یہ آنسو آنکھ سے آئے نہیں ہیں دل سے آئے ہیں

0
673
فائل فوٹو
All kind of website designing

محمد خالد ضیا صدیقی ندوی 

ان دنوں قضیۂ مسجدبابری پھرسرخیوں میں ہے،اسے سرخیوں میں ہونابھی چاہیے کہ شہادت اپنےبعد “سرخی اورسرخ روئی” ہی کاپیغام دیاکرتی ہے۔  ـ
زورہی کیاتھاجفائے باغباں دیکھاکیے
آشیاں اجڑاکیا، ہم ناتواں دیکھــاکیے
استاد محترم مولاناسیدسلمان حسینی ندوی مدظلہ کی ایک رائے آئی۔ اس کا ایک جماعت کی طرف سے محبت کے ساتھ استقبال کیاگیاتودوسری جماعت کی طرف سے نفرت وعداوت سے؛ افسوس کہ دونوں جماعتیں راہ اعتدال سے ہٹتی ہوئی نظر آئیں۔  ایک نے محبت وعقیدت میں افراط اورغلو کارویہ اپنایا، تودوسری نے تفریط وعداوت کا۔ دونوں جماعت کی نظر سے جوچیز غائب رہی وہ تھی “اعتدال”ـ۔ اہل علم مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ بے اعتدالی (افراط وتفریط) کی مذمت سے قرآن وحدیث لبریز ہیں؛ گمراہ قوموں کی گمراہی کاایک بڑاسبب یہی بے اعتدالی رہی ہے ـ ـ ـ

مگرافسوس کہ امت مسلمہ اوربالخصوص خواص امت آج بے اعتدالی کاسب سے بڑاعنوان بن کررہ گئے ہیں۔  برقی ذرائع ابلاغ کےمفید پہلو کا کون داناانکارکرسکتاہے! لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس ظالم نے جاہل کو عالم، اورعالم کوجاہل بنادیا، ایک عامی کودانش ور اوردانش ور کو صف عوام بلکہ صف نعال کی راہ دکھائی؟ منفی اثرات کاسب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو جوابھرکرسامنے آیا ہے، وہ ہے بڑوں کے احترام کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی بری طرح پامالی ـ ۔ آخریہ کون ساطریقہ ہے کہ جس شخصیت کانام ہم احترام، سابقے اورلاحقے کے اضافے کے ساتھ لیاکرتے تھے، اس کی ایک رائے آنے کے بعد مخالفت میں سارے حدود کوتوڑکر اسےایک عامی کی فہرست میں شامل کردیاجائے، اس کی شخصیت کومطعون اورذات کومجروح کیاجائے۔  مجھے بتایاجائے کہ جوش جذبات میں پاس ادب کوفراموش کرناکس مذہب کی تعلیم ہے؟ کیااسلامی نقطۂ نظر سے اس کی اجازت کسی کودی جاسکتی ہے؟ افکارونظریات پر نقدوتبصرے کے نام سے اشخاص کی تنقیص وتوہین انتہائی غیرشریفانہ اورغیراسلامی طرزعمل ہے۔ ـ
دوسری طرف عقیدت ومحبت میں بصیرت وبصارت کوکھودینا بھی قابل نفریں عمل ہے۔  ان دودنوں میں اس حوالے سےبے بصیرتی کے جونمونے سامنے آئے وہ قابل مذمت اورحددرجہ افسوس ناک ہیں۔ ــــ اس موقع پر مجھے علامہ سید سلیمان ندوی رح کاوہ بلیغ جملہ یادآتاہے، جس میں بے اعتدالی کےمضمون کوبڑی خوب صورتی کے ساتھ مختصرسے الفاظ میں سمیٹ کررکھ دیاگیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: محبت اورعقیدت کی نظر جہاں مخدوموں کی بہت سی خامیوں کودیکھنے سے قاصررہتی ہے، وہاں بدگمانوں کی نگاہیں سب سے پہلے ان ہی پرپڑتی ہیں، اوران کے تکرارو اعادے میں ان کوایسی لذت ملتی ہے کہ وہ ممکن کمالات سے بھی اغماض برت جاتی ہیں ۔ حضرت امام شافعی رح کا درج ذیل شعر بھی افراط وتفریط کے ماروں کودعوت فکروعمل دیتاہے جو (بقول مولانانورعالم خلیل امینی مدظلہ) شایددنیاکے سب سے زیادہ سچے شعروں میں سے ایک ہے:
وعين الــــرضاعن كل عيب كليــــــلة
كماأن عين السخط تبــــدي المساويا
( نگاہ خوشی ہرعیب سے کوری ہواکرتی ہے، جب کہ نگاہ ناخوشی سارے عیوب کو بے نقاب کردیتی ہے)
جولوگ نفرت وعداوت میں اپنی زبان کو بدگوئی، الزام تراشی اورشخصی اہانت آمیزریمارک سے اوراپنے قلم کو کردارکشی، قدتراشی اور اقدارکی پامالی سے محفوظ رکھناچاہتے ہیں ان کے لیے سیدصاحب علیہ الرحمہ کایہ جملہ اورامام شافعی رح کایہ شعر درس عبرت ہے ـــــــ اورجولوگ محبت وعقیدت میں اپنے محبوب کے معائب کومحاسن اورنقائص کوفضائل کی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے بھی یہ تازیانے سے کم نہیں ۔ـ
جہاں تک تعلق ہے استاد محترم کی رائے کا، توسارے احترام وعظمت کے اعتراف کے باوجود اس رائے سے کلی طور پر متفق نہیں ہوں۔  مذاکرات کی حدتک ان کی بات کودرست مانتااورسمجھتاہوں، لیکن جس انداز میں مذاکرات ومصالحت کی پیشکش اور مذکرات کے بعد جن خدشات کے ختم ہونے کی بات انھوں نےکی ہے، ماضی کے احوال اور ہندوستان کی موجودہ فضاکودیکھتے ہوئے اس کے امکانات بہت کم ہیں،اس لیے میں دیانۃً یہی سمجھتا ہوں کہ بورڈ کی آواز کومولانااگرمضبوط کرتے تو ملت کے ایک بڑے طبقے کو یہ کہنے کاموقع بالکل نہ ملتا کہ:
حمیت پر بڑا              الزام  آیا،      اتہام  آیا
چمن میں روتی ہے بلبل کہ     شاہیں زیردام آیا
تڑپ جی کھول کراے دل! تڑپنے کامقــــــــــام آیا
ہمیں تاریخ پھر         افسانہ عبــــرت سناتی ہے
یہ امت اکثر اپنوں ہی کے ہاتھوں چوٹ کھاتی ہے
مزار حضرت    اقبــــال      سے یہ آواز آتی ہے
یہ ناداں گرگئے سجدے     میں جب وقت قیام آیا
ہم محبین کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ اس وقت آیا جب یہ معلوم ہواکہ مولانا کو بعض اراکین بورڈ کی جانب سے اپنی بات رکھنے میں کافی دشواریوں کاسامناکرناپڑا، ماحول کو ناخوشگواراورفضاکو مکدر بنانے کی کوشش کی گئی، اگریہ بات سچ ہے توہم اس کی پرزورمذمت کرتے ہیں، مگراسی کے ساتھ جب ہم مولاناکے انٹرویو کے دوسرے رخ کودیکھتے ہیں جس میں انھوں نے بورڈ اور ترجمان بورڈ کوآڑے ہاتھوں لیا ہے، غیرواقعی، حکمت ودانائی سے دور بات کہی ہے، اور جس اسلوب وانداز میں دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں ـ ـ ـ سچی بات یہ ہے کہ خلاف توقع اس طرزعمل اورغایت صدمہ سے دل چور چوراور لخت لخت
ہوگیا:
شاید کسی کے دل کولگی اُس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیــــــــشۂ دل چور ہوگیا
بورڈ کے مولانارکن تاسیسی رہےہیں،بورڈ کے پلیٹ فارم سے مولاناکی خدمات کاانکار نہیں کیاجاسکتا، اگر بالفرض ان کی بات نہیں سنی گئی یانہیں مانی گئی تو مخلصانہ جذبات کوبرقراررکھتے ہوئے بورڈ کی اگلی نشستوں میں شرکت کرنی چاہیے تھی کہ:
دفعتاً ترک تعلق میں بھی رســــوائی ہے
الجھے دامن کوچھڑاتے نہیں جھٹکادے کر
خبروں کے مطابق مولانااب بورڈ کے ممبر نہیں رہے؛ لیکن مولاناکی شخصیت اور کام کو دیکھتے ہوئے قیادت کوہمیشہ یہ احساس کچوکے لگاتارہے گا کہ:
اے دوست! ہم نے ترک تعلق کے باوجود 
محسوس کی ہے تیری، ضرورت کبھی کبھی
کل کادن میری باہوش وباشعورزندگی کاسب سے غم انگیزدن تھا،شدت غم سے سچ مانیے دیررات تک نیند مجھ سے دوررہی:
یہ غــــم ایساہے کہ پھرغم نہ کوئی یادرہا
یوں توہردور میں رنج آئے ہیں، غم آئے ہیں
ویسے اب اس قضیے کو جلد حل ہوناچاہیے، ارباب حل وعقد اور اصحاب بصیرت کوحکمت ودانائی کے ساتھ اس سلسلے میں کوششیں تیزترکرنی چاہئیں، اور ہندی مسلمانوں کو خداکے حضور اپنی مجرمانہ زندگی سے توبہ کرتے ہوئے ان کی رحمت کو متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے اوربصد نازونیاز یہ عرض کرناچاہیے کہ:
یارب مــــرے نصیب کاکچھ فیصـلہ تـوکـــر 
میں یونہی ڈوب جاؤں گایاساحل بھی آئے گا
اللہ تعالی سے دعاہے کہ امت مسلمہ اور بالخصوص ہندی مسلمانوں کی ہچکولی کھاتی کشتی کو بعافیت ساحل تک پہنچائے،ملی اور مذہبی قیادتوں پرہمارے اعتمادکو متزلزل ہونے سے بچائے اورہمارے قائدین کی خدمات کوقبول کرتے ہوئے فراست ودوراندیشی اور جرأت ودانائی میں انھیں اسلاف کا سچاجانشین بنائے، آمین ـ
 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here