▫▫
محمد انس عباد صدیقی
مذہب اسلام کےتحفظ وبقاء اور اس کی نشرواشاعت کا فریضہ ابتدائے عہد سے دینی مدارس انجام دے رہےہیں اور تاہنوزیہ سلسلہ بحمداللہ برق رفتاری کے ساتھ رواں دواں ہے مدرسہ کانام جیسے ذہن میں آتاہے اس کے تئیں ہمدردی کے ساتھ اس کے آغوش کی پرنور روحانی فضاء دوڑنے لگتی صداقت وسچائی امانت ودیانت عدل وانصاف غم گساری ودل جوئی کی بھینی بھینی خوشبؤوں سے جان ودل عطربیز ہونے لگتے ہیں چونکہ مدارس اسلامیہ کی تاسیس کامقصد ہی انسانیت نوازی و کردار سازی ہوتاہے جہاں عقل وفکر قلب ونظر کے زنگوں کو صیقل کرکے ایمان ویقین کی بادبہاری کاسان چڑھایاجاتاہے تاکہ صالح معاشرے کی تشکیل میں فضلائے مدارس اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہوسکے
بہارمدرسہ بورڈ نے دور حاضر میں ملت کی راہبری اور معاشرے کی تشکیل وتزئین میں کیسااہم رول ادا کیاہے اگر اس کے حقائق سامنے آنے لگیں تو سوائے شرمندگی اور ملامت وافسوس کے کچھ نہیں کہاجاسکتاہےبہارمدرسہ بورڈ میں رشوت خوری کو حلال ہی نہیں بلکہ احسن درجے کا کارثواب سمجھاجاتاہے مدرسہ بورڈ کے اساتذہ مدرسے میں تعلیم وتربیت کو اپنے مفاد کے زہرہلائل سمجھتے ہیں غیرحاضری کو سنت اورڈیوٹی نہ کرنے کو واجب گردانتے ہیں مدرسہ بورڈ کی کمیٹی کے اراکین جاہلوں کی ٹولی ہوتی ہے جسے حرام وحلال تو دور کی بات اسے انسان وجانور میں فرق کرنے کی صلاحیت تک نہیں ہوتی ہےاور یہ اراکین گاؤں کے سادہ لوح عوام کے درمیان انتشار وافتراق پیداکرنے کارہائے بدبھی انجام دیتے ہیں مدرسہ بورڈ میں تعلیم تربیت کادور دورتک تصورنہیں ہے خانہ پوری کے لئے گاؤں کے اجہل ترین لڑکوں سے سرکاری امتحان دلایاجاتاہے اور یہ اجہل ترین لڑکے جسے اردو عریی زبان میں نام تک لکھنے نہیں آتابتدریج وسطانیہ سے عالم فاضل تک کا امتحان چوری کے ذریعے دیکر قرآن وحدیث کے عالم فاضل ہونے کی سند حاصل کرتے ہیں اس طرح کے سرکاری علمائے سوءکی تعداد روزافزوں فزوں تر ہوتی جاتی ہے پھر مدرسہ بورڈ میں اسی طرح کے بدباطن مولویان جاہلین مدرس بنتے ہیں اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں ہے ایسے افراد سے ملت کو عروج ملے گا یاملت زوال کی کھائی میں اوندھی منہ گرے گی یانہیں ایسے حضرات سے معاشرے میں خیروخوبی کو فروغ ملے گا یاجہالت وضلالت اور دروغ وفتنے منہ پسارکر لقمہ تر بنائیں گے یہ کتنابڑاظلم اور شریعت کے ساتھ کتنابھونڈا مزاق ہے تفسیر وحدیث فقہ واصول فقہ بلاغت وسیرت اور فلسفہ وتاریخ کےعلوم وفنون کی سندایسے افراد کو دی جارہی جسے پیشاب وپاخانہ تک کرنے کا اسلامی طریقہ معلوم نہیں ہے ۔
کیاایسے افراد سے امت مسلمہ کی امامت وسیادت کی امید کی جاسکتی ہے ۔
یادرکھئے سرکاری رکارڈمیں ایسے ہی حضرات علماء وفضلاء ہیں مستقبل میں مسجدوں کی امامت کے لئے اگر یہ سرکاری عدالت میں مقدمہ دائر کردئیے تو اس کی سرکاری سند کی بنیاد پہ فاضل جج امامت کااستحقاق اسے ہی قراد دیں گے ،فضلائے دیوبند وسہارن پور ندوہ ومبارکپور کو ہزیمت کا منہ دیکھناپڑے گا ،مدرسہ بورڈ کی ملازمت حاصل کرنے اور انتظامیہ کی بحالی وعدم بحالی کو لیکر ہرگاؤں میں کئ فریق ہیں جوآپس میں دست وگریباں ہی نہیں ہوتے بلکہ تلوار وپستول تک نکل جاتا ہے بالآخر پولس کے ڈنڈوں سے ان کا کلیجہ سرد پڑتاہے اور مقدمہ بازی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے یہ حالات ہیں مدارس بورڈ کے ۔ یہ ببول کا درخت ہے اس سے آم امرود کے پھل کی امید حماقت ہے
حالیہ فوقانیہ امتحان کانتیجہ اپنی جگہ درست ہے جس نے مدرسہ بورڈ کو آئینہ دیکھانے کاکام کیاہے
اللہ تعالی امت واحدہ کی حفاظت فرمائے۔۔۔۔۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں