاکہ حج مقبول ہو اور بجائے ثواب کے عذاب نہ ہو۔ 

حضرت عمرو ابن عنبسہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سب سے بہترین عمل تو ایمان لانا ہے، اس کے بعدہجرت اور جہاد، پھر دو عمل ایسے ہیں کہ ان سے بہتر کوئی عمل فضیلت میں نہیں ہے: ایک حج مقبول۔ دوسرا عمرہ مقبول ۔(احمد)

حضرت جابر ابن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ حج اورعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اللہ نے ان کو بلایا تھا، سو وہ آئے۔ انھوں نے اللہ سے جو مانگا، اللہ نے ان کو دیا۔ (بزار)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے حاجیوں کے لیے دعافرمائی ہے: الٰہی! حج کرنے والوں کو بخش دے اور جن کے لیے وہ مغفرت طلب کرے، ان کو بھی بخش دے۔ (ابن خزیمہ)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: حاجی کی مغفرت کردی جاتی ہے اور جس کے لیے وہ مغفرت طلب کرے۔ (بزار)

حضرت حسینؓ فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا: حضور میں کمزور بھی ہوں اور بزدل بھی، فرمایا: ایسا جہاد کر جس میں کانٹا بھی نہ لگے۔ اس نے عرض کیا: ایسا جہاد کون سا ہے جس میں تکلیف نہ پہنچے ؟فرمایا: حج کیا کرو۔ ( طبرانی )

حضرت ماعزؓ سے روایت ہے کہ سرکار دعالم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ حضور کونسا عمل افضل ہے؟آپ ﷺنے فرمایا: اللہ پرایمان لانا اور جہاد کے بعد حج مقبول کو تمام اعمال پر اتنی فضیلت ہے ،جیسا مشرق اور مغرب کے درمیان کا فاصلہ۔ ( احمد، طبرانی )

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حج مقبول کا بدلہ جنت ہی ہے ۔غریبوں کو کھانا کھلانا ،نرمی سے گفتگو کرنا ،کثرت سے سلام کرنا حج مقبول کا باعث ہے۔(طبرانی )

حضرت عبد اللہ بن جریرؓ سے روایت ہے کہ بنی کریم ﷺ نے فرمایا: اے لوگو!حج کرو کیوں کہ حج گناہوں کو اس طرح دھودیتا ہے، جیسے پانی میل کو صاف کردیتا ہے۔ (طبرانی )

حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ کے بنی داؤد علیہ السلام نے التجا کی کہ الٰہی! جو بندہ تیرے گھر کی زیارت کرنے آئے، اس کو کیا ثواب ملے گا ؟ حق جل مجدہ نے فر مایا: اے داؤد! وہ میرے مہمان ہیں ،ان کا یہ حق ہے کہ دنیا میں ان کی خطائیں معاف کردوں اور آخرت میں وہ جب مجھ سے ملاقات کریں، تو ان کی بخش دوں۔ (طبرانی )

حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ حج کرنے کا ثوا ب جہاد سے چالیس گنا زیادہ ہے ۔(بزار بطولہ)

جب کہ آدمی کمزور اور بزدل ہو، اس کا جہا دمیں شریک ہونا نہ ہونا برابرہو، تو اس کے لیے حج کرنا جہاد کرنے سے چالیس گنا زیادہ ثواب ہے؛ لیکن اگر قوی ،دلیر ہو، جس کا جہاد میں ہوناضرروی ہو، اس کے لیے جہاد افضل ہے حج سے ۔جیسا کہ دوسری روایتوں سے جہاد کی فضیلت حج پر ثابت ہے ۔

حضرت سہل ابن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ بنی کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان عصر کے بعد جہاد، یا حج کی نیت سے نہیں چلتا؛ مگر سور ج اس کے گناہو ں کو لے کر غروب ہوجاتا ہے۔ یہ شخص اپنے گناہوں سے بالکل پاک ہوجاتا ہے۔ (طبرانی )

اس سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد حج کے لیے نکلنا افضل ہے ۔ 

عن ابن عمرؓ قال: سئل رجلٌ رسولَ اللّٰہ ﷺ فقال: ما الحاج؟ قال: الشعث التفل، فقام اٰخر، فقال: یا رسول اللّٰہ! ای الحج افضل؟ قال: العج والثج، فقام اٰخر، فقال: یا رسول اللّٰہ! ما السبیل؟ قال: زاد و راحلۃ۔ (رواہ فی شرح السنۃوروی ابن ماجہ فی سنن الا انہ لم یذکر الفصل الاخیر )

حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے کسی نے سوال کیا کہ حاجی کون ہے ؟آپﷺ نے فرمایا :جس کے بال پریشان، میلا کچیلا ہو۔( یعنی غربت مسکنت ظاہرہو تی ہو)۔ پھر دوسرا کھڑ ا ہو ا اور عرض کیا: یارسول اللہ! کون سا حج افضل ہے ؟ فرمایا: خوب تلبیہ پڑھا جائے اور قربانی کی جائے۔ ایک تیسرا کھڑا ہوا اور عرض کیا :یا رسول اللہ! سبیل کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: توشہ اور سواری۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here