میم ضاد فضلی
اس میں شبہ نہیں کہ پندرہویں شعبان المعظم کی شب عبادات و استحضار الی اللہ اور استغراق فی اللہ کا عمل زمانۂ قدیم سے تواتر کے ساتھ امت مسلمہ میں رائج ہے۔اگر پندرہ شعبان المعظم کی شب سے متعلق فضائل کی احادیث کو شمار کیا جائے تو اس موضوع پروافر تعدادمیں روایات موجود ہیں ، البتہ تقریباً سبھی احادیث کسی نہ کسی لحاذ سے ضعیف ضرور ہیں۔ البانی نے ماہِ شعبان اور شبِ برات کے حوالے سے تقریباً ایک سو پینتیس (135) صحیح، حسن،ضعیف اور موضوع روایات کو مختلف کتبِ احادیث میں بیان کیا ہے۔اس سلسلے کی ایک صحیح روایت حضرت معاذبن جبلؓ سے مروی ہے ،جس سے نصف شعبان کی شب کی فضلیت کا پتہ چلتا ہے۔امام ترمذیؒ نے اپنی سنن میں اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے ،اماں فرماتی ہیں کہ’’میں نے اللہ کے رسولؐ کو ایک رات گم پایا۔میں (آپؐ کو تلاش کرنے کے لیے) نکلی تو آپؐبقیع (مدینہ کا قبرستان) میں موجود تھے۔پس آپؐنے فرمایا: ’’اے عائشہ! کیا تجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ سے ناانصافی کریں گے ؟‘‘تو حضرت عا ئشہؓنے کہا کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ !میرا گمان یہ تھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس گئے ہوں گے۔پس آپؐ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ (گناہوں )کی مغفرت فرماتا ہے ۔‘‘
شعبان کی پندرہویں شب’’شب برات‘‘کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ’’ اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟
ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرامؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں: قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برات میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔میں نے مشتے ازخروارے کی مصداق چند روایات یہاں بیان کردی ہیں۔کیا اس میں کہیں بھی یہ نظر آتاہے کہ محسن کائناتﷺ نے پندرہویں شعبان کی شب مسجد میں لمبے لمبے بیانات اور مولویوں کی بقراطی کیلئے جلسوں کا کوئی نمونہ پیش کیا ہو؟۔کیا صحابہ کرامؓ نے اس شب میں عبادات کا اہتمام کرنے کیلئے کوئی میلہ ٹھیلہ لگایا ہے؟ اگر رسول اللہؐ نے ایسا نہیں کیا ،ان کے سچے اور پکے متبعین یعنی صحابہ
کرام نے ایسا نہیں کیا تو پھر ہمارے لئے یہ گنجائش کہاں سے نکل گئی کہ مساجد میں اس رات تقریریں کریں اور لوگوں کو عبادت کے نام پر جمع کرکے اسلام میں ایک نئی بدعت کی ایجاد کریں۔ اگر وہ طبقہ یہی کام کرے جسے عرف عام میں دینی علوم سے ناواقف اور بدعات کا حامی کہا جاتاہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔مگرالمیہ تو یہ ہے کہ اس شب کی ساری عبادات اور فضیلت کی روح دیوبندی اور جماعتی مساجد سے نکالی جاتی ہے۔کیا وہاں کے ائمہ اور مولویوں کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ یہ میلے ٹھیلے ،خواتین اور بے پردہ دوشیزاؤں کا ہجوم ہمیں اللہ سے قریب نہیں کرسکتا ،بلکہ ہماری اس بدعت سے ہم پندرہویں شعبان کی فضلیت سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ہمارا مولوی اس رات میں مساجد کے بھونپوسے بقراطی بگھارتاہے؟ تقاضہ تو یہ تھا کہ ہماری مساجد سے توحید وسنت کے اور اعمال صالحہ کے نغمے بلند ہونے چاہئیں،جبکہ اس کے برعکس ہم نے اپنی مساجد کو بدعات کے پرچارکا اڈّا بنالیا۔اللہ رحم فرما! کیا یہ اسلام ہے ،اس لئے کہ یہ کام ہمارا مولوی اور ہمارے عوام کررہے ہیں۔حالی نے درست ہی کہاہے
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جُھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں
وہ بدلہ گیا آکے ہندوستان میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت کھو بیٹھے آخر مسلمان
نبی کو جوچاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جاجاکے مانگیں دعائیں
نہ تو حید میں خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
مختصر یہ کہ پندرہویں شعبان کی رات قبروں پر پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورقبرستان و مساجد میں چراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برات کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے ، اجتما ع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(13،14،15) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثواب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اور حلو ے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے ۔بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔میں سلام کرتا ہوں مصطفی آباد دہلی اور اس کے قرب وجوار کے مسلمانوں، ائمہ کرام اور علماء حضرات کو جنہوں نے پہلے سے اعلان کردیاہے اس رات کسی بھی مسجد میں جلسہ نہیں ہوگا ،سڑکوں اور عوامی مقامات پرموٹرسائیکل ریسلنگ ،ہلڑ بازی اور اسٹنٹ کرکے اسلامی معاشرہ کو بدنام کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا جائے گا،جنہیں عبادت کرنا ہے وہ اپنے گھروں میں کریں اوراللہ سے مغفرت طلب کریں، عالم انسانیت کیلئے امن وسلامتی کی دعاء مانگیں۔ چاہیں تو خموشی کے ساتھ اپنی بشاشت سے قبرستان جائیں ورنہ نہیں۔
08076397613
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں