غوث سیوانی، نئی دہلی
[email protected]
کیا آپ جانتے ہیں کہ جتنی دیر آپ ’’جناح‘‘ کی بحث میں الجھے رہے، پورے ملک میں ’’زنا‘‘کے کتنے واقعات رونما ہوگئے؟کتنی بہنوں کی عزت تار تار ہوئی اور کتنی بیٹیاں جنسی درندوں کی بھینٹ چڑھ گئیں؟ جی ہاں! نیشنل کرائم رکارڈ بیوروکے اعدادوشماربتاتے ہیں کہ بھارت میں ہر روز93عورتوں کا ریپ ہوتا ہے یعنی اگر آپ پانچ روز بھی جناح کی تصویر والی بحث میں الجھے رہے تو اس بیچ تقریباً پانچ سو ہندوستانی خواتین کی عصمت تار تار ہوگئی اور میڈیا نے آپ کو غیرضروری بحث میں الجھا کرایک اہم ایشو سے دور کئے رکھا۔ ظاہر ہے کہ جناح کی بحث اسی لئے اٹھائی بھی گئی کہ آپ حکومت سے یہ نہ پوچھیں کہ ہندوستانی خواتین کے اچھے دن کب آئینگے؟ ان کی عزت وآبرو کب محفوظ ہوگی؟ آپ کو ہندو ،مسلم کی بحث میں الجھانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ آپ یہ نہ پوچھیں کہ سب سے زیادہ ریپ کے ملزم ایم ایل اے اور ایم پی بی جے پی میں ہی کیوں ہیں؟اور بی جے پی کی حکومتیں ریپ کے ملزم اپنے نیتاؤں سے صرف نظر کیوں کئے ہوئے ہے؟ اس وقت ساری دنیا میں بھارت کو ریپ کے واقعات کے لئے یاد کیا جارہا ہے۔ بھارت میں روز بروز بڑھ رہے ریپ کے واقعات نے ملک کا سر جھکا دیا ہے اور ساری دنیا میں تھو تھو ہورہی ہے۔ لوگ اسے وحشی پن کی انتہا قرار دے رہے ہیں اور بھارت کو ایسے واقعات میں انصاف کی نصیحت کر رہے ہیں۔ اصل میں ننھی بچیوں سے ریپ کے واقعات اور پھر بھگواوادیوں کی طر ف سے زانیوں کو بچانے کی کوشش سے دنیا آگاہ ہوچکی ہے اور ساری دنیا کے میڈیا اور حقوق انسانی کی تنظیموں میں اس پر بحث جاری ہے۔ یہ معاملہ اب تک اقوام متحدہ پہنچ چکا ہے۔ انگلینڈ کی پارلیمنٹ میں زیربحث آچکا ہے اور دنیا بھر کے بڑے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینل اس پراسٹوری کر رہے ہیں۔ انتہا تویہ ہوئی کہ دنیا کے کئی ملکوں میں لوگ ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر ایسے ٹی شرٹ پہن کر گھوم رہے ہیں جن پر تحریر ہے کہ خبردار’’ بھارت نہ جانا ورنہ تمہارا ریپ ہوسکتا ہے۔ ‘‘بہر حال ساری دنیا کا بھارت پر دباؤ
ہے کہ وہ ریپ سے بچاؤ کی تدبیریں کرے اور متاثرین کو انصاف دلائے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو اس سبب عالمی پلیٹ فارموں پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور گزشتہ دنوں انھوں نے اسی دباؤ میں لندن میں بیان دیا کہ کسی بھی زانی کو بخشا نہیں جائے گا۔ حالانکہ انگلینڈ میں ہی نریندر مودی کے ایک پروگرام میں ہنگامہ ہوا، جس میں ’’بیٹی بچاؤ‘‘ کے نعرے بھی بلند کئے گئے۔ وہ ملک جس کی شناخت، روحانیت اور عرفان الٰہی کے حوالے سے ہوتی تھی، وہ ملک جس کو گرونانک کے پیام انسانیت اور مہاتما گاندھی کے صدائے عدم تشدد کے لئے جانا جاتا تھا، اب اسے معصوم بچیوں سے ریپ کے لئے جانا جارہا ہے۔جس ملک کی پہچان اعلیٰ اخلاق وکردار تھا،اب اسے ایک گندے فعل اور گھناؤنے عمل کے لئے جانا جارہا ہے۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔
جب وزیراعظم کو بیان دینا پڑا
بھارت میں ہورہے ریپ کے واقعات کا عالمی سطح پر جو چرچا ہے، اسی کا اثر تھا کہ نریندر مودی نے لندن میں کہا کہ عصمت دری،تو عصمت دری ہے،اس طرح کے معاملوں میں سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ مرکزی ہال ویسٹ منسٹر میں، ’’بھارت کی بات سب کے ساتھ ‘‘ پروگرام میں انہوں نے کہا، ہم ہمیشہ اپنی بیٹیوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں، وہ کہاں جا رہی ہیں۔ہمیں اپنے بیٹوں سے بھی پوچھنا چاہئے۔جو شخص اس جرم کا مرتکب ہو رہا ہے وہ بھی کسی کا بیٹا ہوگا۔وزیر اعظم نے کہا، میں اِس حکومت اور اُس حکومت کے واقعات کی تعدادگننے میں کبھی شامل نہیں ہوا، عصمت دری تو عصمت دری ہے، چاہے وہ پہلے ہویا اب ہو۔یہ انتہائی المناک واقعات ہیں، ان پر سیاست نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی بیٹی کی عصمت دری ملک کیلئے شرم کا باعث ہے۔ واضح ہوکہ دنیا بھر میں بھارت کی زیادہ بدنامی، کٹھوعہ کیس کے ملزموں کی حمایت میں ہندووادیوں کے اترنے سے ہوئی جس میں بی جے پی کے منتری بھی شامل تھے۔حالانکہ نریند رمودی کو یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ ان کی پارٹی میں سب سے زیادہ زنا کے ملزم کیوں ہیں؟ جن لوگوں پر ایسا سنگین الزام لگا انھیں، پارٹی سے کیوں نہیں نکالا گیا؟ آخر اناؤ کیس میں ایک مجبور نابالغ لڑکی کو انصاف کے لئے کیوں سی ایم ہاؤس کے سامنے خودسوزی کرنی پڑی؟ انھیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ بی جے پی کے سابق مرکزی وزیر چنمیانند سوامی کے اوپر سے یوپی سرکار کیوں ریپ کا کیس ہٹارہی ہے؟ مودی جی گفتار کے غازی رہے ہیں اور ریپ کے معاملوں میں بھی وہ گفتار سے آگے نہیں نکل پارہے۔ سوال یہ ہے کہ مریادا پرشوتم شری رام کی بات کرنے والوں کی سرکار میں جب سیتاؤں کی عصمت تار تار کرنے والے حکومت کی پناہ میں ہونگے تو خواتین کو انصاف کیسے ملے گا؟
برطانیہ میں بھارتی طالب علموں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے، اور ان سے مطالبہ کیاہے کہ وہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں عصمت دری کے مقدمات میں انصاف کو یقینی بنانے کے لئے لازمی اقدامات کریں۔ہندوستانی طلباء، لندن میں بھارتی ہائی کمیشن میں مودی کو خط پیش کرنے پہنچے۔ ہندوستانی وزیر اعظم کے چار دن کے دورے سے پہلے، مودی کو خط لکھنے والوں میں ہندوستانی طالب علم اور ہندوستانیوں کی19 سوسائٹیاں بھی شامل ہیں جنھوں نے، 14 اپریل کو ہندوستانی سفارت خانے کو خط دیا۔ انھوں نے اپنے خط میں، حال ہی میں جموں و کشمیر، اتر پردیش اور گجرات میں ہوئے عصمت دری کے واقعات کا ذکر کیا ہے اور ان معاملوں میں انصاف کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔
سارے جہاں میں دھوم۔۔
جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں 8 سال کی بچی آصفہ سے ہوئی درندگی کا معاملہ اقوام متحدہ (UN) تک پہنچ گیا ہے۔اقوام متحدہ نے معصوم بچی کے ساتھ گینگ ریپ اور اسے قتل کرنے کے معاملے کو’’ بھیانک ‘‘قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ اس درندگی اور وحشی پن کو انجام دینے والوں کو قانون کے دائرے میں لایا جانا چاہئے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتی نیو گتاریس کے ترجمان اسٹیفن دجارک نے کو میڈیا بریفنگ میں یہ باتیں کہیں۔ اس درمیان اقوام متحدہ کی وومن امپاورمنٹ ایجنسی کی سربراہ نے کہا ہے کہ ریپ اور قتل کے واقعات انسانیت کے وجود کے لئے خطرناک ہیں۔یہ سب کے لئے خطرے کا معاملہ ہے کہ ان واقعات کے ملزموں کو ضرور سزا دینا چاہئے۔اقوام متحدہ کی خواتین امور کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فومجل ملامبو کوکانے کہا کہ بھارت کے ریپ کیسوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’مذمت‘‘ اہم ہے لیکن اس سے زیادہ اہم ہے انصاف۔اسی طرح برطانیہ کے پاکستان نژاد ممبرپارلیمنٹ لارڈ احمد نے برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا ’’ہاؤس آف لارڈز‘‘ میں کٹھوعہ عصمت دری اور قتل کے معاملے کو اٹھایا اور الزام لگایا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔
عالمی میڈیا میں گونج
جموں و کشمیر کے کٹھوعہ میں ایک آٹھ سال کی بچی آصفہ کا عصمت دری کے بعد، قتل ہوا جس پرامریکہ کے معروف اخبار نیویارک ٹائمزنے ایک بڑی اسٹوری کی ہے۔اس نے لکھا ہے کہ عصمت دری اور قتل کا واقعہ بھارت میں مذہبی کشیدگی میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اخبار کی اسٹوری کے مطابق، بھارت میں ایک اور ہارر جنسی تشدد کا واقعہ ہوا ہے جس میں ایک کمزور سی بچی کے خلاف سفاکانہ سازش رچی گئی۔حالانکہ اس واقعے کو کچھ مہینے گزر گئے لیکن اس کے باوجود، تشدد کے اس واقعہ کو مذہب کے میدان میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ رپورٹ آگے کہتی ہے، ہندو قوم پرستوں نے معاملے کو شور شرابے میں تبدیل کر دیا ہے۔وہ انصاف کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ملزمان کو بچانے میں لگے ہیں۔تمام گرفتار شدہ ملزمین ہندو ہیں جب کہ متاثرہ طبقہ بکروال، مسلمان ہے۔ اس مسئلے پر نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹ پریس (اے پی) نے بھی تبصرہ کیا ہے، تاہم، اس نے اسے نربھیا کیس سے الگ قرار دیا ہے۔اے پی نے لکھا ہے کہ ریپ، ظلم وتشدداور اس کے بعد مسلم لڑکی کا قتل ہوا تو کشمیر میں مظاہروں میں اضافہ ہوا۔ہزاروں ہندووادی تنظیموں کے کارکن مارچ کر، ان چھ افراد کی رہائی کا مطالبہ کرنے لگے جنہوں نے ننھی بچی کا ایک ہندو مندر میں ریپ کیا تھا۔مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس معاملے میں تفصیلی رپورٹیں شائع کی ہیں۔رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ کٹھوعہ کے واقعے نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی بڑھا دی ہے۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی
بھارت کے ندر تو ریپ کے واقعات پرمظاہرے ہورہے تھے،اسی کے ساتھ دنیا بھر میں بھی آواز اٹھنے لگی۔ حقوق انسانی کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی تنظیموں نے ایک ساتھ مل نیویارک میں ’’انصاف ریلی‘‘ نکالی۔ ’’یونائیٹڈ فار جسٹس۔ ریلی اگینسٹ دی ریپ ان انڈیا‘‘ کا انعقاد امریکہ میں ایک ’’سادھنا‘‘ نامی ہندووں کی تنظیم نے کیا، جس کے ساتھ شہری حقوق کی وکالت کرنے والے دیگر 20 گروپوں نے مل کرریپ کے خلاف آواز اٹھائی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال سے حکومت اور ہندووادی طاقتیں گھبرائی ہوئی تھیں۔ بیرون ملک جو کچھ ہورہا تھا، اس سے تو بھارت کی شبیہہ خراب ہورہی تھی مگر ملک کے اندر جو کچھ ہورہا تھا، اس سے ووٹ خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ ڈر تو یہ بھی تھا کہ جس طرح ’’نربھیا کیس‘‘ کے بعد منموہن سنگھ سرکار سے عوامی ناراضگی بڑھی تھی، اسی طر ح ریپ کے تازہ واقعات موجودہ حکومت کے خلاف بھی عوامی طوفان نہ کھڑا کردیں۔ یہی سبب ہے کہ ایک طرف تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لگی محمد علی جناح کی تصویر کا معاملہ اٹھایا گیا تو دوسری طرف گڑگاؤں میں سڑکوں اور پارکوں میں نماز کو ایشو بنایا گیا۔ چند دن کے لئے میڈیاکو اسی پر لگادیا گیا اور پورا ملک ریپ کی سنگین وارداتوں کو بھول گیا۔(یو این این)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں