نوادرات شبلی: ایک تعارف

0
2015

تالیف ڈاکٹر الیاس الاعظمی

تبصرہ: حکیم وسیم احمد اعظمی

’نوادراتِ شبلی‘ ماہر شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی(پیدائش:۲۳ستمبر۱۹۶۶ء) کی مرتب کردہ تازہ ترین کتاب ہے۔اس سے پہلے شبلی نعمانی کے حوالہ سے ان کی گیارہ کتابیں متعلقا ت شبلی، کتابیاب شبلی،شبلی سخنوروں کی نظر،مکتوبات شبلی،آثار شبلی،شبلی کے نام اہلِ علم کے خطوط،شبلی شناسی کے سو سال ،اقبال اور دبستان شبلی،شبلی اور جہان شبلی نیز مراسلات شبلی شائع ہوکر اہلِ فکر ونظر کا اعتبار حاصل کرچکی ہیں۔زیر نظر کتاب جو در اصل علامہ شبلی نعمانی کی اُن نودریافت تحریروں کا مجموعہ ہے ، جو اُن کی تحریروں کے کسی مجموعہ میں شامل نہیں ہے۔ ۲۵۶صفحات پر مشتمل اور اصیلہ پریس،نئی دہلی سے اکتوبر۲۰۱۷ء میں شائع یہ کتاب ’شبلیات‘ میں ایک بیش قدر اضافہ ہے۔علم دوست عطا خورشید کے نام معنون اور پروفیسر اختر الواسع کی تعارفی وتأثراتی تحریرسے مزین یہ کتاب درج ذیل سات ابواب اور کتابیات پر مشتمل ہے:
بابِ اوّل: مضامین
۱۔غضاری رازی
۲۔کتب خانہ اسکندریہ
۳۔موجودہ زمانہ میں تاریخ کا فن
۴۔Education
اس باب کے مضامین ،بالخصوص اس کے چوتھے مضمون ’ایجوکیشن‘ کے بارے میں ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی لکھتے ہیں:
’’ نودریافت مضامین اس لحاظ سے بے حد اہم ہیں کہ ان سے اب تک علامہ شبلی کی فکر و نظر پر بحث وتنقیدمیں تعارض نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں تعلیم کے موضوع پر ایک انگریزی تحریر شامل ہے جو یقینی طور پر ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ کس کے قلم سے ہے ،اس کا علم اب تک نہیں ہوسکا۔خود یہ بات کہ علامہ شبلی نے ۱۹۱۱ء میں شملہ کی اُورینٹلسٹ کانفرنس میں شرکت کی تھی اور تعلیم کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا تھا،یہ انکشاف بھی حیات شبلی میں ایک اضافہ ہے‘‘ (دیباچہ،ص۱۵)
بابِ دوم: خطبات
۱۔اظہارِ تشکر
۲۔یوروپین سائنس و لٹریچر
۳۔ختمِ نبوّت
۴۔تعلیم وتربیت
۵۔نصابِ فارسی
۶۔الاسلام ( مذہب انسان کی فطرت میں شامل ہے)
۷۔علمِ کلام
علامہ شبلی نعمانی کے ان خطبات کے بارے میں ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی لکھتے ہیں: 
’’ زیرِ نظر کتاب میں شامل سات خطبات’خطباتِ شبلی‘ کے علاوہ ہیں اور نئی دریافت ہیں اور بلاشبہ بڑے اہم اور وقیع ہیں اور بعض خطبات مثلاً ’ختمِ نبوّت‘ وغیرہ ذخیرۂ شبلیات میں پہلی بار آئے ہیں‘‘۔ (دیباچہ،ص۱۶)
’نصابِ فارسی‘ پر علامہ شبلی کے خطبہ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
’’ فارسی زبان کی حمایت میں اُنہوں نے جو تقریر کی ہے وہ بے حد اہمیت کی حامل ہے۔اس میں اُنہوں نے فارسی کی بحیثیت زبان اور اس کی لسانی،تہذیبی اور تمدنی خوبیاں جس طرح بیان کی ہیں شاید اہلِ زبان نے بھی اس خوبی سے بیان نہ کی ہوں گی۔‘‘ (دیباچہ،ص۱۷)
بابِ سوم: دیباچہ و تقریظ
۱۔ عربی بول چال
۲۔تعلیم
۳۔حیات النذیر
۴۔سفر نامہ ابن بطوطہ
۵۔مصباح القواعد
۶۔دستور نامہ(فارسی)
۷۔فطرت الاسلام
۸۔The Taj its Environment
۹۔تاریخ النوائط
۱۰۔تاریخِ تمدن
۱۱۔خطوط منشی امیر احمد
۱۲۔ بحر الحکمت
۱۳۔سر سید احمد خاں کا سفر نامہ پنجاب
۱۴۔الایمان
۱۵۔ ادیب الٰہ آباد
۱۶۔ ماہ نامہ عصر جدید،میرٹھ
اس باب کے مشتملات،بالخصوص آٹھویں تحریر کے بارے میں ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی لکھتے ہیں:
’’ یہ محمد معین الدین کی کتاب معین الآثار یا تاریخِ آگرہ مطبوعہ ۱۹۰۴ء کا انگریزی ترجمہ ہے ،یہ ترجمہ ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔اس کے آخر میں مختلف آراء درج ہیں ،اس میں علامہ شبلی کی رائے بھی شامل ہے ۔غالباً مترجم نے اسے انگریزی کا جامہ پہنایا ہے ۔[نوادرات ، شبلی،ص۱۲۸]
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی مزید لکھتے ہیں:
’’ان دیباچوں سے جہاں شبلی اور عہدِ شبلی کی دیباچہ نگاری کے اوصاف سامنے آتے ہیں وہیں ان کے بعض افکار کی بھی وضاحت ہوتی ہے‘‘۔ (دیباچہ،ص۱۷)
بابِ چہارم:مکتوبات
۱۔مکتوب بنام شیخ حبیب اللہ
۲۔مکتوب بنام منشی نجم الدین
۳۔مکتوب بنام مولانا ارشاد حسین رام پوری
۴۔مکتوب بنام مولوی محمد سمیع
۵۔مکتوب بنام مولوی محمد سمیع
۶۔مکتوب بنام میر صدر الدین حسین خاں
۷۔مکتوب بنام نامعلوم
۸۔مکتوب بنام آنریری سکریٹری مسلم ایجو کیشنل کانفرنس
۹۔مکتوب بنام نا معلوم
۱۰۔مکتوب بنام حبیب الرحمٰن خاں شیروانی
۱۱۔مکتوب بنام حبیب الرحمٰن خاں شیروانی
۱۲۔مکتوب بنام مولانا ابو الکلام آزاد
۱۳۔مکتوب بنام مولانا اشرف علی ایم اے
۱۴۔مکتوب بنام ایڈیٹر وکیل امرت سر
۱۵۔مکتوب بنام ڈاکٹر سر ضیاء الدین
۱۶۔ مکتوب بنام مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی
۱۷۔مکتوب بنام سید عبد الحی حسنی
۱۸۔مکتوب بنام سید عبد الحی حسنی
۱۹۔مکتوب بنام نا معلوم
۲۰۔مکتوب بنام میر اصغر علی
۲۱۔مکتوب بنام مولوی محبوب عالم
۲۲۔مکتوب بنام سید عبد السلام
۲۳۔مکتوب بنام نائب ناظم ندوہ
۲۴۔مکتوب بنام خواجہ کمال الدین
مکاتیبِ شبلی کے حوالہ سے شبلیات میں اب تک چار مجموعے شائع ہوئے ہیں،جن میں بحیثیت مجموعی ۱۰۹۱ خطوط شامل ہیں،اب اِن۲۴ نئے خطوط کی دریافت کے ساتھ یہ تعداد ۱۱۱۵ تک پہنچتی ہے۔ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے ایک حسب ضرورت ان نودریافت خطوط پر توضیحی نوٹ لکھ کر مکتوب الیہ سے بھی واقفیت کرادی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’ یہ مذکورہ نو دریافت خطوط علامہ شبلی کے فکر و خیال کے لحاظ سے بھی بے حد اہم ہیں ۔مطالعاتِ شبلی میں انہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ [دیباچہ،ص۱۹]
بابِ پنجم: مراسلات
۱۔ جامعہ مدینہ منورہ کا نظام ونصابِ تعلیم
۲۔اختلاف ندوۃ العلماء 
علم کی تفہیم وتوسیع اور اپنے موقف و منہج کی توضیح کے لیے علامہ شبلی نعمانی نے بکثرت مراسلے لکھے ہیں،جو اُس دور کے موقر جریدوں ہمدرد دہلی،زمیندار لاہور،الہلال کلکتہ،وکیل امرتسر،پیسہ لاہور،الہلال مصر،المنار مصر اور بیروت کے اخبار میں شائع ہوتے تھے۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی تلاش و تفحص کے بعدایسے ۲۶ مراسلات کو یکجا کرکے ’مراسلاتِ شبلی‘ کے نام سے طبع کراچکے ہیں،بعد میں دو مزید مراسلات دریافت ہوئے، جواس باب میں شامل کیے گئے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
’’ اس کی اشاعت کے بعد دو اور بڑے اہم مراسلات قدیم اخبارات میں مل گئے ،جنہیں زیرِ نظر کتاب میں شامل کردیا گیا ہے۔ایک مراسلہ میں ندوۃ کے تکلیف دہ حالات اور مخالفینِ شبلی کے بعض الزامات کا ذکر ہے ۔جب کہ دوسرے میں مدینہ یونیورسٹی کے نصاب و نظام پر بحث کی گئی ہے۔واضح رہے کہ مکہ یونیورسٹی کی تجویز شبلی اور مدینہ یونیورسٹی کے نصابِ تعلیم کی ترتیب کا معاملہ حیاتِ شبلی کا نودریافت باب ہے۔‘‘ [دیباچہ،ص ۱۹]
باب ششم: منظومات
۱۔ مدح سرسید
۲۔قصیدہ خلیفہ سید محمد حسن کی خدمت میں
۳۔قصیدہ بخدمت نواب آسماں جاہ
۴۔قصیدہ بخدمت مسٹر جوزف بک
۵۔قصیدہ بخدمت مدار المہام حیدر آباد دکن
۶۔تقریظ مثنوی شمامہ مشام افروز
۷۔اے دکن
۸۔مرثیہ
۹۔تاریخی مادے
۱۰۔الوداعی نظم
۱۱۔بندول
۱۲۔ غزلیں(فارسی)
۱۳۔متفرق اشعار(فارسی)
۱۴۔غزلیں(اردو)
ان منظومات کے بارے میں ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی لکھتے ہیں:
’’ اس باب میں شبلی کے صرف قصیدے ہی نہیں بلکہ متعدد متفرق نودریافت منظومات بھی شامل ہیں ۔اس میں ایک کتاب پر منظوم تقریظ بھی ہے،متفرق اشعار بھی ہیں،فارسی کی متعدد غزلیں بھی ہیں اور آخر میں علامہ شبلی کا اردو کلام یکجا کیا گیا ہے۔اس میں نودریافت غزلوں کے ساتھ تمام اردو غزلیں ظفر الملک علوی ایڈیٹر الناظر کے مرتب کردہ مجموعہ’ کلامِ شبلی‘ (مطبوعہ ۱۹۱۸ء) سے شامل کی گئی ہیں،کیوں کہ یہ کلیات میں شامل نہیں ہیں۔کئی لحاظ سے یہ باب بہت اہم ہے ۔اس میں شبلی کے بلند شاعرانہ فکر وشعور کے جلوے نگاہوں خیرہ کرتے ہیں‘‘۔ (دیباچہ،ص۲۰)
بابِ ہفتم: متفرقات
۱۔عربی تحریر
۲۔المعارف
۳۔محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میگزین
۴۔ندوۃ العلماء کا تیسرا سالانہ جلسہ
۵۔تراجمِ کتب
۶۔چندہ برائے انجمن ترقی اردو
۷۔انجمن کی ایک رپورٹ
۸۔انجمن کے دستور العمل میں ترمیم
۹۔سودیشی تحریک
۱۰۔ اولڈ بوائے
۱۱۔عماد الملک کا کتب خانہ
۱۲۔وقف اولاد
۱۳۔انجمن اسلام جنجیرہ
۱۴۔رپورٹ ترجمۂ قرآن مجید بزبان انگریزی
۱۵۔مولوی غلام علی آزاد بلگرامی کی دونایاب کتابیں
۱۶۔معارف
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی لکھتے ہیں:
’’ اس باب میں علامہ شبلی کے قلم سے نکلی ہوئی علم وادب اور تاریخ و تنقید کے مختلف موضوعات پر متفرق اور منتشر تحریروں کو جمع کیا گیا ہے،جو اس سے پہلے کسی مجموعہ میں شامل نہیں۔ اس میں بہت سی تحریریں بے عنوان تھیں،راقم نے ان کے عناوین طے کردیئے ہیں۔معلومات اور خیالاتِ شبلی کے لحاظ سے یہ باب بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔مکمل شبلی اور ان کی معنویت کی باز یافت کے لئے اس باب کا مطالعہ قدر دانانِ شبلی کے لئے بے حد ضروری ہے‘‘۔ (دیباچہ،ص۲۱،۲۰)
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے ان ساتوں ابواب کے مشتملات کے اخذ واستنباط اور ان کے بیانیہ میں جواسلوب اور روش اختیار کی ہے، وہ معروضی ہے اور ایک نئے منہجِ تحقیق کی نشان دہی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ ہر باب کی تقریباً تمام نودریافت تحریروں پر تشریحی اور توضیحی نوٹ لکھے گئے ہیں،جس سے اس کے مالہ وما علیہ کا پورے طور پر اندازہ ہوجاتا ہے۔یہ تحریریں کہاں دریافت ہوئیں ،ان کا حوالہ بھی دے دیا گیا ہے۔ان کے استناد پر بھی بحث کی گئی ہے،کہیں کہیں افادیت کا بھی ذکرکیا گیا ہے اور کہیں صرف حوالوں پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔امتیاز کے لئے یہ تمام تفصیلات حوض میں درج کی گئی ہیں‘‘۔ (دیباچہ،ص۲۱) 
کتابیات
اس عنوان کے تحت ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے اِس کتاب کی ترتیب میں شامل ان ۴۲ کتابوں اوررسالوں کی فہرست نقل کی ہے،جن سے انہوں نے اکتسابِ فیض کیا ہے ۔ یہ فہرست کتاب کے مرتب کے تحقیقی مزاج کی آئینہ دار بھی ہے ۔
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی علم وادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ ان کی تحریروں کی اساس تحقیق اور تہذیبی ورثہ کے تحفظ پر ہے۔ان کا بیانیہ انتہائی سادہ اوربے حدسہل ہے،جو موضوع پر ان کی دسترس کی غمازی کرتا ہے۔ شبلیاتی ادب کی یافت اور باز یافت ان کی اوّلین ترجیح ہے،تاہم انہوں نے دیگر علوم اور اہلِ علم ودانش کے بارے میں بھی لکھ کر اعتبارَ نظر حاصل کیا ہے۔اسہل التجوید،تذکرۃ القراء،علم الترسیل،علامہ سید سلیمان ندوی بحیثیت مؤرخ،دار المصنفین کی تاریخی خدمات،اشاریہ ماہ نامہ الرشاد اعظم گڑھ،عظمت کے نشاں، ساحلوں کے شہر میں، شاہ معین الدین احمد ندوی،مطالعات ومشاہدات،کتابیں (حصّہ اول)،کتابیں (حصّہ دوم)،یگانۂ روز گار مولانا عبد السلام ندوی،عکس واثر،کتابیاتِ مجیب، قرائے عظام اور ان کی علمی ودینی خدمات،محبت نامے،رحمتِ عالم (اردو سے ہندی)،اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر،موازنۂ انیس و دبیر،کاروانِ رفتگاں ،تاریخِ اعظم گڑھ،اسفارِ مجیب اور کلیاتِ نشور واحدی(حصّۂ غزلیات) وغیرہ ان کی ایسی ہی کتابیں ہیں۔ان کتابوں کے ناموں سے صاحبِ کتاب کی کثیر جہتی اورتبحرِ علمی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
آج ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا نام علمی وادبی دانشوری کے حوالہ کے طور پر لیاجاتا ہے، دراصل یہ سچ کا اعتراف اور حقیقت کا اظہار ہے ۔ 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here