مسائل حج ، حج کی تعریف، قصہ حجۃ الوداع

0
1945
All kind of website designing
بِسْمِ الْلّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَ عَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْنَ۔
حج کی تعریف
قسط (۱)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
 

مخصوص زمانہ میں مخصوص افعال کے ساتھ خانۂ کعبہ کی زیارت کا نام حج ہے۔ (نور الایضاح)
حج زندگی کا ایک اہم فریضہ ہے ، جو مسلمانوں پر ۹ھ میں فرض ہوا تھا؛ لیکن رسول اللہ ﷺ خود وفود کی کثرت اور غزاوات کے اہتمام کی وجہ سے تشریف نہ لے جاسکے، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر الحاج بناکر مکہ روانہ کیا، تاکہ وہ لوگوں کو اسلامی شریعت کے موافق حج کرائیں۔ اور نقض عہد کے احکام سنانے کے لیے سورہ براء ت آپ کے ساتھ کردی؛ لیکن جب یہ خیال آیا کہ عرب عہد کے متعلق اقارب ہی کا پیغام قبول کرتے ہیں، تو پیچھے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا۔ (نشر الطیب)
حضرت علی رضی اللہ عنہ آں حضرت ﷺ کی اونٹنی عضباء پر سوار ہوکر چلے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب آں حضرت ﷺ کی اونٹنی کی آواز پیچھے سے سنی، تو گمان ہوا کہ خود آں حضرت ﷺ تشریف لارہے ہیں ، ٹھہر گئے، دیکھا تو حضرت علیؓ ہیں۔ پوچھا : آپ امیر بن کرآئے ہیں یا مامور؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: امیر تو آپ ہی ہیں، صرف سورہ براء ت سنانے کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد مکہ پہنچ کر حضرت ابوبکرؓ نے سب کو حج کرایااور حضرت علیؓ نے سورہ براء ت پڑھ کر سنائی اور یہ پیغام دیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور خانہ کعبہ کا طواف کوئی ننگا ہوکر نہ کرے۔ مسلمانوں کے سوا کوئی جنت نہ جائے گا۔ کافروں میں سے جس نے عہد میعادی باندھا ہے، وہ میعاد پوری کرلے۔ اور جس کا عہد بے میعاد ہے، یا مطلق عہد ہی نہیں ہے، اسے چار ماہ کی امان ہے، اس کے بعد اگر مسلمان نہ ہوگا، تو قتل کردیا جائے گا۔ (تواریخ حبیب الہ)

قصہ حجۃ الوداع

۱۰ ؁ میں آپﷺ خود حج کے لیے تشریف لے گئے اور آپﷺ نے ایسے باتیں فرمائیں ،جیسے کوئی کسی کو وداع یعنی رخصت کررہا ہو ،اسی لیے یہ حج حجۃ الوداع کہلایا ،آپﷺ کے حج کی خبر سن کر مسلمان ہر طرف سے جمع ہونے لگے اور ایک لاکھ سے زیادہ مجمع ہوگیا۔اور اسی حج میں جمعہ کے دن نویں ذی الحجہ کو جس دن وقوف عرفہ ہوتاہے اور جو سید الایام ہے آیت :
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسَلَامَ
دِیْنَاً۔
نازل ہوئی۔ (نشر الطب)
حجۃ الوداع کا قصہ مسلم کی ایک مفصل روایت میں ہے، جس سے حج ادا کرنے کی کیفیت کے ساتھ بہت سے مسائل پر بھی روشنی پڑجاتی ہے ۔وہ یہ ہے:
عَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِ الْلّٰہِ رَضِیَ الْلّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ الْلّٰہِ ﷺ مَکَثَ بالمدینۃ تسع سنین لم یحج ثم اذن فی الناس با لحج فی العاشرۃ ان رسوال اللہ ﷺ حاج فقدم المدینۃ بشر کثیر کلھم یلتمس ان یا تم برسول اللہ ﷺو یعمل مثل عملہ فخرجنا معہ حتی اذا اتینا ذاالحلیفۃ فولد ت اسماء بنت عمیس محمد بن ابی بکر فارسلت الی رسول اللہ ﷺ کیف اصنع قال اغتسلی واستشفری بثوب واحرمی۔
حضرت جابرابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مدینہ میں نو سال تک قیام فرمایا، جس میں حج نہیں کیا ،پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺحج کرنے والے ہیں ۔پھر تو بہت سے لوگ مدینہ میں آگئے ۔ہر ایک کی یہ جستجو تھی کہ ہم رسول اللہ کی اقتدا کریں اور آپﷺ کی طرح ہم بھی عمل کریں۔ پس ہم لوگ آپﷺ کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ جب ہم ذوالحلیفہ پہنچے، تو اسماء بنت عمیس کو محمد ابن ا بی بکر لڑکا پید اہوا ۔
( ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ میل کے فاصلہ پر ہے اور یہی مدینہ والوں کے لیے یا جو مدینہ کی طر ف سے آئے، ان کے لیے میقات ہے۔ آج کل اسی کو بئر علی کہتے ہیں)۔یہیں پر حضرت ابو بکرؓ کی بیوی حضرت اسماءؓ کو لڑکا پیدا ہوا، جس کا نا محمد رکھا) حضرت اسماءؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ میں کیسے کروں؟ ( یعنی کس طرح احرا م باندھوں ) آ پﷺ نے فرمایا: تو نہالے اور لنگوٹ کس لے اور احرام باندھ لے( احرام کے لیے غسل کرنا مسنون ہے اگر چہ حائض اور نفسا ہو۔ اور یہ غسل بدن کی صفائی کے لیے ہے، طہارت کے لیے نہیں ؛ ورنہ حیض و نفاس والی کو غسل کاحکم نہ ہوتا؛ کیوں کہ ان کو نہانے کے باوجود طہارت حاصل نہیں ہوتی، البتہ بدن کی صفائی ضرورہوجاتی ہے )
پھر رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں دورکعت نماز پڑھی(احرام کے لیے وضو و غسل کے بعد دورکعت نماز پڑھنا بھی مسنون ہے اور یہ دو رکعت نماز احرامی کپڑے پہن لینے کے بعد پڑھے تاکہ نما زکے متصل احرام باندھ لے؛ مگر یہ نماز سر چھپا کر پڑھے، کیوں کہ احرام سے قبل کی نماز بے سلے ہوئے کپڑے بھی پہن کر پڑھ سکتا ہے، لیکن احرام کے لیے سلے ہوئے کپڑے اتار دے اور اس کے بعد احرام باندھے۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بعد ہی احرام باندھا تھا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی حدیث میں ہے :
فلما صلی فی مسجدہ بذی الحلیفۃ رکعتیہ اوجب فی مجلسہ فاھل بالحج حین فرغ من رکعتیہ (ابو داؤد)
جب آپﷺ نے ذی الحلیفۃکی مسجد میں نما زپڑھی، تو آپ ﷺنے اسی مجلس میں حج واجب کر لیا، پھر آپﷺ نے حج کا تلبیہ پڑھا، جس وقت دورکعت سے فارغ ہوئے اور دوبارہ تلبیہ اس وقت پڑھا جب اونٹنی پر بیٹھے )
پھر آپﷺ قصوا ء پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ آپﷺ کو لے کر میدان میں کھڑی ہوئی، تو میں نے نگاہ بھر اپنے سامنے سوار اور پیدل کو دیکھا ۔اسی طرح دائیں اور اسی طرح بائیں اور اسی طرح ان کے پیچھے ۔پھر آپ ﷺنے بلند آواز سے تلبۂ توحید پڑھا :
لَبَّیْکَ اَلْلّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ۔
اور لوگوں نے بھی اپنے اپنے طریقے سے تلبیہ پڑھا ( یعنی مذکورہ بالا تلبیہ پر کچھ بڑھاکر تلبیہ پڑھا، چنانچہ مسلم کی روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر مذکورہ بالا تلبیہ پر اضافہ فرماتے اور کہتے:
لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرَ بِیَدَیْکَ لَبَّیْکَ وَالرَّغْبَاءُ اِلَیْکَ وَالْعَمَلُ
ہدایہ میں ہے کہ حضور ﷺکے تلبیہ میں زیادتی کرنا جائز ہے کم کرنا جائز نہیں۔
تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی کچھ تردید نہیں کی اور آ پ ﷺنے تلبیہ لازم کرلیا ۔یعنی برابر پڑھتے رہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ تو صرف حج کی نیت کررہے تھے ،عمرہ کو نہ جانتے تھے ۔( زمانہ جاہلیت میں حج کے موسم میں عمرہ کرنا بدترین گناہ سمجھتے تھے ۔ اسی عقیدے کے موافق حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم صر ف حج کو جانتے تھے اور حج ہی کی نیت رکھتے تھے )یہاں تک کہ ہم لوگ آپ ﷺکے ساتھ خانہ کعبہ پہنچے، تو آپ ﷺنے حجراسود کو بوسہ دیا اور اس کو چھوا۔پھر سات پھیرے کعبہ کا طواف کیا ،تین پھیرے میں اکڑ کر چلے اور باقی چار پھیرے اپنی چال سے چلے ( چوں کہ اس سفر کا مقصد ہی بیت اللہ کی زیارت ہے، اس لیے مکہ آکر سب سے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرے اور طواف کو حجراسود کے استلام سے شروع کرے۔ اگر اس طواف کے بعد صفا مروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہو،تو طواف کے تین پھیروں میں رمل کرے اور پورے طوا ف میں اضطباع کرے اور طواف کے ہر پھیرے کے بعد حجر اسود کاا ستلام کرے ۔یہ طواف مفرد کے لیے طواف قدوم ہوگا اور متمتع اور قارن کے لیے عمرہ ہوگا۔ متمتع کے لیے طواف قدوم نہیں ہے اور قارن عمرہ سے فارغ ہوکر طواف قدوم کرے ۔تو قارن کے لیے دو طواف اور دو سعی ہیں: ایک عمرہ کے لیے اور دوسرا طواف قدوم کے لیے۔ چنانچہ آنحضور ﷺ نے دو طواف اوردو سعی کیے تھے ۔ دار قطنی کی روایت میں ہے:
ان النبی ﷺطافَ طوافَینِ وسَعَیٰ سَعْیَنِ)
پھر آ پﷺ مقام ابراہیم پر آئے اور پڑھا :
وَاتَّخِذُوْامِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلَّیٰ۔
پھر دورکعت نماز پڑھی۔ (طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اور یہ نماز مقام ابراہیم میں پڑھنا مسنون ہے۔ اگر وہاں موقع میسر نہ ہو تو دوسری جگہ پڑھیں ۔ اگر وقت مکروہ ہو تو اس وقت نہ پڑھیں؛ بلکہ دوسرے وقت میں پڑھیں۔)تو آپﷺ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان میں کیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے دونوں رکعتوں میں قل ھو اللہ احد اور قل یا ایھاالکافرون پڑھا او ر حجر اسود کی طرف لوٹے اوراس کو بوسہ دیا پھر دروازے سے صفا کی طرف نکلے)
جب آپ ﷺصفاکے قریب پہنچے ،توآپﷺنے پڑھا:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِالْلّٰہِ
میں سعی اسی سے شروع کروں گا، جس سے اللہ نے اپنا بیان شروع کیا ہے، یعنی صفا سے( سعی کا صفا سے شروع کرنا واجب ہے اگر مروہ سے شروع کی، تو وہ سعی میں شمار نہ ہوگا)پھر آپﷺ صفا پر چڑھے، یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھ لیا، پھر قبلہ کا اسقتبا ل کیا، پھر اللہ کی توحید بیان کی ،اس کی بڑائی کی اور فرمایا:
لا الہ اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر لا الہ اللہ وحدہ انجزوعدہ ونصرعبدہ وھزم الحزاب وحدہ
پھر اس کے درمیان دعا کی۔ آپﷺ نے اسی طرح تین مرتبہ فرمایا (مسنون یہی ہے کہ صفا پر اتنا چڑھے کہ دروازہ سے بیت اللہ نظر آنے لگے اور یہ مقصدپہلی دوسری سیڑی پر چڑھنے ہی سے حاصل ہوجاتا ہے۔ جاہلوں کی طرح بالکل پہاڑ پر نہ چڑجائے کہ وہ سنت کے خلاف ہے پھر استقبال قبلہ کرے اور تکبیر تہلیل اور تحمید کے بعد دعا مانگے اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے)پھر آپﷺ صفا سے اترے اور مر وہ کی طرف چلے ،یہاں تک کہ آپ ﷺبطن وادی میں اترگئے۔ پھر آپ ﷺدوڑے یہاں تک کہ آپﷺ بلندی کی طرف چڑ ھنے لگے توآپ ﷺاپنی چال سے چلے یہا ں تک کہ مروہ پر آئے (جہاں سے جہاں تک صفا مروہ کے درمیا ن آپ ﷺنے دوڑلگا ئی ہے، دونوں کے سرے پر سبز پتھر نصب کردیے ہیں، لیکن صفا کی طرف والا میل چھ ہاتھ مسعیٰ کے اندر ہے، اس لیے جب میل چھ ہاتھ کے فاصلہ پر رہ جائے ،تو وہیں سے دوڑلگائے، مسعیٰ کے سرے پر اس کو نصب کرنے کا چوں کہ موقع نہیں تھا، اس لیے چھ ہاتھ اندر مسجد کی دیوار میں نصب کردیا۔پھر آپﷺ نے مروہ پر ویسا ہی کیا، جیسا صفا پر کیا، یعنی مروہ پر اتنا چڑھے کہ بیت اللہ نظر آنے لگے ،پھر تلبیہ، تہلیل ،تحمید کی اور دعا مانگی؛ یہی مسنون طریقہ ہے۔صفا سے مروہ تک یہ ایک شوط یعنی پھیرا ہوا )
یہاں تک کہ جب آپ ﷺکا آخری طواف مروہ پر ہوا ( یعنی سات چکر مروہ پر آکر پورے ہوگئے )تو آپ ﷺنے مر وہ پر سے لوگوں کو پکارا اور لوگ نیچے تھے، پس آپﷺ نے فرمایا :جو کچھ مجھے پیچھے معلوم ہو ا،اگر میں اس کو پہلے جا نتا تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لیتا اور میں نے اس کو عمرہ کر لیا (طواف اور سعی کو میں نے عمرہ میں شمار کیا ،تم لوگ بھی اس کو عمرہ کر لو، آگے حج کا عمل ہوگا اور سر منڈاواکر عمرہ کے احرام کو ختم کر دو اور عمرہ سے حلال ہوجاؤ،مگر کسی نے سر نہیں منڈایا، سب آپﷺ کو دیکھنے لگے کہ دیکھیں آپﷺ سر منڈاتے ہیں یا نہیں، تو آپﷺ نے اپنا عذر بیان فرمایا کہ میرے ساتھ چوں کہ قربانی کا جانور ہے ،اس لیے میرے لیے عمرہ سے حلال ہونا درست نہیں ہے۔ اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا کی میری اطاعت نہ کریں گے اور وہ میری عمل کی اقتدا کریں گے، تو میں قربانی کا جانورہی ساتھ نہ لا تا اورمیں سر منڈا کر حلال ہوجاتا، پس تم میں سے جس کے پاس قربانی کا جانور ساتھ نہیں ہے، وہ حلال ہوجائے اور اس کو عمرہ کرلے (جہالت کے عقیدے کو توڑنے کے لیے یہ آپﷺ نے حکم دیا اس لیے کہ وہ ایام حج میں عمرہ کو افجر فجور سمجھتے تھے ورنہ اختیا رہے کہ عمرہ نہ کرے اور ایام حج میں صر ف حج کرے )پھر سراقہ ابن مالک ابن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کیایا رسول اللہ ﷺ!یہ عمرہ حج میں داخل ہوا اسی سال کے لیے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کودوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا اور فرمایا: عمرہ حج میں داخل ہوا ،عمرہ حج میں داخل ہوا ہمیشہ کے لیے ،ہمیشہ کے لیے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے اونٹ لے کر آ ئے اور حضورﷺ نے فرمایا: جس وقت تم نے احرام باندھا تھا، اس وقت کیا کہا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں نے کہا: اے اللہ! اسی کا احرام باندھتا ہوں، جس کا احرام تیرے رسول ﷺنے باندھا ہے ۔
حضرتﷺ نے فرمایا: میرے ساتھ قربانی کے جانور ہیں، اسی لیے تو حلال نہ ہوا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جتنے اونٹ حضرت علیؓ یمن سے لائے اور جو کچھ حضور ﷺ اپنے ساتھ لائے، ان تمام اونٹوں کی تعداد سو کی تھی (جو متمتع اپنے ساتھ قربانی کاجانور لائے وہ عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد حلا ل نہیں ہوتا ہے، اس کے لیے جائز نہیں کہ سرمنڈاکر حلال ہوجائے۔ اگر سرمنڈائے گا تو جزا لازم ہوگی اور آٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر حج کرنا ہوگا )حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ تمام لوگوں نے احرام اتار دیا اور بال کٹوائے ؛مگر رسول اللہ ﷺ اور وہ لوگ جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے حلال نہیں ہوئے اور نہ بال کٹوائے۔ پھر جب ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ ہوئی تو سب منیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور سب نے حج کا احرام باندھا اور نبی کریم ﷺ سوار ہوئے، تو منیٰ میں ظہر ،عصر ،مغرب ،عشا اور فجر کی نماز پڑھی، پھر تھوڑی دیر ٹھہرے، یہاں تک کہ سورج نکل آیا اور آپﷺ نے خیمہ کو نصب کرنے کا حکم دیا جو سیاہ وسفید دھاری کا تھا۔ (جس کا احرام پہلے سے نہ ہوتو وہ آٹھویں کو حج کا احرام باندھ لے جیسے مکی اور متمتمع۔ اور جس کا احرام پہلے سے ہے، اسے احرام باندھنے کی حاجت نہیں جیسے مفر داور قارن اس سے پہلے ہی احرام باندھ سکتا ہے ،مگر احرام مسجد حرام سے باندھے )پھر رسول اللہ ﷺ نے کوچ فرمایا اور قریش چل کر مشعر حرام ہی کے پاس یعنی مزدلفہ میں قیام کرتے تھے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں قریش کرتے تھے (مزدلفہ ،منیٰ اور عرفات کے بیچ میں ہے، قریش یہیں وقوف کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کی ) پس رسول اللہ ﷺ (مزدلفہ) سے آگے بڑھے یہاں تک کہ عرفہ آئے، تو آپ ﷺنے یہاں دھاری دار خیمہ گاڑا ہوا پایا، آپﷺ اس میں اترپڑے اور جب سورج ڈھل گیا ،تو آپﷺ نے قصوا ء اونٹنی کے کسنے کا حکم دیا تو وہ کس کر لائی گئی توآپ ﷺسوار ہوکر بیچ میدان میں آئے اور لوگوں کو خطبہ دیا اور آپﷺ نے فرمایا: تمھارا خون، تمھارا مال تم پر حرام ہے جیسے کہ آ ج کی حرمت اس مہینہ میں اور اس شہر میں ہے (یعنی جس طرح نویں ذی الحجہ کا دن عرفات کے میدا ن میں سب سے بڑا محترم ہے ،اسی طرح ایک مسلمان کا خون اور اس کا مال محترم ہے۔ نا حق کسی کو نہ مارے اور نہ کسی کا مال لے، اگر ایسا کرے گا تو وہ ایسا ہی گنہگار ہوگا جیسا کہ کوئی عرفات کے میدان میں گناہ کا کام کرے)
خبر دارہو !امر جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے رکھ دی گئی ہے ( یعنی اس کا کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا ) اور خونوں میں سے سب سے پہلا خون جس کو میں ضائع کرتا ہوں وہ ربیعہ ابن حارث کا خون ہے ،بنی سعد میں دودھ پلانے والا تھا، جس کو ہزیل نے قتل کی کیا تھا ۔ اور جاہلیت کا سود بھی ضائع ہے اور میں اپنے سودوں میں سے اول عبا س ابن عبدالمطلب کا سود ضائع کرتاہوں، پس وہ کل کاکل ضائع ہے ۔ ( حضرت ابن عبا سؓ نے سود کی حرمت سے پہلے لوگوں کو سودی قرض دیا تھا اس کو حضورﷺ نے اصل مع سود سب کو چھوڑ دیا، تاکہ کسی کو اعتراض نہ ہو اور اس معاملہ میں سبقت کرنے کا ثواب ملے ) پس عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ، اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کی امان میں لیا ہے اور اللہ کے کلمے ہی نے اس کی شرمگا ہ کوحلال کیا ہے اور تمھار اان عورتوں پر یہ حق ہے کہ وہ کسی ایسے کو تمھارے بستر پر نہ لائے، جس کو تم نا پسند کرتے ہو،پس اگر وہ عورتیں ایسا کریں، تو ان کو مارو؛ مگر ضرب شدید نہ مارو۔
اور ان عورتوں کا تمھارے اوپر دستور کے مطابق کھانا کپڑا ہے۔
اور میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑی ہے کہ اگر تم اس کو مظبوطی سے تھامے رکھو تو تم ہرگز نہ بہکو۔
اور تم لوگ میرے بارے میں پوچھے جاؤگے، پس تم کیا کہو گے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہم لوگ گواہی دیتے ہیں کہ آپﷺ نے (احکام )پہنچائے اور اس کا حق ادا کیا اور خوب سمجھایا۔ پس آپﷺ نے شہادت کی انگلی آسماں کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہ ،اے اللہ! تو گواہ رہ! تین مرتبہ فرمایا ( عرفات کے میدان میں امیر حج کا خطبہ دینا مسنون ہے، اس میں احکام بیان کرے۔ )
پھر حضرت بلالؓ نے اذان دی، پھر اقامت کہی، پس ظہر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی اور عصر کی نماز پڑھی اور ان دونو ں کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھی۔ ( جمع بین الصلاتین یہاں بالاتفاق جائز ہے )پھر رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے اور موقف پر آئے تواونٹنی کے پیٹ کو صخرات کی طرف کیا اور جبل مشاۃکو اپنے سامنے کیا اور قبلہ کا استقبال کیا، پھر آپﷺ نے برابر وقوف کیا،یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا ۔اور تھوڑی زردی بھی جاتی رہی او رٹکیہ غائب ہوگیا۔ (زول سے غروب تک وقوف کرنا واجب ہے، جیسا کہ آپﷺ نے کیا۔ وقوف کے لیے یوں تو تمام عرفات موقف ہے ،لیکن جبل رحمت کے قریب ذرا اونچے پر جس جگہ بڑے بڑے سیاہ پتھر کا فرش ہے، جناب رسول اللہ ﷺ کا موقف ہے۔ اگر سہولت سے جگہ مل جائے، تو وہاں کھڑارہنا مستحب ہے )اور آں حضرت ﷺ نے حضرت اسامہؓ کو اپنے پیچھے بیٹھایا اور چلے، یہاں تک کہ مزدلفہ آئے توآپﷺ نے وہاں مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو اقامت سے پڑھی اور ان دونوں کے درمیان میں کچھ نہ پڑھا ( یہ جمع تاخیر ہے عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی جا تی ہے راستہ میں مغرب کی نماز مغرب کے وقت پڑھنا درست نہیں ہے؛ بلکہ مزدلفہ آکر دونوں نمازیں پڑھے اور ایک اذان اور ایک ہی اقامت سے دونوں نماز پڑھے۔ اگرچہ اس حدیث میں دو اقامت کا تذکرہ ہے لیکن دوسری حدیث میں ایک ہی اقامت آئی ہے۔ چنانچہ مسلم ہی کی ایک روایت سعید ابن جبیر سے ہے:
افضنا مع ابن عمر حتی اتینا جمعا فصلی بنا المغرب و العشاء باقامۃ واحدۃ ثم انصر ف فقال ھکذا صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الھذا لمکان
یعنی ہم ابن عمر کے ساتھ چلے یہاں تک کہ مزدفلہ آئے، تو ہم کو ابن عمر نے مغرب اور عشاء کی نماز ایک اقامت سے پڑھائی ۔ اسی طرح ترمذی نے روایت کی ہے اوراس کو حسن صحیح کہا ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور صاحبین اور سفیان ثوری رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے کہ مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور ایک اقامت سے پڑھی جائے۔ (عقود الجواہر المنیفہ)
پھر رسول اللہ ﷺ لیٹ گئے، یہاں تک کہ صبح صادق ہوئی، پھر آپﷺ نے فجر کی نماز جب کہ صبح ظاہر ہوئی اذان اور اقامت سے پڑھی۔ پھر قصواء پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ مشعر حرام آئے، پھر قبلہ کے رخ ہوئے، دعا مانگی تکبیر تہلیل کہی اور خدا کی وحدانیت بیان کی اور برابر ٹھہرے، یہاں تک کہ خوب صاف ہوگیا (فجر کی نماز ذرا اندھیرے میں پڑھی او راس کے بعد جبل قذح پر یا اس کے قریب ٹھہرے اور دعا مانگے، تکبیر تہلیل اور تحمید و ثنا کرے۔ وقوف مزدلفہ واجب ہے اور اس کا وقت صبح صادق کے اول وقت سے لے کر آخری وقت تک ہے۔ جو شخص نکلنے کے بعد یا صبح صادق سے پہلے وقوف کرے گا، اس کا وقوف صحیح نہیں ہوگا )طلوع آفتاب سے پہلے آپﷺ نے کوچ کیا اور فضل ابن عباسؓ کواپنے پیچھے اونٹنی پر بیٹھا لیا ۔یہاں تک کہ بطن محسر میں آئے تو اونٹنی کو ذرا تیز کیا ،پھر اس بیچ کے راستے پر چلے، جو جمرہ عقبی ٰکی طرف نکلا ہے، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے ۔ پھر آپﷺ نے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کے ساتھ آپﷺ نے تکبیر کہی۔ کنکریاں ٹھیکرے کے مثل تھیں۔ بطن وادی سے آپﷺ نے کنکریاں ماریں۔ (سورج نکلنے میں جب تھوڑی دیر باقی رہے، تو مزدلفہ سے چل پڑے اور چلنے سے پہلے وہیں سے رمی کے لیے سات کنکریاں لے لے، یہ مستحب ہے اور کنکریاں چنے کی گٹھلی کے برابر لے ۔جب بطن محسر پہنچے تو تیز چلے، سواری کو تیز ہانکے۔ بطن محسر وہ وادی ہے جہاں اصحاب فیل پر عذاب آیا تھا۔ یہ منیٰ اور مزدلفہ میں ہے جس کی پیمائش ۵۴۵گز کے قریب ہے۔ وہاں سے گزر کر جمرہ عقبی پر آئے اور وہاں سات کنکریاں مارے اور تکبیر ہر کنکری پر کہے اور پہلی تکبیر پرتلبیہ بند کردے۔ ا س دن صرف جمرہ اخری کی رمی ہے اور اس کا مستحب وقت سورج نکلنے کے بعد سے ہوتا ہے اور یہ رمی واجب ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ قربان گاہ کی طرف لوٹے اور تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر کیا اپنی عمر کے سال کی گنتی کے موافق کہ حضورﷺ کی عمر بھی تریسٹھ ہی سال ہوئی)۔ پھر حضرت علیؓ کو دیا تو انھوں نے باقی اونٹ کا نحر کیا اور آپﷺ نے ان کو قربانی میں شریک کیا۔ پھر آپﷺ نے ہر اونٹ سے تھوڑا گوشت لینے کو فرمایا۔وہ گوشت ہانڈی میں کیا اور پکایا گیا۔ پھر دونوں صاحبوں نے گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ ( جمرہ عقبی کی رمی کے بعد دوسرا کام قربانی کرنا ہے۔ قارن اور متمتع پر قربانی واجب ہے اور مفرد کے لیے مستحب ہے ۔قران اور متمتع اور افراد کی قربانی کا گوشت کھانا اور دوسرے کو کھلانا سب جائز ہے )۔اونٹ کا نحر اور دوسرے جانوروں کا ذبح کرنا مستحب ہے اور اپنے ہاتھ سے کرنا اولیٰ ہے۔ اگر نہ جانتا ہو تو دوسرے سے کرادے اور وہاں موجودرہے اور اس کے گوشت میں سے تھوڑا سا کھانا مستحب ہے۔ قربانی کے بعد حجامت کرائے، گو اس حدیث میں اس کا تذکرہ نہیں ہے لیکن دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے سر منڈایا۔ چنانچہ مروی ہے:
عن ابن عمر ان رسوول اللہ ﷺ حلق رأسہ و قصر بعضہم
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں سر منڈایا اور آ پﷺ کے اصحا ب میں سے بہت سے لوگوں نے بھی منڈایا اور ان میں سے بعض نے بال کٹوائے۔ (بخاری و مسلم)
حجامت کے بعد عورت کے سوا سب چیزیں حلال ہوجاتی ہیں، جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھیں ۔پھر رسول اللہﷺ سوار ہوئے اور (دسویں ہی کو ) بیت اللہ کی طرف (طواف زیارت کے لیے جو کہ فرض ہے ) چلے اور مکہ میں (طواف زیارت کے بعد )ظہر کی نمازپڑھی (بعض حدیث میں آیا ہے کہ آپﷺ نے ظہر کی نماز منیٰ میں آکر پڑھی۔ ملا علی قاری نے مسلم کی حدیث کو ترجیح دی ہے اور فرمایا ہے کہ ظہر کی نماز مکہ میں مسجد حرام میں پڑھ کر منیٰ آئے )پھر بنی عبد المطلب کے پاس آئے جو زمزم کا پانی کنوئیں پر پلا رہے تھے تو آ پﷺ نے فرمایا :اے بنی عبد المطلب! پانی نکالو اگر تمھارے پانی پلانے کی جگہ پر لوگو ں کاہجوم نہ ہوتا، تو میں خود تمھارے سات پانی نکالتا، پھر انھوں نے آپﷺ کو ایک ڈول پانی دیا، آپﷺ نے اس میں سے پیا۔ (مسلم)
(طواف کے بعد زمز م کا پانی پینا مستحب ہے ،خوب سیراب ہوکر پیے اور اپنے اوپر اور کپڑوں پر چھڑکے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here