پروفیسر حکیم عبدالحلیم قاسمی
پرنسپل ارم یونانی میڈیکل کالج، لکھنؤ
[email protected]
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان گنت نعمتوں سے نوازاہے، ہم میں سے ہر شخص اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی بدولت ہی چلتا پھرتا رہتا ہے، اللہ سبحانہ نے ہی ہمیں دیکھنے اور سننے کی نعمت سے نوازا جب کہ بہت سے لوگ اس عظیم سے محروم ہیں، اگر ان نعمتوں کی قیمت کا ندازہ لگانا ہوتو ان لوگوں سے پوچھئے جو مذکورہ نعمت سے محروم ہیں، اللہ ہی نے ہمیں عقل صحت اور مال و اہل کی نعمتیں دیں، بلکہ پوری کائنات کوجس میں سورج آسمان اور زمین اور تمام مخلوقات ہیں اسے ہمارے لئے مسخر فرمایا۔ ”اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں گن سکتے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے“۔ (النحل: 18)
اگر ہم گہرائی اور باریک بینی سے اللہ کی نعمتوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد صحت خدا کی عظیم نعمت ہے۔ اس نعمت سے لاپروائی برتنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحت اللہ کی امانت ہے۔ لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کیلئے اس کے ذاتی فائدے کے علاوہ اس کا دینی فریضہ بھی بنتا ہے۔ صحت کے بارے میں لا پرواہی ایک لحاظ سے امانت میں خیانت کے مترادف ہوگی۔ صحت کی حفاظت کے بارے میں ہزاروں حکماء، ڈاکٹروں اور فلاسفروں کے اقوال موجود ہیں۔ مگر ہمارے لئے اصول ہمارے نبی پاک حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھوڑے ہیں۔ جن پر عمل کر کے ہم اچھی صحت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اور بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ صفائی کی اہمیت نبی کے اس فرمان سے واضح ہوتی ہے۔کہ ”صفائی نصف ایمان ہے“ ۔ یعنی صفائی کے بغیر مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ صحت کی حفاظت کے چیدہ چیدہ اصولوں میں جسمانی صفائی، ذہنی پا کیزگی، ماحولیاتی صفائی، صحت مند عادات، صحت بخش خوراک اور بر وقت علاج شامل ہیں۔
صحت کی قدر اور اس کی حفاظت ایک مسلمان کا فرض ہے۔ کسی نے بہت پیاری مثال دی کہ ”جس طرح حقیر دیمک بڑے بڑے کتب خانوں کو چاٹ کر تباہ کرڈالتی ہے، اسی طرح صحت کے معاملے میں معمولی سی غفلت بھی حقیر سی بیماری کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔“ یہی حقیر سی بیماری لاپروائی کے نتیجے میں سنگین اور مہلک صورت حال اختیار کرلیتی ہے۔انسانی صحت کے تقاضوں سے غفلت برتنا اور اس کی حفاظت میں کوتاہی کرنا بے حسی بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری بھی۔
ایک عظیم مفکر صحت کے بارے میں لکھتے ہیں: ”انسانی زندگی کا اصل جوہر عقل و اخلاق اور ایمان و شعور ہے۔ عقل و اخلاق اور ایمان و شعور کی صحت کا دارومدار بھی بڑی حد تک جسمانی صحت پر ہے۔ عقل و دماغ کی نشوونما، فضائلِ اخلاق کے تقاضے اور دینی فرائض کو ادا کرنے کے لیے جسمانی صحت بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔“
چونکہ بحیثیت انسان ہم سب کی ذمے داری زندگی تمام سہل و ثقل اور بسا اوقات پہاڑ نما کام سرانجام دینے کی ہوتی ہے اس لیے نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی صحت کا خیال بہت زیادہ رکھیں۔
صحت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے سب سے بنیادی چیز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرناہے کہ اس نے ہمیں مکمل صحت یابی سے نوازا ہے۔ اس پراللہ کریم کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو اپنے گھروں اور اسپتالوں میں کیسی کیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ بس جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ اسی میں عافیت ہے اور عافیت میں صحت ہے۔ دوسری چیز ہے سحر خیزی، اس کی ع
ادت ڈالیں۔ خود بھی صبح جلد اٹھیں، رات جلد سوئیں اور بچوں کو بھی جلد سونے اور جلد اٹھنے کی عادت ڈالیں۔ آج کل اس کے بالکل برعکس ہورہا ہے۔ والدین اوربچے ساری ساری رات انٹرنیٹ، موبائل فون اور کیبل میں گزار دیتے ہیں اور دن ڈھلے تک سوتے رہتے ہیں۔ یہ صحت کے لیے بہت مضر ہے۔
رات کی نیند کا کوئی نعم البدل نہیں۔ آپ سارا دن بھی سو لیں گے تو وہ رات کی نیند پوری نہیں کرے گا۔ تیسری چیز، کاموں کی منصوبہ بندی کریں۔ روزانہ صبح اٹھ کر یا رات ہی سے آنے والے دن کی بہتر منصوبہ بندی کریں کہ کیا کیا کام کرنے ہیں؟ اور پھر ان کو انجام دیں۔ خواتین شوہر کو آفس اور بچوں کو اسکول بھیج کر پہلے خود ناشتہ کریں، چلتے پھرتے نہیں بلکہ آرام سے بیٹھ کر۔ اپنی منصوبہ بندی میں اس کو سرفہرست رکھیں۔ ناشتے میں ہی صحت ہے۔ جتنا ناشتہ صحت بخش غذا پر مشتمل ہوگا، اتنی ہی آپ کی صحت اچھی رہے گی اور آپ سارا دن چست رہیں گی۔ منصوبہ بندی میں جو چیزیں آج کے لیے درج ہیں ان کو ایک ایک کرکے کرتی جائیں۔ ہانڈی چڑھانی ہو یا کپڑے دھونے کی مشین لگی ہو، اس دوران قرآن اور حدیث کے لیکچر سن سکتی ہیں۔ ذہنی طور پر منصوبہ بندی کرسکتی ہیں۔ اپنی ڈائری میں ان کے نکات لکھ سکتی ہیں۔
صحتمند زندگی سے محظوظ ہونے کیلئے اسلام کی سب سے اہم تعلیم اعتدال اور میانہ روی کو اپنائیں۔ ” خیر الامور اسطہا“ پر ہمیشہ عمل پیرا ہونا چاہئے، چاہے وہ جسمانی محنت ہو، دماغی کاوش ہو، ازدواجی تعلق، کھانے پینے، سونے اور آرام کرنے کا معاملہ ہو۔ فکرمند رہنے کا معاملہ ہو یا ہنسنے ہنسانے میں تفریح کا معاملہ ہو۔ عبادت، رفتار اور گفتار غرض ہر چیز میں اعتدال کا رویہ اختیار کریں۔ حدیث ہے ”اخراجات میں میانہ روی سے معاشی مسئلہ نصف رہ جاتا ہے۔“
پانچویں چیز، صحت کو بہتر بنانے کے لیے ”ضبطِ نفس“ کی عادت اپنائیں۔ اپنے جذبات، خیالات اور خواہشات پر قابو رکھیں۔ خواہشات کی بے راہ روی اور نظر کی آوارگی سے بھی قلب و دماغ چونکہ سکون و عافیت سے محروم ہوجاتے ہیں جس سے صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے، چہرے کی رونق ختم ہوجاتی ہے، فقر و افلاس نازل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عمر کوتاہ ہوتی ہے۔
اسلام اور جدید سائنس نے صحت و توانی کو ہمیشہ قائم رکھنے کیلئے صفائی اور پاکیز گی جانب شدت کے ساتھ متوجہ کیا ہے۔جسمانی اور گھریلو صفائی ستھرائی کے علاوہ فضائی اور ماحولیاتی صفائی بھی صحتمند زندگی کیلئے بے حد ضروری ہے۔لیکن عام مسلمانوں کا رویہ اس کے تعلق سے انتہائی مایوس کن اور غیر اسلامی ہے، ہم میں کے عوام تو عوام ہیں بیشتر پڑھا لکھا اور علماءطبقہ بھی فضائی آلودگی اور ماحولیاتی صفائی کو اسلامی تعلیمات کا حصہ ماننے کو تیار نظرنہیں آ تا۔حالاں کہ ماحولیاتی اور فضائی آلوگی کی وجہ سے ہی بڑی بڑی بیماریاں اور وبائیں جنم لیتی ہیں، جس کی وجہ ایک ہی بار میں ہزاروں افراد لقمہ¿ اجل بن جاتے ہیں۔
ماہرین صحت بتاتے ہیں کہ ہماری فضا میں خصوصاً شہری علاقوں میں ہر وقت مختلف قسم کے کیمیکل، جرا ثیم اور وائرس موجود ہوتے ہیں۔ماحولیاتی صفائی سے مراد ہمارے ارد گرد موجود ہر اس چیز کی صفائی ہے جس سے ہماری زندگی کا کوئی تعلق ہے مثلاً ہوا، پانی و خوراک کا صاف ہونا، گھر کے اندر و باہر کی صفائی وغیرہ۔ گھروں سے باہر کوڑے اور گندگی کے ڈھیر اور نشیبی علاقوں میں کھڑا گندا پانی مچھروں، مکھیوں اور دیگر بیماری پیدا کرنے والے کیڑے مکوڑوں کی افزائش کا ذریعہ بنتا ہے اور ہر سال لاکھوں لوگ ان کی وجہ سے بیمار پڑتے ہیں اور ہزاروں موت کے م±نہ میں چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان غلاظتوں کو جلدی دور کرنا چاہیے۔ کم از کم یہ ضرور کیا جائے کہ کھڑے پانی پر مٹی کا تیل چھڑک دیا جائے اور کوڑے کے ڈھیروں پر کافی مقدار میں چونا ڈال دیا جائے۔خیال رہے کہ آلودہ پانی بیماریاں پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ہمارے ملک میں 90 فیصد بیماریاں آلودہ پانی سے پیدا ہو رہی ہیں ان میں ہیضہ، اسہال، پیچش، یرقان، ٹا ئفائیڈ و پیراٹائفائیڈ وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا ان بیماریوں سے بچاو¿ کیلئے صاف پانی کا استعمال لازمی ہے۔ آلودہ پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ آجکل مارکیٹ میں کئی فلٹر دستیاب ہیں، لیکن وہ ہم جیسے غریب آدمی کی رسائی میں نہیں ہیں۔سب سے کم خرچ طریقہ یہ ہے کہ پانی کو شفاف شیشہ یا پلاسٹک کی بوتلوں میں بھر کر دھوپ میں ایک دو گھنٹے تک پڑا ر ہنے دیں۔سورج کی شعائیں جراثیم کشی کا کام کرتی ہیں۔ دوسرا کم خرچ طریقہ بلیچنگ پاؤڈر کا استعمال ہے اس کیلئے 80 لٹر پانی میں ایک گرام بلیچنگ پاؤڈر ڈال کر اچھی طرح مکس کریں اور پھر آدھ سے ایک گھنٹہ تک چھوڑ دیں اس کے بعد پانی کو اچھی طرح پھینٹ لیں اور پھر استعمال کریں۔ تیسرا سب سے عام طریقہ پانی کو 5سے7منٹ تک ا±بال کر صاف کر نے کا ہے، مگر اس میں ایندھن کا خرچہ کافی آتا ہے۔ ہمارے آب وہوا میں موجود آلود گیوں اور خطرناک جرا ثیم سے بچنے کا اہم طریقہ غسل کرنا بھی ہے۔ با قاعدگی سے غسل نہ کرنے کی صورت میں یہ ہمارے بدن پر جمع ہو کر خارش اور دیگر جلدی امراض اور الرجی پیدا کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ جراثیم جسم کے نازک حصوں مثلاً بغل میں زخم بھی پیدا کرتے ہیں۔ جسم سے پسینہ کی صورت میں خارج شدہ فاسد مادے تھکاوٹ اور بیماری پیدا کرتے ہیں۔ باقاعدہ غسل کے ذریعہ ان نقصاندہ مادوں اور عوامل کو دور کر کے نہ صرف بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس سے جسم کو ایک قسم کی مالش بھی مل جاتی ہے اور سکون و تازگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ پانی کی کمی کے باوجود ہفتہ میں ایک بار ضرور غسل فرماتے تھے۔ جسمانی صفائی سے متعلقہ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا صحت کے لئے بہت اہم ہے۔ذہنی اور نفسیا تی بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے دماغ کو ہرقسم کی فکری نجاستوں سے پاک رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ہر قسم کے فاسد خیالات یعنی غم و غصہ، حسد، بغض و کینہ حِرص، شہوانیت وغیرہ متعدد بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ جن میں بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں۔ معدہ کی تکالیف اور اعصابی بیماریاں شامل ہیں۔ ان بیماریوں سے بچنے کیلئے مثبت اور پا یزہ سوچ کو اپنانا ضروری ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کریں۔ اور قرآن میں جگہ جگہ بیان کئے ہوئے اس بیان پر کامل یقین اور ایمان قائم کریں کہ اللہ ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں