عبدالعزیز
کرناٹک کی انتخابی مہم کے دوران ایک سوال کے جواب میں کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے کہاکہ اگر ان کی پارٹی لوک سبھا میں زیادہ سیٹیں لانے میں کامیاب ہوگئی تو وہ ملک کے وزیر اعظم ہوسکتے ہیں۔ مسٹر نریندر مودی کو یہ بات بھلا کب اچھی لگتی کہ ان کی جگہ مستقبل میں ان کے رہتے ہوئے کوئی دوسرا وزیر اعظم بننے کی جسارت کرے اور وہ بھی کانگریس کا کوئی آدمی۔ جس پارٹی سے وہ بھارت کو آزاد (کانگریس مکت بھارت) دیکھنا چاہتے ہیں اسی پارٹی کا کوئی لیڈر وزیر اعظم بن جائے وہ کب گوارا کریں گے۔ گجرات اسمبلی کے حالیہ الیکشن میں کانگریس بہت کم سیٹوں سے بی جے پی سے پیچھے رہ گئی تھی، اس لئے یہ بات کہی جانے لگی کہ کانگریس اپنی پوزیشن بحال کرنے کی طرف گامزن ہوگئی ہے۔ اتر پردیش کے دو پارلیمانی سیٹوں پر اپوزیشن کے قبضہ سے بھی یہ بات سامنے آنے لگی کہ مودی لہر کا سحر ختم پر ہے۔
آج (12مئی) کرناٹک میں اسمبلی کا الیکشن ہورہا ہے۔ راہل اور مودی دونوں نے اپنی اپنی پارٹی کیلئے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کانگریس کرناٹک کو بچاسکے گی یا نہیں؟ کانگریس کے سامنے یہ ایک بڑا سوال ہے اور بی جے پی کے نزدیک نریندر مودی اپنی پارٹی کو کرناٹک میں برسر اقتدار لانے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں؟ اب تک جو سروے آیا ہے اس سے کسی بھی پارٹی کو غالب اکثریت ملتی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کانگریس دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں آگے ضرور ہے۔ ایک سروے میں کانگریس کو بڑھت ضرور ملی ہے مگر مجموعی طور سے اسمبلی معلق (Haung Assembly) رہے گی یہ بات کہی جارہی ہے۔ اگر کانگریس اپنی حکومت بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر کانگریس کا حوصلہ بڑھے گا اور نریندر مودی اور امیت شاہ کا حوصلہ پست ہوگا۔ ایسی صورت میں ملک بھر میں جو ابھی مودی لہر کی بات ہورہی ہے وہ بات بھی ختم ہوجائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں جو آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی کا الیکشن ہونے والا ہے اس میں کانگریس کی کامیابی کے امکانات بھی روشن ہیں۔
کانگریس اگر کرناٹک میں دیگر پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ سیٹیں لانے میں کامیاب ہوتی ہے جب بھی کانگریس کی بحالی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ آج ایگزٹ پول سے بہت حد تک بات صاف ہوجائے گی اور 15مئی کو پورے طور پر مطلع صاف ہوجائے گا۔ اسی روز کرناٹک اسمبلی کے الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوگا۔
ملک کی جو صورت حال ہے جس میں ہر شخص پریشان حال نظر آتا ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار سے ابھی بھی لوگ ابھرے نہیں ۔ ساتھ ہی جرائم کی شرح بھی پہلے اس قدر نہیں تھی۔ اعلیٰ سرکاری افسران نے کٹھوعہ اور اُناؤ کے شرمناک واقعات پر وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط میں لکھا تھا کہ ملک تاریک ترین دور سے گزر رہا ہے اور اس کی پوری ذمہ داری ان پر آتی ہے کیونکہ ان کے لوگ قانون کو بالائے طاق رکھ کر سارا کام انجام دے رہے ہیں اور بدکاروں اور مجرموں کی پست پناہی کرنے میں آگے آگے ہیں اور خود بھی بڑے پیمانے پر مجرمانہ حرکتوں میں ملوث ہیں۔
سرکاری اعلیٰ افسران سے پہلے سپریم کورٹ کے چار سب سے سینئر ججوں نے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کو ایک خط لکھ کر بتایا کہ حکومت عدلیہ کے نظام میں دخل دے رہی ہے جس کی وجہ سے جمہوریت خطرہ میں ہے۔
ملک کی جب یہ صورت حال ہو تو سیاسی قیادت سے ہر کوئی چھٹکارہ پانے کی کوشش کرتا ہے ۔ چار سال میں نریندر مودی نے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایسی صورت میں اگر بی جے پی کے بعد سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ راہل گاندھی یہ کہتے ہوں گے کہ اگر ان کی پارٹی بھاری اکثریت میں جیت کر 2019ء میں لوک سبھا میں آتی ہے تو وہ ملک کے وزیر اعظم ہوسکتے ہیں، یہ کون سی ایسی بات ہے جس پر راہل گاندھی کو مغروریت کا طعنہ دے رہے ہیں اور سانڈ تک کہہ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے ہیں؛ حالانکہ متکبرانہ اور مغرورانہ مزاج بلکہ ہٹلر جیسی چال اور بات چیت نریندر مودی میں کوٹ کوٹ کر بھر گئی ہے۔ آج ان کی پارٹی کا بھی کوئی آدمی ان کے برابر کھڑا ہوکر یا برابر بیٹھ کر آسانی سے بات نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ جو ان کی پارٹی کی بزرگ ترین شخصیتیں ہیں ان کو بھی حاشیہ پر کردیا ہے۔
ایل کے ایڈوانی نریندر مودی کے سب سے بڑے استاد تھے ان کی بھی ذلت اور رسوائی ہورہی ہے۔ وہ اپنے شاگرد (مودی) کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوا ہے کہ نریندر مودی نے اپنے استاد محترم کی طرف رخ بھی نہیں کیا۔ ایسی بے رخی کی کہ سارا ہندستان ٹی وی پر دیکھتا رہ گیا۔ اسی کو کہتے ہیں سوپ کہے چلنی کو جس میں بہتر چھید۔ نریندر مودی کی اکڑ اور اہنکار (تکبر) میں اب کوئی کمی باقی نہیں رہ گئی۔ ان کی پارٹی کے بڑے لیڈران کے طرز عمل پر کھلے عام سوال اٹھا رہے ہیں اور یشونت سنہا نے اب بی جے پی سے بھی اپنے آپ کو الگ کرلیا ہے۔ شتروگھن سنہا نے کہاکہ ان کو پارٹی سے ہٹانے کی کوئی ہمت کرے تو ہم بتائیں گے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو نریندر مودی کے جانے کے دن قریب آگئے ہیں اور بی جے پی کے بعد جو سب سے بڑی پارٹی کانگریس ہے جس کا نیٹ ورک سارے ملک میں کم و بیش ہر جگہ ہے وہ آخر بی جے پی کی جگہ نہیں لے گی تو اور کون لے سکتا ہے۔ اسمرتی ایرانی دوبار الیکشن میں ناکام ہوئی ہیں۔ وہ بھی مودی پرستی میں کہہ رہی ہیں کہ راہل گاندھی میں وزیر اعظم بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسمرتی ایرانی کے پاس طے کرنے کی صلاحیت ہے کہ کون وزیر اعظم کے لائق ہے اور کون نہیں ہے؟
اپوزیشن پارٹیوں کے متحد ہوکر مقابلہ کرنے کا وقت آگیا ہے اور جو پارٹی اپوزیشن میں سب سے بڑی ہے اور زیادہ ریاستوں میں ہے اور زیادہ سیٹیں لانے میں کامیاب ہوگی اس پارٹی کو یہ حق دینا ہوگا وہ پارٹی فیصلہ کرے گی کہ وہ اپنے اندر سے جس کو چاہے وزیر اعظم کیلئے نامزد کرے۔ ایسا ہی پہلے بھی ہوا ہے اور آئندہ بھی اسی کا امکان ہے۔ اسی لئے راہل گاندھی کا پُر امید ہونا کسی تکبرانہ مزاج کی عکاسی نہیں بلکہ جمہوری مزاج کی عکاسی ہے۔ جمہوریت میں دعویٰ کرنے کا حق ہے اور جو پارٹی ملک کے ہر حصہ میں ہو اس پارٹی کو یا اس کے سربراہ کو دعویٰ کرنے کا زیادہ حق ہے۔
[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں